محبت اور سجدہِ دل۔۔۔۔ مونا نقوی/مائکروفکشن

“وہ مجھ سے کہہ رہی تھی میری سمت دیکھو۔کس قدر دلنشیں اور حسین ہوں میں ۔میں جس دل کو نگاہ اُٹھا کے دیکھ لوں اسے اپنا غلام کر لیتی ہوں۔مجھےدل میں بساۓ کئی عاشق ،مجنوں، رانجھے، مرزے صحراؤں گلیوں اور میدانوں میں خاک چھانتے پھرتے ہیں۔میرے بنا ضیائیں ظلمت کدوں میں بدل جاتی ہیں ۔چاند کی روپہلی کرنیں اماوس کی سیاہ چادر  اوڑھ لیتی ہیں ۔ستارے بے نور ہو جاتے ہیں ۔میں ہوں تو کائنات کی سجاوٹیں ہیں بہاریں ہیں رنگ و خوشبو ہے۔میں ہوں تو زندگی ہے نگاہ پھیر لوں تو جینا موت کے تلخ ذائقے سا ہے ۔” دم سادھے اُس کی سحر انگیز دلیلوں کو سنتے ہوۓ طویل سانس آہ کی صورت لبوں پہ مچلی۔اُس کی مخمور گلابی آنکھیں کسی شکاری کی طرح مجھے دیکھ رہی تھیں ۔اُس کے عنابی ہونٹوں پہ زمزمہِ وصل جاری تھا۔میری روح اُس آہنگ پہ رقصاں ہونے کو تھی ۔۔۔کہ   میں بول اُٹھی

“تمہارا کہنا بجا سہی تمہاری سب دلیلیں صحیح مگر ۔۔۔ تمہاری راہ چلنے والوں کے حصے میں ہمیشہ کٹھنائیاں اور بد نامیاں ہی آئی ہیں ۔ہیر رانجھا ،لیلیٰ مجنوں کا دور ہو یا شریں فرہاد اور سوہنی ماہیوال کا ،تم نے انہیں وصل کی آس میں تڑپایا ہے رلایا اور دربدر کیا ہے ۔تم جاذب و جمیل سہی پر یہ راہ پُر خار اور پتھریلے راستوں سے اٹی ہے ۔میں تمہارے ہم آواز ہو کر نہ یہ زمزمہ گنگنا سکتی ہوں نہ تمہارے قدم سے قدم ملا کے بے خود ہو کے رقص کر سکتی  ہوں ۔”میں نے اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہوۓ کہا۔

“خود کو دیکھو کیا خوبرو جوانی ہے تمہاری ۔تمہاری اک نگاہِ ادا سے وہ گھائل ہو کے تمہارے قدموں میں آ گرا ہے تو میری بدولت ۔وہ تمہیں اپنے من کی رانی بنانے اور زندگی کے خوبصورت رنگوں اور پھولوں سے سجی راہگزر پہ تمہارے ہم قدم ہو کے چلنا چاہتا ہے۔وہ زمانے کی ہر ظالم  و روایت کو توڑ نے کی جرات رکھتا ہے اور ایسا جی دار عاشق تو قسمت والیوں کو ملتا ہے۔” وہ سحر میں رچے لہجے میں یہ باتیں رس کی طرح میرے کانوں میں انڈیل رہی تھی۔میرا ذہن اُس کی باتوں کی تائید میں مصروف ہو چکا تھا اور دل کسی کھٹکے کے زیرِ اثر دھڑکنے لگا تھا۔

“تم اتنے  وثوق سے کیسےکہہ سکتی اسے جی دار عاشق۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے  وہ آدھے رستے میں کرب و اذیت سہنے کےلیے مجھے تنہا چھوڑ دے۔زمانےسے لڑنے  والا، زمانے کی رنگینوں میں کھو کر کسی اور حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر بھی تو سکتا ہے ۔تب میرا مقام کیا ہوگا ۔۔۔سواۓ اک بھاگی ہوئی لڑکی کے ٹائٹل کے ۔اور فی زمانہ تو ویسے بھی محبت کے نام پہ بے وقوف  بنانے کے ساتھ ، دھوکہ دیا جا رہا ہے ۔عمر بھر کے ساتھ کی قسمیں کھانے والے بیچ رستے تھک کے اپنی کہی بات سے مکر جاتے ہیں۔”اِس سے پہلے میں کچھ اور بولتی وہ ٹوکتے ہوۓ گویا ہوئی۔

” یہ سب تمہارے دل کا خوف اور فضول سا ذہنی اختراع ہے ۔سر دھڑ کی بازی لگا کے جو تمہاری گلی تک آ کے تمہیں ساتھ لانے کا حوصلہ کر سکتا ہے، اُس کی نیت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ وہ محبت کی اذاں دےچکا ہے اب اُس کی آواز پہ لبیک کہتے ہوۓ تمہیں محبت کا سجدہ ادا کرنا ہے۔” وہ اپنی مخملی پوروں سے میرے چہرے کو محبت سے چھوتے ہوۓ بولی۔تو دل محبت کی کہی پہ ایمان لے آیا ۔گھر کے سبھی افراد نیند کی گولیوں کے زیرِ اثر سو رہے تھے جو رات کے کھانے میں چپکے سے میں نے ملادی تھیں ۔چارپائی پہ پڑا بیگ جلدی سے اٹھا کر بیرونی دروازے کی سمت میں نے تیزی سے قدم بڑھاۓ ہی تھے کہ محلے کی مسجد سے موذن کی صداۓ “اللہ اکبر ” بلند ہوئی۔کسی طاقت نے جیسے قدم روک لیے تھے۔

“گھر کے پانچ نفوس کا کیا قصورجنہیں محبت کے نام پہ معاشرے کی بے رحم زبانوں اور زہریلے نشتروں کے سہنے کے لیے چھوڑے جا رہی تھی ۔نیند کی گولیوں سے بہتر زہر کی گولیاں کھلا دیتی تو اچھا تھا”دل جو محبت کے راگ الاپ رہا تھا اس جذبے سے منحرف ہوتے ہوۓ صلاح دینے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

محبت کا سنہری راستہ باہر میرا منتظر کھڑا تھا۔۔۔۔اور میں جاء  نماز پہ  رب کے حضور طویل سجدہِ شکر ادا کرنے میں مشغول تھی۔ایسا سکوں رگ و پے میں سرائیت کر رہا تھا جو شاید اُس کے سنگ گزرے لمحوں میں بھی میسر نہ  آتا۔
“مجھ پہ آج یہ حقیقت منکشف ہوئی تھی کہ اصل محبت کامرکز تو فقط ذات واحد ہے اور سجدہِ دل کا واحد محور بھی بس اُسی کی لا شریک ذات ہے ۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply