کشمیر کا سچ: گراؤنڈ رِپورٹ (قسط پنجم)

ڈاکٹر قمر تبریز!

چمپئنز ٹرافی کا فائنل میچ انگلینڈ میں کھیلا جا رہا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے سے مقابلہ آرا تھیں۔ لیکن، رات میں تقریباً دس بجے جیسے ہی یہ اعلان ہوا کہ میچ میں پاکستانی ٹیم نے ہندوستانی ٹیم کو ہرا دیا ہے، چاروں طرف پٹاخے پھوٹنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں ہر چوراہے پر نعرہ لگ رہا تھا ’جیوے جیوے پاکستان‘ جب پاکستان کے حق میں نعرے لگے مقدس رمضان المبارک کی 24 ویں شب تھی اور جون کی 18 تاریخ۔ بین الاقوامی کرکٹ کی چمپئنز ٹرافی کا فائنل میچ برطانیہ میں کھیلا جا رہا تھا۔ اتفاق سے اُس دن ہندوستان اور پاکستان کی ٹیمیں آمنے سامنے تھیں ۔ دہلی میں رہتے ہوئے اس قسم کی خبریں تو کئی بار سن چکا تھا کہ فلاں یونیورسٹی یا کالج میں چند کشمیری طالب علموں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سپورٹ کردیا، جس کے بعد کچھ دوسرے لڑکوں نے ان کی پٹائی کردی یا پھر انتظامیہ نے انھیں اس یونیورسٹی یا کالج سے نکال دیا۔

لیکن، 18 جون کو میں خود اس واقعہ کا پہلی بار گواہ بنا۔ کشمیر میں اُس دن بھی چاروں طرف سناٹا تھا۔ ہڑتال کی کوئی کال تو نہیں دی گئی تھی، لیکن بازاروں میں دو چار دکانیں ہی کھلی تھیں۔ سڑکوں پر بھی گاڑیوں کی تعداد کافی کم تھی۔ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جا تو رہے تھے، لیکن صبح سے ہی سڑکوں پر عام شہریوں سے زیادہ فوجیوں کی تعداد تھی۔ مجھے لگا، ان کی ڈیوٹی شاید دیر شام تک رہے گی، جیسا کہ عام دنوں میں ہوا کرتی ہے۔ دوسرے، اُس دن انڈیا- پاکستان کا فائنل میچ بھی چل رہا تھا، اس لیے میں نے سوچا کہ کشمیر میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے بھی فوجیوں کو دیر شام تک سڑکوں اور بازاروں میں تعینات رکھا جائے گا۔ لیکن، دوپہر کے تین بجتے ہی سڑکیں ، بازار اور گلی محلے فوجیوں سے خالی ہو گئے۔ دوسری طرف، میچ کی پہلی اننگ میں ہندوستان نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ کرکٹ کے شائقین کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ آج پاکستانی ٹیم جیتنے والی ہے۔ میچ تو دن میں ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن جیسا کہ ہندوستان کے باقی حصوں میں ہوتا ہے، جب بھی ہماری ٹیم کا کوئی کھلاڑی چوکے یا چھکے لگاتا ہے یا پھر کسی کا وکٹ لیتا ہے، تو اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی پر اس میچ کو دیکھنے والے زور سے چیختے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں ، تالی بجاتے ہیں ۔ یہ خاص کر تب زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے، جب مقابلہ پاکستانی ٹیم سے ہو۔

لیکن، کشمیر میں دن میں کہیں سے ایسی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی، حالانکہ تمام گھروں میں لوگ ٹی وی پر اس میچ کو پورے اطمینان سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے سوچا، شاید رمضان کا احترام کرتے ہوئے لوگ ایسا کرنے سے گریز کر رہے ہوں ۔ خیر، افطار کا وقت آیا، پھر رات کا کھانا کھانے کے بعد میں جیسے ہی چہل قدمی کرنے کے لیے گھر کے آنگن میں نکلا، چوراہے پر پٹاخوں کے پھٹنے اور ’جیوے جیوے پاکستان‘ کے نعرے سنائی دینے لگے۔ چونکہ رات کا وقت تھا، اس لیے آس پاس کے گاؤوں سے بھی پٹاخوں کے پھوٹنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ اس رات تقریباً دس بجے کشمیر کے ہر گاؤں ، ہر چوراہے، ہر قصبہ اور شہر اور ہر گلی محلے میں یہ نعرہ لگایا گیا۔ میں حیران تھا کہ اس وقت ہمارے ملک کی فوج یا کشمیر کی پولیس کہاں ہے، جو اِن لوگوں کو دوسرے ملک کا نعرہ لگانے سے نہیں روک رہی ہے۔ مجھے اپنے ملک کے خلاف نعرہ لگتے ہوئے سن کر غصہ تو کافی آر ہا تھا، لیکن میں وہاں اکیلا تھا۔ اگر اس کی مخالفت کرتا، تو شاید میں وہاں سے زندہ بچ کر واپس نہیں لوٹتا۔

اُس دن نہ جانے کیوں مجھے پہلی بار کشمیر میں ایسا محسوس ہوا کہ میں جس جگہ پر کھڑا ہوں ، وہ اب کسی اور ملک کا حصہ بن چکا ہے۔ اتنی فوج، پولس اور دیگر نیم فوجی دستوں کے وہاں رہتے ہوئے اگر ان لوگوں کو پاکستان کے حق میں نعرے لگانے سے اگر کوئی نہیں روک پا رہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ مرکزی حکومت کشمیر کو کنٹرول کرپانے میں اس وقت پوری طرح ناکام ہے۔ ٹی وی والے جو ہر ایک بات پر اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ، ان میں سے کسی نے بھی اس کی فوٹیج یا کلپنگ اس دن نہیں چلائی۔ اگر چلاتے، تو شاید پورے ہندوستان کو پتہ چلتا کہ آج کل کشمیر کی اصلی صورتحال کیا ہے۔ اسی لیے میں بار بار کہتا ہوں کہ کشمیر کے بارے میں ٹی وی والے جو دکھا رہے ہیں ، یا اخبار والے جو کچھ لکھ رہے ہیں ، وہ سچ نہیں ہے۔ ان صحافیوں کو جیسا دکھانے یا لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے، وہ ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس دن مجھے ڈل جھیل میں زعفران بیچنے والے اس تاجر کا میرے اوپر کسا گیا فقرہ یاد آیا کہ ’’میں جو بتاؤں گا، تم لکھ نہیں پاؤگے‘‘۔

اس کے بارے میں تفصیل سے میں پچھلی قسطوں میں لکھ چکا ہوں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے جیتنے کا جشن اُس رات پورے کشمیر میں منایا گیا۔ وہیں کے اخبار میں اگلے دن ایک تصویر بھی دیکھنے کو ملی، جس میں میر واعظ عمر فاروق بھی اس رات ایک بڑے مجمع کے درمیان ڈھول باجا بجاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اس خبر کو چند ٹی وی چینلوں نے ضرور دکھایا تھا۔ اس دن فائنل میں پاکستان نے کسی اور ملک کو ہرایا ہوتا اور اس پر کشمیری لوگ خوشیاں منا رہے ہوتے، تو وہ اتنی تکلیف دہ بات نہیں ہوتی، جتنی کہ ہندوستان کی پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں شکست پر خوشیاں منانا۔ یہ خبر اگر اس دن ٹی وی چینلوں پر چلائی گئی ہوتی، تو شاید ملک کا بچہ بچہ وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ سوال کر رہا ہوتا کہ آپ کی پارٹی کی اُس ریاست میں مخلوط حکومت ہے، پھر یہ سب کیسے چل رہا ہے۔ اس دن اُن فرضی دیش بھکتوں کی بھی قلعی کھل جاتی، جو غریبوں اور نہتوں کو اپنے تشدد کا نشانہ تو بنا رہے ہیں، لیکن کشمیر میں کچھ نہیں کر پا رہے ہیں ۔ جس طرح سے ہندوستان کے ہر مسلمان کو چھوٹی چھوٹی سی بات پر پاکستان چلے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے، کیا یہ لوگ پورے کشمیر کو کہہ سکتے ہیں کہ تم پاکستان چلے جاؤ؟

