سماجی نوحہ۔۔سانول عباسی

خدایا تیری دنیا میں

کسی انسان کی وقعت نہیں کوئی

عجب وحشت سی چھائی ہے

پَڑھے لکھّوں کی کثرت ہے

فقط انساں  نما تو ہیں

مگر انسانیت سے دور ہیں سارے

بہت سی ڈگریوں کا بوجھ لادے اپنے کاندھوں پر

درندوں سے بھیانک ہیں

یہ آنکھوں میں لئے وحشت لگائے گھات رکھتے ہیں

کوئی بےکس کہیں ان کو نظر آئے

تو آدم بُو پہ ایسے یہ لپکتے ہیں جھپٹتے ہیں

کسی مردار پر جیسے

بہت بھوکے ترستے کَرگَسوں کے غول آتے ہیں

درندوں سے بھری دنیا میں جو انساں چند باقی ہیں

بتا تو ہی خدا میرے کہاں جائیں

سنائیں کس کو نوحہ دل کا ہم جا کر

بچا لے تو خدایا ہم کو ان بے حس درندوں سے

کوئی شعبہ نہیں ایسا

جہاں انسان کی تکریم ہوتی ہو

میں کس کا نام لوں کس کا بتاؤں اب

کبھی استاد پیغمبر ہوا کرتے تھے

پر اب ایسے لگتا ہے ہوس کی آگ میں لپٹے

فقط جنسی درندے ہیں

جہاں نروان بٹتا تھا   وہاں حرص و ہوس کے پاٹ پڑھتے ہیں

قَلم کو بیچنے والے

صحافی بھی لکھاری بھی

ادب کی آڑ میں جو گُل کھلاتے ہیں

نظر آتا ہے سب کچھ جھوٹ ہے لیکن

زبانِ چرب سے لفظوں کا ایسا جال بُنتے ہیں

جو سچ کو ڈھانپ لیتا ہے

بہت ہی معتبر لگتے ہیں جھوٹے سب

پیمبر سچ کے اپنا منہ چھپاتے ہیں

یہ کالے کوٹ والوں کو ذرا دیکھو

یہ سچ اور جھوٹ میں اک حدِّ فاصل تھے

جنہیں انصاف کے پلڑوں سے جھوٹوں کو گرانا تھا

وہ اب انصاف کی مجبور دیوی سے رَکھیلوں کی طرح کھلواڑ کرتے ہیں

عدالت میں کبھی انصاف ہوتا تھا

مگر اب ریٹ لگتا ہے

یہاں پر جیب جس کی خالی ہو

سچّا بھی ہو گر معتبر وہ ہو نہیں سکتا

مسیحا تھے کبھی جو ڈاکٹر وہ اب

بڑے سفّاک قاتل ہیں

یہ زخموں کو کبھی بھی مندَمل ہونے نہیں دیتے

یہ کہنے کو مسیحا ہیں

مگر

انسانیت کی اس قدر تحقیر کرتے ہیں

درندے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں

سماجوں میں پنپتی جو اذیت ہے

بیاں اس کا بڑا ہی جان لیوا ہے

محافظ ہیں ہمارے جو وہی ڈاکو لٹیرے ہیں

جو رکھوالے ہیں عزّت کے وہ عزّت لوٹ لیتے ہیں

یہاں پر رہبروں کے روپ میں رہزن مسلط ہیں

خدا کے نام لیوا مذہبی سارے

خدا کے نام پر کھلواڑ کرتے ہیں

پجاری عقل کے سارے

جو بس دم بھرتے ہیں روشن خیالی کا

وہ نامِ عقل سے بالکل نہیں واقف

فلاحی مسندوں پہ سب  پجاری دولتوں کے اب بنے بھگوان بیٹھے ہیں

فلاحِ قوم سے منسوب ہیں جتنے ادارے بھی

مسجد ہو کہ مندر ہو

کلیسا ہو یا میخانہ

پجاری عقل کے ہوں یا

خدا کے نام لیوا ہوں

عدالت ہو یا ایوانوں کی منڈی ہو

وہاں جو بھی ہیں شیطانوں کا دھارے روپ بیٹھے ہیں

کوئی شعبہ نہیں ایسا

جہاں انسان کی تکریم واجب ہو

جدھر دیکھیں جہاں جائیں

ہوس کی آگ میں لپٹے

سگِ مجنون کی صورت یہ ہم پر ٹوٹ پڑتے ہیں

ہمارا خون پیتے ہیں

بدن کو نوچ لیتے ہیں

خدایا تیری دنیا میں کسی انسان کی وقعت نہیں کوئی

پڑھے لکھوں کی کثرت ہے

عجب وحشت سی چھائی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

عجب سا خوف طاری ہے۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply