آنسو پونچھنا سیکھو۔۔عارف انیس

کل ایک کمال کا لطیفہ سنا۔ کسی لاہوری کا بیٹا تلاش روزگار میں ملک سے باہر گیا تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا داتا دربار گیا اور وہاں جا کر صدق دل سے پنجابی میں ایک دعا مانگی۔ “یا داتا، اسماعیل نوں دبئی وچ سیٹ کرادیو، پکا سیٹ کرادیو، جیویں تسی آپ لاہور وچ سیٹ او”۔( داتا صاحب، میرے بیٹے اسماعیل کو بھی اسی طرح دبئی میں سیٹ کرادیں، جیسے آپ خود لاہور میں سیٹ ہیں)۔ہنسا بھی، پھر خیال بھی آیا جس شہر میں قطب الدین ایبک، جلال الدین اکبر، جہاں گیر، نورجہاں، شاہ جہاں، آصف جاہ، رنجیت سنگھ جیسے آئے اور گرد بن گئے، وہاں داتا صاحب اتنے عرصے سے سیٹ کیسے بیٹھے ہیں؟ جواب ملا، بس ہزار سال سے لوگوں کے آنسو پونچھ پونچھ کر سیٹ ہوگئے ہیں۔ باقی شاہ اور شہنشاہ شاید یہ کام نہیں جانتے تھے تو وقت کے آتشدان میں راکھ ہوگئے۔
ہاں، اپنی سارے علم کو، ادب کو، فلسفے کو، توانائی کو، ولولے کو، تجربے کو، فہم کو، کامرانیوں کو، باقی سب جگہوں پر کام میں لے کر آؤ، مگر ایک کام سب سے ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ سر پر ہاتھ رکھنا سیکھو، گلے لگانا سیکھو، آنسو پونچھنا سیکھو، اگر باقی سارےگن سیکھ لئے مگر یہ گن نہ سیکھا تو سب ڈسٹ بن میں چلا جائے گا۔
مرغی اور بطخ کے بچے پیدا ہونے کے پہلے گھنٹے میں اپنے آپ کو سنبھالنے جوگے ہوجاتے ہیں۔ ایک قسم کے زرافے کے بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں چار سے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ کچھ طرح کی مکھیاں ہیں، ان کے بچے پانچ منٹ میں اپنی ماں کی طرح اڑنا سیکھ لیتے ہیں۔ مگر انسان ہے جسے اپنا جوگا ہونے میں ماہرین کے مطابق نو سال کی مدت درکار ہوتی ہے۔ وہ اتنے عرصے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پھر درمیان میں ایک مدت ایسی آتی ہے کہ اسےلگتا ہے کہ وہ پہاڑوں کاسرمہ بنادے گا اور کوہساروں کو شق کر کے دودھ کی نہر نکال دے گا اور بادلوں کوآپس میں ٹکرا دے گا۔ پھر اس کی زندگی کا آخری وقت آتا ہے جب وہ پھر چلنے، پھرنے، کھانے پینے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ دائرہ پھر مکمل ہوجاتا ہے۔
دلائی لامہ نے کیسی خوبصورت بات کی ہے “ہماری زندگی کے ابتدائی اور انتہائی دونوں ادوار لوگوں کے سہارے گزرتے ہیں، جزبات اور احساسات کے سہارے گزرتے ہیں۔ یہ دنیا کتنی بہتر ہوجائے کہ ہم درمیان والی مدت میں بھی زور کی بجائے رحم، کرم اور شفقت سے کام لیتے رہیں اور یہ سبق بھلا نہ دیں”۔
لیکن عام طور پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ دنیا زورآوروں آور زرداروں کی ہے۔ ماہرین نفسیات اور بشریات نے بہت دلچسپ تجزیہ کیا کہ گو دنیا بھر کے سہارے مذاہب اور ثقافتوں میں عاجزی کے فوائد بیان کیے جاتے ہیں، مگر واقعی اس ثقافت کا اصل کیا ہے، اس کا پتہ اس وقت چلے گا جب بھی آپ اسی ثقافت میں ان کے مجسموں کا مطالعہ کریں گے۔ اگر ان کے تمام ہیروز مغرور اور جنگجو لوگ ہوں گے، یہیں سے سمجھ جانا چاہیے کہ آپ کی اندرونی نفسیات کیسے کام کرتی ہے۔ جب سفید گھوڑے پر سمشیر خاراشگاف لہراتے ہوئے سورما کا انتظار ہوگا تو سوچ بھی متشدد ہوجائے گی۔ ایدھی اور چاہئیں، ڈاکٹر امجد ثاقب اور چاہئیں، رتھ فاؤ اور چاہئیں تو مجسمے بھی انہی کے لگانے ہوں گے۔
کچھ لوگ زندگی میں اس قانون پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وہ ہتھوڑا ہیں، اور باقی دنیا کیل ہے، جہاں کیل دیکھو، اسے ٹھونک دو۔ اس قانون پر پوری زندگی گزارتے گزارتے کبھی کبھار وہ اپنے سے بڑے ہتھوڑے کی زد میں آتے ہیں اور کسی کیل کی طرح ٹھونک دیے جاتے ہیں۔ ایسے ہتھوڑے ہمارے آس پاس ہر طرح کے کرداروں کی شکل میں موجود ہیں، ویسے تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں، مگر ہمارے جیسے نیم قبائلی معاشروں میں ہتھوڑے اور کیل زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں۔ نوکر شاہی اور لیڈرشپ کی پاکستانی نفسیات جہاں تک سیکھی تھی اس کے حساب سے اپنے ہاں تقریباً ہر کیل کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ بڑی ہوکر ہتھوڑا بن جائے۔
ہاں، صرف کیل اور ہتھوڑوں کے کلچر میں نہیں رہا جاسکتا۔ کوئی مرہم لگانے والا بھی ہو، کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی ہو، کوئی آنسو پونچھنے والا بھی ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کوئی ہم خود ہی ہوں۔ کیا ہی بہتر ہو جس عاجزی ہر ہم اپنے خیال میں ایمان رکھتے ہیں، ہمارے مجسمے بھی اسی لے میں ڈھل۔ جائیں۔ جہاں کیل، ہتھوڑے بنتے ہیں، وہاں مرہم بھی تو بنا جاسکتا ہے۔
عارف انیس
( مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس )
پس نوشت : یہ پوسٹ محترمہ شازیہ شریف کے ایک کمنٹ کی وجہ سے لکھی گئی۔ ویسے تو نفسیات پریکٹس کرنے کی وجہ سے اپنا کام ہی آنسو پونچھنا ہے، مگر ہزاروں کے حساب سے پیغامات آتے ہیں،وقت کی کمی کی وجہ سے ہر ایک تک پہنچ ممکن نہیں ہوتی، مگر نیت یہی ہوتی ہے کہ ہر ایک تک پہنچا جائے۔ کمی، بیشی معاف)

Facebook Comments