ایسا نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ کہا جاتا ہے۔ پھر بھی، وہاں کھلے عام ایک دو جگہ نہیں ، بلکہ پوری وادی میں ’جیوے جیوے پاکستان‘ کے نعرے 18 جون کی رات کو لگے اور ہماری فوج اسے دیکھتی رہی، حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہ ایک خطرناک ٹرینڈ ہے۔ پندرہ بیس برسوں سے کشمیر کا دورہ کرتے رہنے کا تجربہ رکھنے کی بنیاد پر میں یہ بات آپ کو پوری دیانت داری سے بتانا چاہتا ہوں کہ کشمیر میں پہلے کبھی بھی پاکستان کے حامی اتنی بڑی تعداد میں نہیں تھے، جتنے کہ اب ہیں ۔ میں نے اب تک ہزاروں کشمیریوں سے بات کی ہوگی، لیکن میں نے ہمیشہ پایا کہ کشمیر کے عوام تین قسم کی رائے رکھتے ہیں ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ اور تیسرا طبقہ وہ ہے، جو نہ تو پاکستان کے ساتھ جانا چاہتا ہے اور نہ ہی ہندوستان کے ساتھ، بلکہ اپنے لیے ایک الگ ملک کی خواہش رکھتا ہے۔ اس تیسرے قسم کی رائے رکھنے والوں کی تعداد پہلے کشمیر میں سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی، لیکن اب ہر کسی کی زبان پر صرف پاکستان پاکستان ہے۔

حالانکہ، اس سفر میں مجھے کچھ ایسے بزرگ لوگ بھی ملے، جنہوں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر کہا کہ 125 کروڑ کی آبادی والا ہندوستان کبھی بھی کشمیر کو نہیں چھوڑے گا اور جو لوگ آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں ، انھیں آزادی کبھی نصیب نہیں ہوگی۔ کاش ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی، لیکن ایسے لوگ مجھے بہت کم ملے۔ اس موضوع پر میں فوجیوں سے بات کرنا چاہتا تھا، لیکن حالات نے اس کا موقع نہیں دیا۔ میں خود نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) کا ’سی‘ سرٹیفکیٹ پاس ہوں ۔ این سی سی میں رہتے ہوئے میں نے فوج کے ساتھ ٹریننگ حاصل کی ہوئی ہے۔ فوجیوں کے ساتھ کافی دن گزارے ہیں ۔ اس لیے میں جانتا ہوں کہ کوئی بھی فوجی اپنی جان دے دے گا، لیکن وہ اپنے ملک کے خلاف کوئی بھی لفظ یا نعرہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کشمیر میں یہ سب کیسے چل رہا ہے؟ ملی ٹینٹ آج کل اتنے مضبوط کیسے ہو گئے ہیں کہ وہ بیچ سڑک پر بڑے سے بڑے حادثہ کو انجام دے دیتے ہیں اور پھر وہاں سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں ؟ انھیں پناہ کون دے رہا ہے؟ اسلحہ اور ٹریننگ انھیں کہاں سے مل رہی ہے؟ کیوں کہ سرحد پر پاکستان سے ہونے والی دراندازیوں پر ہمارے جانباز فوجیوں نے تقریباً پوری طرح قابو پا لیا ہے اور نہ تو اِدھر سے کوئی اُدھر جا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان سے کوئی ہندوستانی سرحد کے اندر داخل ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا مطلب صاف ہے کہ آج کل کشمیر میں جتنے بھی ملی ٹینٹ ہیں ، وہ سب مقامی ہیں ، باہر کا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ سارے سوالات ہمیں اس بات پر غور کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنا احتساب کریں کہ آخر ہم سے غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ اگلی اور آخری قسط میں انشاء اللہ یہی سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان سب کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ جس مسئلہ کا سبب خود کشمیر کے لوگ بنے ہوئے ہیں، اسی مسئلہ کا آسان حل بھی ان کے پاس موجود ہے۔ لیکن افسوس، ہماری حکومت انھیں مسئلہ کشمیر کے حل کا فریق نہیں بنانا چاہتی، ان سے بات چیت نہیں کرنا چاہتی۔ تو اگلی قسط میں انشاء اللہ کشمیریوں کی ہی زبانی اس حل کو تلاش کریں گے، جس پر اگر ہندوستانی حکومت عمل کرے تو کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو سکتا ہے، بغیر خون بہائے اور جنگ لڑے۔
جاری ہے
چوتھ قسط کا لنک۔https://mukaalma.com/article/guestarticle/4237

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply