دادا،پھوپھی،کھوتی اور پاکستان۔۔عارف خٹک

ہمارے دادا حضور کو اللہ جنت نصیب کرے۔ کہا کرتے تھے کہ جب بندے کی قسمت خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے بیٹھے کُتا بھی آکر کاٹ جاتا ہے۔

ہماری پھوپھی دس سال کی ہوں گی غالباً۔ گاؤں میں مون سُون بارشوں کی آمد آمد تھی۔ لہٰذا کچے گھروں کی چھتوں پر مٹی کی لپائی زور و شور سے جاری تھی، تاکہ بارشوں میں کمزور چھتیں ٹپک نہ پڑیں۔ میری دس سالہ پھوپھی بھی چھت پر چڑھ کر مٹی گارے سے لپائی کررہی تھی،کہ پیر پھسلا،اور وہ دس فٹ اُونچی چھت سے زمین پر گر کر اپنی دائیں ٹانگ تڑوا بیٹھی۔ ہسپتال دس پندرہ کلومیٹر دُور تھا۔ پہاڑی علاقہ تھا۔ لہٰذا دادا اپنی بچی کو کھوتی پر بِٹھا کر ہسپتال کی طرف چل پڑے۔
روتی دھوتی پھوپھی کھوتی پر سوار تھی۔ اور دادا آہستہ آہستہ کھوتی کے پیچھے چل رہے تھے۔ جُون جولائی کے مہینوں میں کھوتیوں کی بریڈنگ کا موسم ہوتا ہے۔ لہٰذا نر کھوتے کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں۔کیونکہ ان کی عجیب و غریب حرکتیں مردوں کو اپنی ہی بیویوں کے سامنے شرمندہ کردیتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کھوتیوں کو گھروں میں قید کرلیتے ہیں۔تاکہ ان کی عزتیں سلامت رہیں۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ دادا جب پھوپھی کو لیکر جارہے تھے۔تو چلتے چلتے کسی آوارہ کھوتے کی نظر ہماری کھوتی پر پڑ گئی۔
وہ کھوتی کے پیچھے بھاگنے لگا۔اور کھوتی اُس سے بچنے واسطے سرپٹ دوڑنے لگی۔ نتیجتاً پھوپھی جان کھوتی سے گر پڑی اور بائیں ٹانگ بھی تُڑوا بیٹھیں۔دادا نے پہلی جنگ عظیم کا ریوالور نکالا،مگر کھوتی کی جوانی ریوالور کو شکست دے گئی۔اور دادا ابو اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور بیٹی کندھے پر اُٹھائے واپس گھر آگئے۔ اور دادی زیر لب دادا کو گالیاں نکالنے لگیں۔

موجودہ حکومت میں خان صاحب مُجھے اپنے دادا لگ رہے ہیں اور نظام کا حال پھوپھی جیسا لگ رہا ہے۔جب کہ اسٹیبلشمنٹ جوانی کی بدمست کھوتی محسوس ہو رہی ہے۔ دادی مجھے عوام لگ رہی ہے۔ جو نظام جیسی بیٹی کو رو رہی ہے اور رات کو دادا رُلا دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کا کیا خیال ہے؟ چلیں ایک نعرہ لگائیں پاکستان زندہ باد

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply