لیون ٹراٹسکی اور قومی سوال(سوم،آخری حصّہ )۔۔پارس جان

ٹراٹسکی نے جہاں ایک طرف ہمیشہ اور ہر قیمت پر مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت کا دفاع کیا وہیں اس نے مظلوم اور ظالم اقوام دونوں کی بورژوازی کے اس اہم مدعے پر منافقانہ اورموقع پرستانہ رویے کو بھی پوری جرأت اور دیانتداری سے بے نقاب کیا۔ مثال کے طور پر پہلی عالمی جنگ کے دوران سو یٹزر لینڈ کے شہر لوزین میں چھوٹی اورمظلوم اقوام کی ایک کانگریس منعقد کی گئی جس میں تئیس مظلوم قومیتوں کے مندوبین نے شرکت کی جن میں روس کے فنز، پولز، جارجیئنز، یوکرائینی، لیٹویئن، لتھوائنی سمیت تقریبا تمام محکوم اقوام شامل تھیں، روسی اقوام کے علاوہ کانگریس میں آئر لینڈ، البانیہ، مصر اور تیونس کے نمائندے بھی موجود تھے اور یہودیوں کو بھی بطور قوم کے نمائندگی دی گئی تھی۔ کانگریس میں تمام اقوام کے حقِ خود ارادیت کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ ٹراٹسکی نے اس کانگریس کا خیر مقدم کیااور اس کانگریس کی طرف اتحادی ممالک کے حکمران طبقے کی منافقانہ پالیسی کی شدید مذمت کی۔ اس وقت سارا مغربی بورژوا میڈیا عام طور پر اتحادی ممالک کی مشہورزمانہ ’قومی اصول‘کی پالیسی کے گن گا رہا تھا۔ اس پالیسی کا بظاہر لب لبا ب یہ بتایا جاتا تھا کہ اتحادی، در حقیقت، تمام اقوام کی آزادی کی خاطر عالمی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اسی منافقانہ پالیسی کے تسلسل میں لوزین کانگریس کی حمایت کا ناٹک بھی کیامگر حقِ خود ارادیت کی اصل روح کو یکسر مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ٹراٹسکی نے ان سامراجیوں کے جمہوری کھلواڑ کا پردہ فاش کرنے کے لیے ضروری اور اہم مضامین تحریر کیے۔ ”دی نیشنل پرنسپل“ کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں ٹراٹسکی نے ایک فرانسیسی اخبار ”دی سپارک“ جسے فرانس کی ترقی پسند بورژوازی کا نمائندہ اخبار سمجھا جاتا تھااور جس میں ٹراٹسکی کے بقول فرانسیسی بورژوازی کی خواہشات کے برعکس کبھی کبھار سچائی کا کوئی پہلو برآمد ہو ہی جاتا تھا، سے لوزین کانگریس میں حق خود ارادیت کے حق میں پاس ہونے والی قرارداد کے بارے میں لکھی گئیں چند سطور نقل کیں جن میں درج تھا کہ:

”اس پروگرام پر عملدرآمد میں عملی مشکلات یہ ہیں کہ ہر کوئی اپنے دشمنوں کی قومی اقلیتوں کے حقِ آزادی کو تو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے مگر اپنی اور اپنے اتحادیوں کی محکوم اقوام کے حقوق پر بات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں، مثال کے طور پر اگر جرمنی کے مخالف سامراجی اتحاد کی بات کی جائے تو وہ جرمنی اور آسٹریا کے زیر تسلط غیر جر من اقوام کی آزادی کا مطالبہ تو کررہے ہیں، اسی طرح ترکی کے قبضے میں موجود غیر ترک نسلی گروہوں کی آزادی کے حق کو تو تسلیم کر رہے ہیں مگر وہ اپنے اتحادی روس کے اپنی مظلوم اقوام کی طرف رویئے پر بات کرنے کو تیار نہیں“۔

ٹراٹسکی اپنی بات جاری رکھتا ہے کہ:

”لوزین کانگریس میں کرغز بھی شامل تھے جو زار کے تسلط کی شکایت کرنے کے لیے وہاں موجود تھے، اس پر روسی سوشلسٹ، روسی انقلابی اور روسی تارکین وطن کیا کہیں گے جو اس کانگریس سے قبل تک جناب سازونوف (روسی وزیر خارجہ)کے اس مؤقف کے ہمنوا بنے ہوئے تھے کہ روس اس جنگ میں آزادی کے مقصد کے لیے شامل ہوا ہے۔ ہم ان لوگوں سے بین الاقوامیت پسندی کا مطالبہ ہرگز نہیں کریں گے لیکن اگر یہ خود کو محب وطن ڈیموکریٹ بھی قرار دیتے ہیں تب بھی انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ شرمندگی سے بچنے کے لیے یہ ہمیشہ اتحادیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بے شرمی سے کہتے ہیں کہ ہاں روس ایک جابر ملک ہے مگر مغربی جمہوریتوں کے تعاون سے فتح کے ذریعے روس وہ تمام داخلی اور خارجی معجزے سر انجام دے گا جو جر منی نے ہر صورت میں شکست کے بعد سرانجام دینے ہیں۔ لیکن اس مدعے پر اتحادیوں کی حقیقت حقارت آمیز ہے۔ مشرق بعید کو تو رہنے ہی دیں جہاں روس نے جاپان کے ساتھ مل کر چین کی پشت پر آنے والی دہائیوں میں ’قومی اصول‘کے تازیانے برسانے ہیں۔ یہ نصف ارب کے قریب چینی باشندوں کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے جبکہ پلیخانوف اور کروپوٹکن جرمنی کی معمولی سی ریاست شلیس وِگ۔ہولسٹائن کی آزادی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ چلیں ہم اپنے آپ کو مغربی جمہوریتوں تک محدود کر لیتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں آئرش لوگوں کی بات بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ برطانیہ عظمیٰ کتنی سخاوت اور کشادہ دلی سے ڈبلن میں اپنا مقدس قانو ن لاگو کیے ہوئے ہے۔ تاہم کونولی اور دیگر باغی، جن کو سولی پر لٹکایا گیا یا گولی مار دی گئی، وہ کبھی بھی ایک آئرش پارلیمان سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ آزادی کی راہ میں شہید ہوچکنے کے بعد و ہ ابھی زیرزمین حشرات کی پارلیمان سے محظوظ ہو رہے ہوں گے۔ چلو آئرلینڈ کو بھی چھوڑ دیتے ہیں بلکہ سارے برطانیہ کو ہی رہنے دیں، فرانس کی کیا صورتحال ہے؟ فرانس اور برطانیہ جیسی سامراجی قوتو ں کے لیے ’مقامی‘لوگوں کا سوال بہت اہم ہے۔ لوزین کانگریس کی قرارداد انسانی نسلوں کی ’اعلیٰ‘اور’ادنیٰ‘میں تقسیم کو قبول نہیں کرتی جبکہ یہ سامراجی اسی فلسفے کے تحت کالونیوں پر مسلط ہیں۔ دی سپارک اخبار اسی کانگریس میں الجزائر کے باشندوں کو متعلقہ اداروں میں سنجیدہ نمائندگی دیئے جانے کے مطالبے پر مبنی بل کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے مگر عین اسی وقت جب یہ سیشن جاری تھافرانس کے زیر تسلط مشرق بعید میں چین و ہندکی سرزمین پر ایک واقعہ پیش آیا جو قومی اصول کے حوالے سے شاید زیادہ حوصلہ افزانہیں ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد آبادی والی فرانسیسی نو آبادی اینم (ویتنام کے ایک علاقے کا پرانا نام) میں قومی آزادی کے جھنڈے تلے ایک بغاوت شروع ہو گئی۔ اینم کا نوجوان بادشاہ دوئی تان، جو کہ فرانسیسیوں کا محض مقامی دم چھلہ ہی تھا، اپنی رعایا کی قومی انقلابی تنظیم کے ساتھ رابطے میں آ گیا۔ ان کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں وہ اپنے محل سے فرار ہو کر کسی گاؤں میں منتقل ہو گیا اور اس نے قوم سے ایک انقلابی اپیل کرتے ہوئے اینم کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ مگر (فرانس کی) تیسری جمہوریہ کی حکومت نے جلد ہی صورتحال قابو میں کر لی۔ باغی کو پکڑ لیا گیا، اسے ان کے دارالخلافہ لایا گیا اور ایک قلعے میں قید کر دیا گیاجہاں اب اسے گھٹیا بورژوا اخبارات پڑھنے (اگرفراہم کیے گئے) اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن کو حفظ کرنے کے لیے کافی فرصت میسر ہو گی۔“

اس کے ساتھ ساتھ ٹراٹسکی نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے حریت پسندوں کو خبردار بھی کیا کہ سامراجی ان کی تحریکوں کو کیسے اپنے وحشیانہ عزائم اور دنیا کے وسائل کی آپسی بندر بانٹ یا تقسیمِ نو کے لیے استعمال کر تے ہیں۔ معروضی حقائق پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے محض آزادی آزادی چلانے یا حقِ خود ارادیت کا ورد کرنے سے آزادی کی منزل قریب آنے کی بجائے اور دور چلی جاتی ہے۔ ٹراٹسکی عالمی جنگ کے ایک انتہائی اہم واقعے سے اس مسئلے کی اہمیت کو ان الفاظ میں اجاگر کرتا ہے:

”اتحادیوں نے آسٹرو ہنگری کے ایڈریاٹک ساحل پر دلماتیہ کے مقام پر آسٹروی بادشاہت میں جنوبی سلاویہ کے صوبے میں ہونے والی بغاوت کو کمک فراہم کرنے کے لیے پڑاؤ کیا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے فرانسیسی جہازوں کے پاس سربیئن پریس کا بہت بڑا ذخیرہ تھا تاکہ انقلابی مواد شائع کیا جا سکے اوراس کام کے لیے انہوں نے جوشیلے سرب نوجوان رکھے ہوئے تھے جو یہ مواد لکھتے اور چھاپتے تھے تاکہ قومی آزادی کے حصول کی غرض سے عوامی بغاوت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ان کو مترجم کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چونکہ فرانسیسی جہازوں پر موجود یہ سربیئن انقلابی بے پناہ جوشیلے اور جذباتی تھے، اس لئے ان کی نگرانی کرنے کے لیے ایک بوڑھا سربیئن جاسوس بھی موجود ہوتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ دانشمندانہ اقدام پیرس میں قائم روسی سفارتخانہ کی سرکاری مشاورت کا نتیجہ ہو، کیونکہ اپنے تجربے کی بدولت روسیوں کو اس کام میں اتحادیوں پر سبقت حاصل ہے۔ لیکن یہ ساری کاوشیں بے سود گئیں۔ فرانسیسی جہازایڈریاٹک سے پہلے پولا اور پھر گھر لوٹ گئے۔ لیکن کیوں؟ فرانسیسی صحافتی اور سیاسی حلقے پہلے ہی اس کی وضاحت دے چکے ہیں کہ اٹلی اس آپریشن کے خلاف تھا۔ آسٹرو ہنگری کے جنوبی صوبوں میں اگر کوئی بغاوت ہوتی تو وہ صرف جنوبی سلاویہ کے قومی اتحاد کے نعرے کے گرد ہی ممکن تھی۔ جبکہ اٹلی دلماتیہ کو قانونی حق کے تحت اپنا حصہ سمجھتا ہے، ظاہر ہے کہ اپنی سامراجی ہوس کے قانون کے تحت۔ اسی لیے اٹلی نے فرانس کی متوقع مہم جوئی کے خلاف احتجاج کیا۔ اس وقت فرانس کے لیے جنگ میں اٹلی کی مفیدوقتی غیر جانبداری اور بعد ازاں عملی حصہ داری کی قیمت چکانا ضروری ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرانسیسی جہاز غیر متوقع طور پر سرب مترجموں کے ساتھ واپس لوٹ گئے۔ بعد میں ایک سرب انقلابی نوجوان سے میری ملاقات ہوئی، اس نے مجھ سے کہا کہ ’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اتحادیوں نے بغیر کوئی تقریب منعقد کیے سربوں کو اٹلی کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ اب چھوٹی قوموں کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کہاں ہے؟ اور پھر ہم سرب کس کے لیے مر رہے ہیں؟ میں نے اپنی رضاکارانہ خدمات دلماتیہ کی اٹلی کو منتقلی کے لیے نہیں دی تھیں۔ اور سراجیو ومیں میرے دوسرے دوستوں نے کیا اسی لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے؟“ (چھوٹی قوموں کا دفاع، بڑا جھوٹ)۔

تاریخ میں زیادہ د ور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی حال ہی میں ہم نے امریکہ کو ترکی سے کرد مزاحمتی تحریک کا سودا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاکستان میں ہی دیکھ لیں، ساری مظلوم اقوا م کی تحریکوں کو جو نام نہاد عالمی برادری یا سامراجی اداروں سے جو حمایت ملتی ہے، اس کی وجہ ان کی انسا نی ہمدردی نہیں ہوتی بلکہ یہ سامراجی خطے میں بین الاقوامی تعلقات کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے یا یوں کہہ لیں کہ مناسب وقت پر سودے بازی کے لیے خود کو تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سامراجی مظلوم اقوا م کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ مظلوم اقوا م کا ہمدرد، دوست اور نجات دہندہ عالمی پرولتاریہ کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

نو آبادیات کا سوال

آج کل نو آبادیات کے سوال پر بھی بہت شور مچایا جاتا ہے اور اس شور نے اب کئی دہائیوں سے ایک باقاعدہ نظریاتی ڈسپلن کی شکل اختیار کر لی ہے، جسے پوسٹ کلونیل ازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ہمارے پاس وقت اور جگہ نہیں کہ اس مبینہ نظریئے کی مکمل جانچ پھٹک کی جا سکے۔ تاہم اس حوالے سے بس یہی کہے دیتے ہیں کہ اس نظریئے کا بنیادی لب لباب بھی ایک مخصوص طریقے سے مارکسزم کو غلط ثابت کرنا یا اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہی ہے۔ اس نظریئے کے پرچارکوں کا مدعا یہ ہے کہ مارکسزم ایک یوروسنٹرک نظریہ ہے۔ اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کے سیاسی مسائل کا اول تو اس میں کوئی حل موجود ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو اسے یہاں کے مخصوص مادی حالات کے مطابق ”ڈھال“ کر ہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ترقی یافتہ دنیا کا مارکسزم الگ ہے اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کا مارکسزم الگ یا اگر الگ نہیں ہے تو اسے الگ ہونا چاہیے۔ یہ انتہائی غیر سائنسی اور موضوعی اپروچ ہے۔ اس نظریئے کے مقامی متاثرین اکثر ہم مارکس وادیوں سے یہ شکایت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آپ لوگ دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں مگر ہمارے علاقائی یا صوبائی مسائل کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ ہم مارکس وادی مقامی آبادی کے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہر تحرک کا حصہ بننا ضروری سمجھتے ہیں، تاہم، ہم کسی بھی خطے کے مسائل کو عالمی سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات سے کاٹ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ میکانکی طریقہ کار بالآخر اصلاح پسندی کی طرف ہی لے جاتا ہے۔ ہمارے سٹالنسٹوں کو اپنے جینیاتی خبط کی وجہ سے پوسٹ کلونیل ازم میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے اور ایسے ہی این جی اوٹک لیفٹ بھی جہاں ایک طرف ”نئے مارکسزم“ کی تلاش میں رہتا ہے وہیں ”مقامی مارکسزم“ کی ترویج کے لیے بھی سر توڑ کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ اور یہ سب عناصر مل کر ہم ٹراٹسکائیٹس پر مارکسی ملاں اور فرقہ پرور ہونے کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکسی اساتذہ کے ہاں نوآبادیات کے معاملے پر بیش بہا قیمتی خزانہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے دنیا کے ہر خطے کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کا احاطہ نہیں کیااور نہ ہی ان کے لیے ایسا کرنا ممکن تھا مگر انہوں نے اپنے تجزیئے اور تناظر میں جو میتھڈ وضع کیا ہے وہ آج بھی دنیا کے تمام خطوں کے مختلف اور مخصوص مسائل کی تفہیم اور حل کے لیے مفید، قابل استعمال اور واحد تریاق ہے۔

ٹراٹسکی جنوبی افریقہ کے معاملے پر رقمطراز ہوتاہے:

”جنوبی افریقہ پر برطانوی تسلط صرف مقامی گوروں کی اقلیت کے نقطہ نظر سے ڈومینیئن (نیم خودمختاری) ہے۔ سیاہ فاموں کی بھاری اکثریت کے لیے یہ سیدھی سیدھی غلام نوآبادیات ہے۔ جنوبی افریقن ڈومینین میں برطانوی سامراج کے رہتے کسی سماجی انقلابی تبدیلی یعنی زرعی انقلاب وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج کی شکست جنوبی افریقہ میں سوشلزم کی فتح کے لیے اتنی ہی ضروری اور ناگزیر ہے جتنا کہ برطانیہ کے اپنے اندر سوشلزم کی فتح کے لیے۔ اگر، جیسا کہ یہ سوچناممکن ہے کہ انقلاب پہلے برطانیہ میں شروع ہو، تو اس صورت میں برطانوی سامراجیوں کو اپنی نو آبادیات اور ڈومینینوں میں سے جتنی کم حمایت ملے گی، گھر میں ان کی شکست اتنی ہی جلدی پایہئ تکمیل کو پہنچے گی۔ برطانوی سامراج کے انخلا کے لیے جدوجہد، اس کے اوزار اور ایجنٹس کو اسی وجہ سے جنوبی افریقہ کے پرولتاریہ کی پارٹی کے پروگرام کا ناگزیر حصہ ہوناچاہیے۔ جنوبی افریقہ سے برطانوی انخلا برطانیہ کی فوجی شکست اور سلطنت کی تقسیم کی صورت میں بھی ممکن ہے۔ اس صورت میں مقامی گورے کچھ وقت کے لیے سیاہ فام اکثریت پر اپنی برتری برقرار رکھ سکیں گے۔ برطانوی انخلا کی دوسری صورت بھی ممکن ہے جو کسی حد تک پہلی سے منسلک بھی ہے اور وہ برطانیہ اور اس کی نو آبادیات میں انقلاب کی صورت ہے۔ جنوبی افریقہ کی تین چوتھائی یعنی اسی لاکھ میں سے ساٹھ لاکھ آبادی غیر یورپیوں پر مشتمل ہے۔ مقامی باشندوں کے سماجی ابھار کے بغیر ایک فتح مند انقلاب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے انہیں وہ میسر ہو گا جس سے وہ ابھی تک محروم ہیں، اپنی طاقت پر اعتماد، شعور کی بلندی اور ثقافتی ترقی۔ ان حالات میں جنوبی افریقہ کی جمہوریہ سب سے پہلے ایک بلیک جمہوریہ کے طور پر ابھرسکتی ہے، اس میں ظاہرہے کہ گوروں کے لیے مکمل برابری یانسلی ہم آہنگی کی شرط موجود ہو گی جس کا انحصار مقامی گوروں کے رویے پرہو گا۔ یہ بہرحال واضح ہے کہ انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ریاست پر غلامانہ تاریخی انحصار سے آزاد ہونے والی آبادی کی بھاری اکثریت اپنے نقش ضرور ثبت کرے گی۔ مختصر یہ کہ جنوبی افریقہ کا فتح مند انقلاب جہاں طبقات کے باہمی رشتے کو معیاری طور پر بدل دے گا وہیں وہ نسلوں کے باہمی تعلقات کو بھی الٹ دے گااور سیاہ فاموں کو ریاستی طاقت میں ان کی آبادی کے مطابق مقام عطا کرے گا، اس حوالے سے جنوبی افریقہ کے سماجی انقلاب کا کردار کسی حد تک قومی بھی ہوگا۔ ہمارے پاس حقیقت کے اس رخ سے چشم پوشی کرنے یا اس کی اہمیت کو جھٹلانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس کے بالکل الٹ پرولتاری پارٹی کو زبانی و عملی دونوں سطح پر قومی مسئلے کے حل کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ یہ بات اپنی جگہ الگ اور اہم ہے کہ پرولتاریہ کی پارٹی اس معاملے کو اپنے مخصوص طریقوں سے ہی حل کرے گی۔ قومی آزادی کا تاریخی اوزار صرف اور صرف طبقاتی جدوجہد ہی ہو سکتا ہے۔ کومنٹرن نے 1924ء کے بعد سے بدقسمتی سے نوآبادیاتی عوام کی قومی آزادی کے سوال کو ایک خالی خولی تجرید میں تبدیل کر دیا ہے جس کو طبقاتی تعلقات کی معروضی حقیقت سے ماورا گردانا جاتا ہے“۔

ٹراٹسکی اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں بات جاری رکھتا ہے کہ سٹالنسٹ یوٹوپیا کے مطابق:

”قومی جبر کے خلاف جدوجہد میں مختلف طبقات عارضی طور پر خود کومادی طبقاتی مفاد سے آزاد کرکے ایک سامراج مخالف قوت بن جاتے ہیں اورپھر یہ ’روحانی‘ قوت بہت بہادری سے وہ فرائض سر انجام دیتی ہے جو کومنٹرن انہیں تفویض کرتا ہے اور بدلے میں ان سے ایک روحانی قومی جمہوری ریاست کی تشکیل کا وعدہ کیا جاتا ہے اور اس وعدے کے ساتھ لینن کے ’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘کا حوالہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔“ (زرعی اور قومی سوال، ورکرز پارٹی آف ساؤتھ افریقہ کے مجوزہ تھیسز پر ریمارکس)

Image result for gandhi

ہندوستانی بورژوازی ایک انقلابی جدوجہد کی قیادت کی اہل نہیں ہے۔ وہ برطانوی سامراجیوں سے بندھے ہوئے ہیں اور ان پر انحصار کرتے ہیں۔ انہیں خود اپنی جائیدادوں کے چھن جانے کے خطرات لاحق ہیں۔

ہندوستان ایک اور اہم برطانوی نو آبادی تھا۔ ٹراٹسکی نے ہندوستانی محنت کشوں کے نام ایک کھلا خط لکھاجس میں وہ کہتا ہے کہ:

”ہندوستان صرف جمہوریت ہی سے محروم نہیں ہے بلکہ قومی آزادی کے بنیادی حق سے بھی محروم ہے۔ سامراجی جمہوریت اصل میں غلاموں کے مالکان کی جمہوریت ہے جو نو آبادیات کے خون پر پلتی ہے۔ لیکن ہندوستان کو اپنی جمہوریت چاہیے نہ کہ وہ غلاموں کے مالکان کے لیے فرٹیلائزر کی خدمات سر انجام دے۔ وہ جو فاشزم، رجعت اور جبر کی ہر شکل کو ختم کرنا چاہتے ہیں انہیں ہر صورت میں سامراجیت کے خاتمے کے لیے لڑنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ لیکن یہ ہدف پر امن طریقوں، مذاکرات اورفریادوں یا وعدوں سے حاصل نہیں ہو گا۔ آج تک تاریخ میں کبھی مالکوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کیا۔ صرف ہندوستانی عوام کی اپنی معاشی اور قومی آزادی کے لیے جرأت مند اور پر عزم جدوجہد ہی ہندوستان کو آزاد کرا سکتی ہے۔ ہندوستانی بورژوازی ایک انقلابی جدوجہد کی قیادت کی اہل نہیں ہے۔ وہ برطانوی سامراجیوں سے بندھے ہوئے ہیں اور ان پر انحصار کرتے ہیں۔ انہیں خود اپنی جائیدادوں کے چھن جانے کے خطرات لاحق ہیں۔ وہ خود عوام سے خوفزدہ ہیں۔ وہ سامراجیوں سے سمجھوتہ چاہتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہندوستانی عوام کی اوپر سے اصلاحات کی توقعات کیا ہیں۔ اس بورژوازی کا لیڈر اور پیغمبر گاندھی ہے۔ جو کہ ایک جعلی لیڈر ہے اور جھوٹا پیغمبر ہے۔ گاندھی اور اس کے ساتھیوں کا نظریہ یہ ہے کہ ہندوستان کے حالات بتدریج بہتر ہوں گے، کہ اس کی آزادیاں مسلسل بڑھتی رہیں گی اور بالآخر پر امن طریقے سے ہندوستان ڈومینیئن سٹیٹس حاصل کر لے گا۔ اور بعد میں شاید مکمل آزادی بھی۔ یہ ساراتناظر شروع سے آخر تک غلط ہے۔“ (ہندوستان کے محنت کشوں کے نام کھلا خط)

قوم پرستی اور کمیونسٹ تحریک

مذکورہ بالا تما م بحث کے بعد سب سے اہم سوال یہ بچتا ہے کہ کمیونسٹ تحریک کا مختلف الانواع کے قوم پرستوں کی طرف کیا رویہ ہونا چاہیے۔ اس اہم سوال پر بھی ہم خود کچھ کہنے کی بجائے ٹراٹسکی کے الفاظ ہی نقل کرنا پسند کریں گے تاکہ اس موضوع پر بحیثیت مجموعی ٹراٹسکی کے نقطہئ نظر کو ایک کُل کے طور پر سمجھا جا سکے۔ تیس کی دہائی میں جب سپین انقلاب کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا تو اس وقت بھی سپین میں کیٹالونیا کی قومی آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ ہسپانوی کامریڈ اس تحریک کی پیٹی بورژوا قوم پرست قیادت کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے متذبذب ہوئے تو ٹراٹسکی نے ان کی مندرجہ ذیل الفاظ میں رہنمائی کی:

”مزدوروں اور کسانوں کے بلاک کے لیڈر مورین نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعدخود کو پیٹی بورژوا قوم پرستوں کے بائیں بازو میں شامل کر لیا ہے اور اب وہ مکمل علیحدگی کے خیالات رکھتا ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ موجودہ مرحلے پر کیٹالونیا کی پیٹی بورژوا قوم پرستی ترقی پسندانہ کردار کی حامل ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ یہ اپنی تمام سرگرمی کمیونسٹوں کی صفوں کے باہر جاری رکھے اوراس پر کمیو نسٹوں کی طرف سے مسلسل تنقید جاری رہے۔ پیٹی بورژوا قوم پرستی کو یہ اجازت دینا کہ وہ کمیونسٹ ماسک پہن کر سرگرم رہے، نہ صرف پرولتاری قیادت کے لیے ناقابل اعتبار، پر فریب اور تباہ کن ہو گابلکہ بیک وقت یہ پیٹی بورژوا قوم پرستی کی ترقی پسندانہ افادیت کا بھی قلع قمع کر دے گا۔“ (کیٹالونیا میں قومی سوال)

ایک اور اہم تحریر سے چند سطور ملاحظہ کریں:

”یہ تسلیم شدہ ہے کہ اس امر میں کوئی برائی نہیں کہ کچھ مایوس قوم پرست اب پیٹی بورژوا شاونزم سے نکل کر کمیونسٹ پارٹی کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ مختلف عناصر کمیونزم کی طرف مختلف راستوں سے ہو کر آتے ہیں۔ مخلص اور دیانتدار عناصر کے ساتھ ساتھ عادی کیریئراسٹ اور ناکام بے اصول لوگ بھی وائٹ گارڈز اور بلیک ہنڈرڈز کی ان پرتوں میں بلاشبہ شامل ہیں جو اب کمیونزم کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ پارٹی یقینی طور پر فاشسٹ کیمپ کی حوصلہ شکنی کی غرض سے ان افراد کی نظریاتی اچھل کود کو تنظیمی مضبوطی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ سٹالنسٹ افسرشاہی کا تاہم واضح اور دو ٹوک جرم یہ ہے کہ انہوں نے پارٹی کے استحکام کی بنیاد انہی عناصر کو بنا لیا ہے، ان کی آواز کو پارٹی کی آواز قرار دے دیا ہے اور ان کے قوم پرستانہ اور مہم جویانہ خیالات کو ایکسپوز کرنے کا خیال ہی ترک کر دیا ہے۔“ (قومی کمیونزم کے خلاف)

سٹالنسٹوں کا تو خیر ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے مگر بدقسمتی سے بہت سے نام نہاد ٹراٹسکائیٹ گروپ بھی عددی اہداف کو جلد از جلد حاصل کرنے کے لیے اسی سہل راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ سب سیاسی طور پر متحرک لوگوں، گروپوں یا تنظیموں کو اپنے ساتھ ملا لینے کو ہی مارکسی لائحہ عمل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مارکسی لائحہ عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے جس میں اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ سیاسی طور پر متحرک لوگوں تک رسائی کے لیے لائحہ عمل میں لچک ناگزیر ہوتی ہے مگر بس یہیں تک۔ اس سے آگے ان سیاسی طور پر متحرک ہراول پرتوں یا افراد کو مارکسزم کے دو ٹوک سائنسی پروگرام پر جیت کر ہی انقلابی قوتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ خاص طورپر قوم پرستوں کو جتنی بھی نظریاتی یا سیاسی چھوٹ دی جاتی ہے، ان کی ہٹ دھرمی، تنگ نظری اور موقع پرستی اتنی ہی مضر اور مہلک ہوتی چلی جاتی ہے جس کا منطقی نتیجہ انقلابی تنظیموں کی شکست و ریخت کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے۔ ہم اس موضوع پر ٹراٹسکی کی شاہکار تصنیف ”انقلابِ روس کی تاریخ“ کے ان زندہ و تابندہ الفاظ پر اس بحث کو ختم کرتے ہیں:

”پارٹی کے فریم ورک میں بالخصوص اور مزدور تنظیموں میں بالعموم، بالشوازم نے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے یا ان کی ایکتا کو نقصان پہنچانے والے قوم پرستی کے ہر رجحان کے خلاف ناقابل تعطل تسلسل کے ساتھ ہمیشہ سخت گیر مرکزیت پر زور دیا۔ بورژوا ریاست کے کسی قومی اقلیت پر جبری شہریت یا ریاستی زبان مسلط کرنے کے حق کی تردیدکرتے ہوئے بالشوازم نے بیک وقت اسے اپنا مقدس فریضہ بنا لیا کہ وہ جتنا ممکن ہو سکے رضاکارانہ طبقاتی ڈسپلن کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف اقوام کے محنت کشوں کوزیادہ سے زیادہ متحد کرے۔ اسی لیے اس نے پارٹی کی تعمیر میں قومی وفاقیت کے اصول کو دو ٹوک انداز میں مسترد کر دیا۔ انقلابی تنظیم مستقبل کی ریاست کا پروٹوٹائپ نہیں ہوتی بلکہ اس کی تخلیق کا محض ایک اوزار ہوتی ہے۔ ایک اوزار کو اپنی پروڈکٹ کی تخلیق اور تشکیل کے لوازمات کے مطابق ضرور ڈھلنا چاہیے لیکن اس میں پروڈکٹ کی شمولیت نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرکزیت مائل تنظیم جدوجہد کی کامیابی کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے حتیٰ کہ وہا ں بھی جہاں حتمی ہدف اقوام پر ہونے والے مرکزی جبر کا خاتمہ ہو۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ لال سلام

Facebook Comments