ابو علیحہ زندہ ہے۔ علی سجاد شاہ

مجھے اٹھانے کا فیصلہ عامرلیاقت کے پروگرام کے بعد کیا گیا۔ وہ پروگرام کس نے کروایا، اسکی بھی ایک دلچسپ وجہ ہے جو میں کل تفصیل سے بتاونگا، آج اپنے لاپتہ کئے جانے کی بات کرونگا۔ مجھ پرتین الزام تھے۔

1۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج اور حساس ادارے کے خلاف تحریریں
2۔ ایم کیو ایم لندن کی حمایت ، کراچی آپریشن و سیکیورٹی اداروں کی مخالفت اور اسکے بدلے میں لندن سے فلم عارفہ جو لسانی فسادات کروانے واسطے بنائی جارہی تھی کے لئے دوکروڑ روپے کی فنڈنگ لینا جو بذریعہ علی رضا عابدی مجھے کراچی میں کیش میں اداکی گئی ( یہ الزام بھی ان کا تھا جنہوں نے عامر لیاقت والا ٹاک شو کروایا)
3۔ اسپاٹ آن ودھ ابوعلیحہ کے نام سے میں نے سوشل میڈیا پر تین ٹاک شوز کئے تھے، ان میں سے ایک میں میں نے کراچی آپریشن، رینجرز، زینت شہزادی اور بلوچستان کے حوالے سے باتیں کی تھیں جس کے کلپس بقول ان کے جینیوا میں مسنگ پرسنز و ماورائے عدالت کلنگز والے معاملے میں بھی بیرون ملک مقیم بلوچ و مہاجر ایکٹوسٹس نے دیئے تھے

سب سے پہلے میرے فلم کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر سلمان زیدی کو اٹھایا گیا، تیس اکتوبر رات دو بجے قریب میں صدر میں جس ہوٹل میں مقیم تھا، وہاں ریڈ ہوئی اور مجھے وہاں سے میرے اٹیچی کیس لیپ ٹاپ وغیرہ سمیت اٹھالیا گیا، میں سمجھ گیاکہ اعجاز یا عامر سلیمان بھائی میں سے ایک بندہ انکے ہتھے چڑھ گیا ہے کیونکہ صرف ان دونوں کو ہی میری اس ہوٹل میں رہائش بابت معلوم تھا۔ اگلی صبح جہاں مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھا گیا تھا وہاں میں نے سلمان زیدی کی آواز سنی، پھر دوران قید شروع کے پہلے ماہ میں اعجاز کی بھی دو تین مرتبہ آواز سننے میں آئی،

پہلے ماہ مجھے سے تمام الزامات پر تفتیش ہوئی، پھر میرے جوابات کی ویریفیکیشن کا سلسلہ شروع ہوا، فلم عارفہ کی ایڈٹ پروڈکشن ہاوس سے منگوا کر دیکھی گئی، فلم میں لسانیت اور سیکیورٹی فورسز خلاف کچھ نہ تھا، پھر فلم کی فنڈنگ کا بھی علی رضا عابدی و لندن وغیرہ سے تعلق نہ ملا، فلم پر کل اکیاسی لاکھ کہاں لگے اسکا مجھے پتا نہیں تھا کیونکہ میری اور ایاز بھائی کے معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ فلم کے تمام تر اخراجات و رقومات کی ادائیگی اور پروڈکشن منیجمنٹ وغیرہ سید توصیف کرے گا ۔ سید توصیف اور ایاز بھائی کو رینجرز کے ذریعے انوسٹی گیٹ کیا گیا، جب اکیاسی لاکھ کے اخراجات ان سے ویریفائی ہوگئے تو الزام نمبر دو سے مجھے بری کردیا گیا۔

اسپاٹ آن ودھ ابوعلیحہ والے ٹاک شو میں میں نے وہاں بھی اعتراف کیا اور یہاں بھی کرتا ہوں کہ اس میں میں نے حد سے تجاوز کیا اور صحافتی تقاضوں کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے یکطرفہ الزامات شدت سے لگائے، مجھے پروگرام کو بیلنس کرنا چاہئے تھا اور فریق بننے سے گریز کرنا چاہئے تھا، ان کا موقف تھا کہ فلم کے کلپس جہاں جہاں گئے اس سے سیکیورٹی فورسز اور پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے، اس لئے یہ ناقابل معافی جرم ہے

سوشل میڈیا کی پوسٹس کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ ہم مثبت تنقید کو سر آنکھوں پر لیتے ہیں، اچھی پرمزاح تنقید کو انجوائے بھی کرلیتے ہیں مگر کوئی بندہ صبح شام ہر وقت ہمارے خلاف لکھتا رہے اور نوجوان اذہان متاثر ہوکراس کی پوسٹس کو بطور ریفرنس ادھر ادھر سوشل میڈیا و وٹس ایپ گروپس پر شئیر کرنے لگیں تو پھر انہیں مجبورا کاروائی کرنا پڑتی ہے

رہائی سے ایک دن قبل مجھے بتایا گیا کہ تمہیں رہا کررہے ہیں، ہماری طرف سے کوئی قدغن نہیں ہے، سوشل میڈیا پر سیاست سے لے کر دنیا جہان کے خلاف لکھو، فلمیں بناو، سکرپٹ لکھو، سیکیورٹی فورسز کے حوالے سے مثبت تنقید بھی کرو مگر پہلے کی طرح صبح و شام سخت جملوں بھری تحاریر اور اینٹی اسٹیٹ ایلیمنٹس کی حمایت مت کرنا، اگلے دن شام کو مجھے چھے بجے گاڑی میں بٹھایا گیااور قریب ساڑھے سات بجے ائیرپورٹ پاس ڈراپ کردیا گیا، میرا سارا سامان موبائیل لیپ ٹاپس لوٹادیئے گئے، کرائے کی مد میں دس ہزار بھی دئے، میں نے ائیرپورٹ جاکر فلائٹ پکڑی اور اسلام آباد آگیا۔

نوماہ کی قید میں وہاں میرے ساتھ کیا کیا ہوا، مجھے وہاں کیسے رکھا گیا تھا سے لےکر تفتیش تک کے بارے میں، میں نے نہ گھر والوں سے بات کی ہے، نہ ہی یہاں کرونگا۔ انشااللہ طبیعت کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے، خود پر لگائے جانے والے تمام الزامات کے مرحلہ وار جوابات اپنی سہولت کے حساب سے دیتا رہونگا اور سیاسی و دیگر پوسٹیں بھی کرونگا مگر کھل کر بتارہا ہوں کہ پاک فوج و سیکیورٹی اداروں کے خلاف نہ کسی قسم کی کوئی پوسٹ کرونگا نہ ہی کوئی اور فیک آئی ڈی بناکر وہاں سے لکھنے کا ایڈونچر کرونگا۔ میں نے جو لکھا ، مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے، آئندہ نہیں لکھونگا تو بزدلی کا طعنہ دینے سے قبل میری رہائی وقت کی تصویر دیکھ لیجئے گا، جس وقت میں نے یہ تصویر جہاز میں کھینچی تھی تو اس سے محض دو گھنٹے قبل میں نے خود کو نو ماہ بعد آئینے میں دیکھا تھا، کیونکہ دوران قید نو ماہ چہرے پر پٹی تھی اور باتھ روم وغیرہ جہاں پٹی اتارتے تھے غسل و پیشاب واسطے ، وہاں آئینہ نہیں تھا۔

میرے اٹھائے جانے سے لے کر رہائی تک میرے ساتھ جو وہاں ہوا اس پر میں نے اللہ سے یہی التجا کی ہے کہ اگر میں غلط تھا تو میرے ساتھ ٹھیک ہوا اور اگر میں حق پر تھا تو روز محشر مجھے اس کا اجر اور میرے ساتھ زیادتی کرنے والوں سے اس کا حساب ضرور لینا۔

دوران قید دو اچھی باتیں ہوئیں، ایک نماز پنجگانہ کی عادت پڑی اور عادت پختہ ہوگئی، دوسرا اللہ سوہنے سے تعلق واہ واہ پکا ہوگیا، پہلے ماں تھی ، اب ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والے کا ساتھ میسر ہے سو فکر نہیں ہے البتہ آئینے میں نو ماہ بعد خود کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ والدہ وفات پاچکی ہیں ورنہ میری نو ماہ کی گمشدگی کو وہ اگر سہہ بھی گئی ہوتیں تو مجھے اس حال میں دیکھ کر وہ فوت ہوجاتیں۔

اسلام آباد سے ایبٹ آباد آگیا ہوں، علاج و خوراک سب ہورہا ہے، ایک ماہ یہاں رہونگا پھر انشااللہ میں اور توصیف دوبارہ عارفہ کی پوسٹ پروڈکشن پر لگ جائینگے، عارفہ ریلیز کرینگے نہ ہوئی تو دوسری فلم بنائینگے وہ بند ہوئی تو تیسری پر کام شروع کردینگے، فلم میکنگ میرا اور توصیف کا خواب ہے، اس کو ہم مرتے دم تک پورا کرنے کی کوشش کرتے رہینگے خواہ ہر بار کچلے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا اور آپ سب کا اللہ سوہنا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply