پانی کے عالمی دن کی مناسبت سے/آخری گھونٹ۔۔عنبر عابر

“ہر تین بندوں کیلئے ایک گلاس پانی کی منظوری ہوئی ہے”
منادی کرنے والے کی آواز بستی کی  ریتیلی  گلیوں میں گونج رہی تھی اور صدیوں کی پیاسی بے کراں ریت کا ہر ذرہ سراب بن کر تصورات سے دل بہلانے لگا تھا ۔یہ اعلان سن کر تھوڑی دیر تک بستی پر خاموشی چھائی رہی، یوں جیسے بستی میں مقیم ہر وجود اس اعلان کا ایک ایک لفظ اپنے بدن کے ریشے ریشے میں اتارنا چاہتا ہے اور ان لفظوں میں موجود نم آلود آس کو محسوس کرنا چاہتا ہے۔ان کیلئے فوری ردعمل دینا آسان نہ تھا۔ پھر یکدم ایک شور اٹھا جس نے بستی کے درو دیوار ہلا دیے۔

لاغر بچے، خشک اور سیاہ چہرے لئے جوان گھروں سے نکل کر بے ہنگم انداز میں ناچنے لگے تھے۔ان کے لبوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں اور ان کی آوازیں عام انسانی آوازوں سے مختلف تھیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ سب ایک بڑے میدان میں موجود تھے جہاں انہیں پانی ملنے کی امید تھی۔انتظار اگرچہ جان لیوا ہوتا ہے لیکن یہ ایک دل خوش کن انتظار تھا اور پانی کے ایک قطرے کی امید میں وہ اپنی تمام عمر یہاں گزار سکتے تھے۔

میں بھی اپنا لاغر وجود سنبھالتا ہوا، گھسٹتا ہوا میدان کی طرف جارہا تھا۔ میرا انگ انگ بھی پیاسا تھا لیکن میں اپنے قبیلے والوں کی طرح خوشی نہیں منا سکتا تھا۔میرے لئے یہ سب عجیب تھا۔میدان میں پہنچ کر میں اپنے باقی دو ساتھیوں کے قریب جا کھڑا ہوا۔

“میں نے آقاؤں کیلئے اپنا خون پسینہ بہایا ہے، ان کی خدمت میں دن رات ایک کیا  ہے۔میرا حق بنتا ہے کہ میں تم دونوں سے پہلے پانی پیوں” یہ میرا ساتھی تھا جو اپنی کھنڈر آنکھوں میں، پوری دنیا کیلئے نفرت لئے، اپنے حق کیلئے دلائل پیش کر رہا تھا۔

میرے دوسرے ساتھی نے اس کی بات اچک لی اور اپنے تئیں چیخ کر بولا۔

“خون پسینہ؟ ہونہہ۔جانتے ہو پسینہ کسے کہتے ہیں؟ کیا تم نے اپنے گندے اور پانی سے نچڑے جسم پر کبھی پسینہ بہتے دیکھا ہے؟ مجھے دیکھو۔میں نے زہریلے پتوں کا رس پیا ہے۔میرا جسم دیکھو” یہ کہتے ہوئے وہ اپنا جسم دکھانے لگا۔اس کے جسم پر موٹے موٹے دانے ابھرے ہوئے تھے جن سے پیپ بہہ رہا تھا۔اس کے اعضاء دھیر دھیرے گل رہے تھے۔

تب ہمارے قبیلے کا ایک آدمی میدان کے وسط میں آیا اور اونچی اواز میں بولا۔

“زندگی خوشی کے مواقع دینے کے معاملے میں انتہائی کنجوس ہے۔ آج خوشی کا دن ہے۔آج ہمیں آبِ حیات ملنے والا ہے۔ہم چند روز مزید جی سکیں گے۔ایک رقص تو بنتا ہے۔”

اس کی آواز پر سب نے لبیک کہا جبکہ میں حسرت سے انہیں تکتا ہوا زمین پر بیٹھ گیا۔ ان میں سے کئی ڈگمگا کر گرے اور کئی تب تک ناچتے رہے جب تک” آبِ حیات” نہ آگیا۔پانی کے گلاس دیکھ کر ہر وجود دم بخود رہ گیا تھا اور میدان پر بلا کا سناٹا طاری ہوگیا تھا۔

مجھے ایک گلاس تھما دیا گیا جسے پہرے داروں کی موجودگی میں مَیں نے برابر تقسیم کرنا تھا۔اب میری باری تھی۔میں آگے بڑھا اور میدان کے وسط میں جاکر اس قدر اونچی آواز میں بولا کہ میرے پھیپھڑے درد کرنے لگے۔

“میرے قبیلے والو! کیا تم جانتے ہو کہ میں اپنے حصے کے پانی کا کیا کرنے والا ہوں”

“ہاہاہا۔۔ کیا کرنے والے ہو؟ کسی پیاسے اونٹ کی طرح اسے پینے والے ہو” ایک ہنستی ہوئی آواز ابھری۔

“پاگل ہوگیا ہے جو یہ بھی نہیں جانتا کہ پانی کا کیا کام ہے۔مر جاؤ تم” ایک دوسری آواز سنائی دی۔

میں نے گلاس ذرا سا ترچھا کیا اور ایک گھونٹ پانی اپنی ہتھیلی پر ڈال دیا۔میدان میں موجود ہر فرد کی آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں۔ایسا منظر انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ان کے ہاتھ رک گئے تھے اور وہ فق چہرے لئے میری طرف دیکھنے لگے تھے۔میرے دونوں ساتھی طیش بھرے انداز میں میرے قریب آئے اور انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر گلاس مجھ سے چھین لیا تھا۔

میں نے اپنا سر ہتھیلی کی طرف جھکایا اور اپنی آنکھیں ہتھیلی میں موجود پانی سے بھگونے لگا۔

“اس کا کیا مطلب ہوا؟ تمہاری عقل پر افسوس ہے۔تم نے اپنا پانی ضائع کیا” ایک بزرگ چلایا۔

جب میں نے اپنا سر اٹھایا تو سالہا سال سے آنسو کیلئے ترستی میری آنکھیں زیرِ آب تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک گلاس پانی بہت قیمتی تھا اور اس کا درست استعمال اسے آنسو بنا کر ہی ممکن تھا!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply