شہید علی رضا عابدی انصاف کا منتظر۔۔نازیہ علی

بلاشبہ ہماری آزادی ہمارے بے شمار شہداء کی اَن گنت قربانیوں کی مرہون منت ہے۔زندہ قومیں ہمیشہ اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں کوئی بھی قوم اُس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک وہ اپنے نظریئے اور اپنی زمین کی ناموس کی ہر ایک شے سے بڑھ کرحفاظت نہیں کرتی۔ قومیں یقینی طور پر کبھی بھی کسی سے شکست نہیں کھا سکتیں جب تک وہ اپنی تاریخ کو اپنائے رکھتی ہیں۔ دُنیا کی ہر قوم پر کٹھن وقت ضرور آتا ہے لیکن زندہ قومیں اپنے اتحاد و یکجہتی اور بے مثال جذبے سے لبریز ہو کر تاریخ میں اپنے مقدس لہو سے ایسے نقوش چھوڑتی ہیں جنہیں صدیاں بھی ختم کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور ایسی قوم کی صفوں میں یقینی طور پر ایسے لوگ ضرورموجود ہوتے ہیں جو بہادری اورجرات کی لازوال پاسداری کرتے ہیں تمام محب وطن پاکستانی اپنے سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی اور مادرِ وطن کا نام اونچا دیکھنا چاہتے ہیں اسی لئے ہر سچا پاکستانی خواہ وہ کتنا ہی قابل ہو اور اسکے پاس ترقی کے کتنے ہی راستے پردیس جا کر دولت کمانے کے ہوں وہ اپنے ملک پاکستان میں رہ کر ہی اپنے وطن کیلئے کام کرنا چاہتا ہے.

آج ایسے ہی سچے پاکستانی کی بات کی جائے گی جس نے پاکستان سے باہر اعلی’تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پاکستان میں ہی رہ کر کام کرنے کو اپنا مقصد سمجھا مگر آزادی کے اتنے برس بعد بھی کیا قربانیوں کا یہ سلسلہ ہونا چاہیے؟۔آہ مگر میرے شہر کراچی سے لیکر پورے پاکستان کے سپوت بے گناہ مار دیئے گئے اور مارے جا رہے ہیں۔سنا ہے” آہ ” عرش ہلا دیتی ہے ظالم کیوں نہیں ڈرتے اس وقت سے جب” آہ ” کا بدلہ میرا رب لے گا کیونکہ اسکی پکڑ بہت مضبوط ہے اور وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے ۔

میرے سوال میرے ملک کے قانون اور حکمرانوں سے ہیں  کہ کب آواز اٹھاؤ  گے؟ جب تمھارے گھر سے لاشیں اٹھائی جائیں گی۔گزشتہ برس 25 دسمبر 2018 کو شہر کراچی سے اسکا سپوت اور وہ پڑھا لکھا بیٹا گولیاں مار کر شہید کر کے چھین لیا گیا جو بہادر نوجوانوں کیلئے ایک بھرپور مثال تھا جو معصوم بچوں کی طرح چنچل اور سمجھداروں جیسا حساس تھا۔سابق ایم این اے و سابق رہنما ایم کیو ایم سید علی رضا عابدی شہید کی مختصر شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر آگے بات بڑھائیں گے۔

سید علی رضا عابدی شہید کی پیدائش 6 جولا‎ئی 1972 کو کراچی میں ہوئی اور جب انکو 25 دسمبر 2018 کو شہید کیا گیا اسوقت انکی عمر 46 برس تھی۔وہ سیاستدان اور اپنے ذاتی ریسٹورینٹ کے مالک بھی تھے۔شہید جون 2013ء تا مئی 2018ء تک قومی اسمبلی پاکستان کے رکن رہے۔ ان کے والد کا نام سید اخلاق حسین عابدی ہے۔شہید نے بنیادی تعلیم سینٹ پیٹرک  سکول سے حاصل کی، بی کام ڈیفنس کالج اور اور بوسٹن سے بزنس کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ایم کیو ایم کے لیے ریسرچ اینڈ ایڈوائیزری کونسل کی بنیاد رکھی اور وہ ایم کیو ایم کے سوشل میڈیا سیل کے بھی سرگرم کارکن رہے۔

علی رضا عابدی پاکستان کے عام انتخابات، 2013ء میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے۔251 سے بطور رکن منتخب ہوئے۔انہوں نے 81،603 ووٹ حاصل کیے اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار راجہ اظہر خان کو شکست دی۔کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں ان کا سخت موقف رہا جس کا اظہار وہ پارٹی کے اندر اور ٹی وی چینلز پر بھی کرتے تھے۔جولائی 2018 کو منعقدہ عام انتخابات میں انھوں نے کراچی کے علاقے گلشن اقبال پاکستان سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ کیا تھا جس میں انھیں شکست ہوئی تھی۔ ان انتخابات میں جب پارٹی قیادت کی دلچسپی کم ہوئی تو اے پی ایم ایس او کے کارکنان نے ان کی مہم چلائی تھی۔عام انتخابات میں شکست کے بعد ضمنی انتخابات میں انھیں ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے بعد انھوں نے پارٹی قیادت سے ناراضگی کا اظہار کیا اور بنیادی رکنیت سے مستعفی ہو گئے۔

علی رضا عابدی کے بارے میں بعض حلقوں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے جب پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا اور مصطفی’ کمال کے ساتھ ایک منشور کے تحت مشترکہ امیدواروں کو لانے کا اعلان کیا تو علی رضا عابدی نے اس کی شدید مخالفت کی تھی جس کے بعد فاروق ستار اپنے موقف سے دستبردار ہو گئے۔25 دسمبر 2018ء کو کراچی میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے خیابانِ غازی کے قریب ان کے گھر کے باہر ان کی گاڑی پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں انھیں گولیاں لگیں اور ان کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پی این ایس شفا لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

اس واقعے سے کچھ گھنٹے قبل علی رضا عابدی نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں پاکستان تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ پی ٹی آئی نیب عدالتوں کے حوالے سے بات کرنے لگی ہے۔ خیال رہے کہ اس واقعے کے دو دن قبل بھی شہرِ قائد کے علاقے ناظم آباد میں پاک سرزمین پارٹی کے ٹاؤن آفس پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے 2 افراد کو قتل اور 2 کو زخمی کر دیا تھا۔وہ بھی کسی ماں کے بیٹے تھے مگر کسی کو کیا فرق پڑتا ہے جس شہر میں جوان زندگی نامعلوم ٹارگٹ کلرز کے ہاتھ میں ہو ۔شہید علی رضا عابدی کی نماز جنازہ ڈیفنس کی یثرب امام بارگاہ میں علامہ حسن ظفر نقوی نے پڑھائی جس میں اعلی’ شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کی بڑی تعداد کے ساتھ سید علی رضا عابدی سے محبت کرنے والی اس نوجوان نسل نے بھی کی جو سوشل میڈیا پر ہمیشہ شہید کیلئے انصاف مانگتے نظر آئے اور مختلف سوالات میں جکڑے ہوئے کہ کیا علی رضا عابدی کے بے رحمانہ قتل سے کوئی اپنے مقصد میں پورا کامیاب ہوا؟ ایم کیو ایم کی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال ہوئی؟مائنس ڈاکٹر فاروق ستار فارمولا؟ ایم کیو ایم پاکستان یا لندن کی شکست؟

جبکہ اس حادثے کے بعد پولیس افسر ایس ایس پی ساؤتھ پیر محمد شاہ کی سید علی رضا عابدی کے گھر والوں سے ملاقات ہوئی اور فوٹیج  کے بارے میں بھی میڈیا کو بتایا۔شہید علی رضا عابدی ایک پڑھے لکھے ،باشعور،دریا دل اور انسانی ہمدردی سے بھرپور انسان تھے یہی وجہ تھی کہ ان کو شہید کیے جانے پر ہر آنکھ اشکبار تھی اور مختلف مکتبہؑ فکر کے لوگ انکے جذبے کو سراہتے رہے۔کچھ روز بعد 25 دسمبر کو شہید علی رضا عابدی کی پہلی برسی آنے والی ہے مگر انکے بوڑھے والدین ،بیوہ اور بچے آج بھی انصاف کے طلبگار ہیں قتل میں ملوث ملزمان پکڑے بھی گئے مگر ابھی تک کیس میں کسی قسم کی پیش  رفت دکھائی نہیں دیتی۔

اس شہر میں نہ جانے کتنی بے قصور زندگیاں ظلم کر کے چھین لی گئیں اور اگر ان سب کے نام لکھنا شروع کروں تو شاید صفحات بھر جائیں ، امجد صابری شہید کا نام بھی ان میں سے ایک ہے اور نقیب اللہ محسود شہید کا بوڑھا باپ محمد خان تو انصاف کے انتظار میں اس دنیا سے چلا گیا۔کوئی شہید علی رضا عابدی کے بوڑھے باپ کی التجا اور درد سمجھو جو ہر جگہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ بیٹے کے قاتل سامنے آئے تو پہچان لوں گا۔

شہید علی رضا عابدی کی شہادت پر تمام بڑی شخصیات و سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی گئی۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان، صدر مملکت عارف علوی،بلاول بھٹو زرداری،ڈاکٹر فاروق ستار ،فیصل عابدی، مصطفی کمال،بانی ایم کیو ایم ،ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سمیت دیگر سیاسی،سماجی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے دکھ اور افسوس کا اظہار تھا اور وزیراعظم عمران خان نے علی رضا عابدی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی مگر یہ ایک سال شہید کے سوگواران کے دل پر کتنا کٹھن اور بے رحم گزرا ہو گا کبھی کسی نے سوچا ہے شہید کے بوڑھے والد اخلاق حسین کے ٹویٹ میں کتنا درد ہے انھوں نے لکھا ’میرے بیٹے کو سفاکی سے قتل کیا گیا ہے۔ وہ کسی کا دشمن نہیں تھا۔ جس کسی نے بھی اس کے قتل کا حکم دیا ہے وہ زندگی بھر کے لیے پچھتائے گا۔‘آج یہ تمام وعدے اور مذمت یاد دلانے کا مقصد صرف شہید علی رضا عابدی کے اہل خانہ کو انصاف دلوانا ہے جو کہ اس پورے سال میں نہ جانے کتنی پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔
چہرہ لہو میں ڈوبا تھا آنکھوں میں آس تھی
کتنی جلدی تھی تمھیں شہادت کی پیاس تھی

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply