بچو!  بےحسی کی  بھی توحدہوتی ہےنا۔۔سطح جالندھری

پتا نہیں یہ 16 دسمبراتنی جلدی کیوں آجاتا ہے؟ یوں تو ایک سال لگتا ہےکیلنڈر بدلنےمیں مگراس تاریخ کودیکھیں توکل کی بات لگتی ہے۔۔۔ اور یہ کوئی 2014 سے ہی ایسا نہیں ہورہا۔ یہ تاریخ تو 1971 سے خودسراورسفاک سی ہوگئی ہے۔ہم ہرسال سانحے کےرستےزخموں پہ وسیع ترمفاد کامرہم لگاکےمصلحت کےپھاۓرکھتےہیں پھر16 دسمبرآتا ہے اورسوالوں کےنشترسےسارےگھاؤہرے کردیتاہے-مگرآپ اسے ہماری بےحسی کہیے یاصبر ۔۔۔ کہ ہم کسی ایک بھی سوال کا جواب دینےکوتیارنہ تھےاورنہ ہیں۔

مثلا ً1971 میں حالات اس نہج پہ کس نے پہنچائے  کہ مشرقی پاکستان صرف داستان ہی بن گیا ؟قراردادپاکستان شیربنگال نےپیش کی تھی توپھرکس نےبنگالی ہونےکوگالی بنادیا؟ا

قلیت نےکس استحقاق کی بنیادپہ اکثریت کوعاق کردیا؟

کہاجاتاہےکہ اُس دورکےسلیکٹرز نےبھی میرٹ پہ فیصلہ کرنےکی بجائے اپنی روایت کوبرقرار رکھا۔ یوں ملک دولخت ہوگیامگراصلی سرکارکااقبال بلند رہا-سناتھا اس سانحےپربھی تحقیقاتی کمیشن بناتھا-کمیشن کی رپورٹ کیاتھی؟کون کون سانحےکا ذمہ دارتھا؟

جمہوریت میں توعوام ہی اہم ہوتےہیں توپھرکمیشن کی مکمل رپورٹ عوام سے کیوں چھپائی گئی؟

ذمہ داروں کوبوقت رخصت اکیس توپوں کی سلامی کےعلاوہ اور کیاسزاملی؟

آج بھی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پاکستان کےنام پہ زنجیریں پہننےوالوں کی رہائی کےلئے کیا کِیا گیا ہے؟

ہمیں آج تک پڑھایا جاتا رہاہے کہ مکتی باہنی کےتربیت یافتہ اساتذہ نےبنگالیوں کی ذہن سازی کی اور انہیں علیحدگی پر آمادہ کیا۔۔۔ توسوال یہ ہے کہ ہم اس سارے عرصے میں کہاں مدہوش تھے؟

بالفرض یہ درست بھی ہوتوپھریہ بھی ماننا ہوگا کہ کچھ کوتاہی ہم سے بھی ہوئی تھی کیونکہ بےبنیادپروپیگنڈےکی آندھی کتنی ہی تیزکیوں نہ ہواس عمارت کونہیں گراسکتی جسکی بنیاد میں شہیدوں کا لہوشامل ہو۔ ہماری تاریخ “گھڑنے”والوں نےریاستی نااہلی کی پردہ پوشی کیلئے  سن سینتالیس کےشہیدوں کےکفن نوچے ہیں۔

مگرقسمت دیکھیے,ابھی ہم سب فیض کی اس برسات کے لیے آسمان تک رہے تھے کہ جواس خون کے سبھی دھبےدھوڈالےگی جومغربی پاکستان کےچندمطلق العنان فرعونوں کی ضدپہ بہاتھا, کہ ہمیں 16دسمبر کوہی ایک اورسانحے سے دوچار ہونا پڑا۔۔۔سفاک تاریخ کا ایک اور وار۔

پشاورجو کم وبیش 9/11 کے بعد ہی سے حالت جنگ میں تھا وہاں دشمن آگ اور خون کا اتنا بھیانک کھیل کھیل گیا۔ وہ سب بچے جن کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب سجے تھے, پل بھرمیں حال اور مستقبل کی گردش سے نکل کراس راہ پہ ہولیےجہاں جانے کا کبھی سوچاتک نہ تھا- خود توچلے گئے مگراپنےماں باپ کو اس رنج والم کی ڈور تھما گئے جوشاید تب ہی ہاتھ سےچھوٹےگی جب سانس کی ڈور ٹوٹےگی- ان معصوم بچوں کویقیناً اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ ہم نے ان کےلیےکتنی تقریریں کی ہیں, کیمرے کےآگے کتنے آنسو بہائے, ان کی شہادت کوکس کس نے سیاست میں فیس سیونگ کےلئےاستعمال کیا, کیاکیا جذباتی نعرے لگے,کون سےگانے,نغمےلکھےگئے  ,کیاکیابلندوبانگ دعوے کیے گئے اور ان کےخون کو کس کس ادارے نے کیش کروایا۔۔۔ ہاں البتہ ان میں سےچندایک شاید اب اپنے ماں باپ کی کسمپرسی  سے افسردہ ہوں-وہ ماں باپ جو اپنی متاع عزیز لٹا چکے ہیں اور اب انہیں اپنے ہی بچوں کےنام پرہونے والی تقاریب میں اس لئےداخل نہیں ہونے دیاجاتاکہ وہ شرانگیز سوال اٹھاتے ہیں مثلاً دہشت گرداتنا طویل فاصلہ, اتنے زیادہ اسلحے کے ساتھ طےکرکے سکول تک کیسےپہنچ گئے ؟جگہ جگہ بنی, راستے کی ان چیک پوسٹوں کو کیا ہوا تھاجہاں کےپی کےکےعام لوگ اپنی شناخت کرواتےہیں؟چلیں چیک پوسٹ سلیمانی چادر میں پار ہو بھی گئی تو یہ پشاورتھا,جوپہلےہی حالت جنگ میں تھا, مگر پھر بھی حفاظتی امداد اتنی دیرسےکیوں پہنچی؟عیاردشمن نے محافظ کی وردی پہن کےسکیورٹی کی آنکھوں میں دھول جھونکی تھی اور اسکول میں داخل ہوۓتھے توپھران کےمرنے کےبعدکی تصاویرمیں وہ اپنےروایتی ہولناک حلے میں کیوں تھے؟لباس کی تبدیلی اگرحملے سےپہلے تھی توپھریہ اضافی وقت بھی امدادی ٹیم کی تاخیر پرسوالیہ نشان ہے۔۔۔ اور اگر مرنے کے بعد انہوں نے اپنے لباس تبدیل کیے  تھےتوپھریہ حقیقت قوم سےکیوں چھپائی گئی  کہ اس قوم کا واسطہ ماورائی مخلوق سے ہے۔۔۔ چلیں ہمارے بچےتوچلےگئے باقی توحفاظتی حصار  باندھ لیں۔

مانا کہ بچوں کےجنازےسب سے زیادہ وزنی ہوتے ہیں اوروالدین کے لئے اس صدمے کو جھیلنا بہت مشکل ہوتا  ہے مگرایسا بھی کیا کہ اس قوم کے ذہنوں کو سوچ کے وائرس سے آلودہ کیا جاۓجس قوم کے لئے  ان معصوم بچوں نےاپنی جان کی قربانی دی( گو ان کے خواب توابھی پڑھنے لکھنے کے تھے)۔۔۔مگر سچ تو یہ ہے کہ ان بچوں کوافسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ وہ اب جنتوں کےمکین ہیں,۔۔۔لاکھ بے حس سہی مگران کے لئےجوہم سے ہو سکاہم نےکیا۔۔۔ نغمےلکھے, نعرے لگائے ,آنسوبہائے ,میڈیانےاپناٹائم انہیں دیا, ہرکس وناکس نے مذمتی بیانات دئے , ہم فیس بک ,ٹویٹر, وٹس ایپ پہ ہرسال 16 دسمبرکو ان کی یاد مناتے ہیں۔۔۔ انہیں شکرکرنا چاہیے ۔۔۔ورنہ بچےتووہ بھی تھےجوباجوڑکےمدرسے پہ ڈرون اٹیک میں شہید ہوئے , 82 تھے, ان کے پاس پینٹ, شرٹ,ٹائی اوراسکول شوزنہیں تھے مگربچپن اور معصومیت ان کے پاس بھی تھی, وہ انگلش میڈیم  سکول میں نہیں تھے مگر طالب علم وہ بھی تھے, ان کے ماں باپ غریب ضرور تھے مگر وہ بھی اپنے ماں باپ کے لعل اور آنکھوں کے تارے تھے, وہ بھی دہشتگردی کا شکارتھے, ان کابھی مستقبل تھا, ان کی آنکھوں میں بھی خوابوں کےجیتےجاگتے جگنوتھے, انکےلباس ممکن ہےبہت ہی کم قیمت ہوں مگرخون ان کابھی قیمتی تھا۔۔۔ مگرپیارےبچو! ان کےماں باپ کی بدقسمتی دیکھو کہ کہیں اُن کے بچوں کاکوئی تذکرہ ہی نہیں۔۔۔ جیسےوہ کبھی تھےہی نہیں ۔۔۔ نہ کوئی مذمتی بیان, نہ کوئی آنسو, نہ کوئی ٹاک شو, نہ تعزیتی گفتگو, نہ نعرے, نہ انتقام کے وعدے, نہ انکی مظلومیت کےنوحےاور نہ انکی معصومیت کےنغمے!گو خون ان کا بھی سرخ ہی تھا, مگر خون خاک نشیناں تھا, سورزقِ خاک ہوا۔۔۔!

اس لئے اےراج دلارو !جب بھی اپنے امی ابوکےخواب میں آؤ تو انہیں اپنے جنت کے ان دوستوں کےبارےمیں ضرور بتاناجن کے عقلمند ماں باپ ایسے سوال نہیں اٹھاتے کہ
نہ اِدھر اُدھرکی تو بات کر, مجھے یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سےگلہ نہیں, تیری راہبری کاسوال ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بچو انہیں سمجھاؤ کہ بس بہت ہوگیا۔۔۔ اب ہم سے سوالوں کے نشتر مزیدبرداشت نہیں ہوتے۔۔۔ہمارے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔۔۔چلیں آپ ہمارے صبرکوبے حسی کہہ لیں مگر بچو! بےحسی کی بھی توحدہوتی ہےنا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply