• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبانے امیت شاہ کو جھکا دیا۔۔ڈاکٹر سلیم خان

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبانے امیت شاہ کو جھکا دیا۔۔ڈاکٹر سلیم خان

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے وہ کر دکھایا جس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا ۔ شہریت ترمیم بل کے خلاف سب سے پہلے شمال مشرقی ہندوستان میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے ۔ اس کے سبب لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ وزیراعلیٰ کو ہوائی اڈے پر کئی گھنٹوں تک محصور ہونا پڑا۔ عوام نے وزیراعلیٰ سمیت کئی وزراء کے گھر پر پتھراو کیا ۔ مشتعل ہجوم نے ریل گاڑی کو مسافروں سمیت نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی ۔ کئی بسوں اور گاڑیوں کو جلا ڈالا۔ اس سے گھبرا کر امیت شاہ نے اپنا دورہ رد کردیا۔ آر ایس ایس کے دفاتر کو جلتا ہوا دیکھ کر بی جے پی کے رہنما اور وزراء نے ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد استعفیٰ تک دینا شروع کردیا ۔ پانچ مظاہرین ہلاک ہوگئے ۔ جاپانی وزیر اعظم کا دورہ منسوخ ہوگیا لیکن مودی اور شاہ کے کان پر جوں نہیں رینگی کیونکہ وہ سب ملک کے ایک کونے میں ہورہا تھا لیکن جب یہ احتجاج کرنے کے لیے جامعہ کے طلبا میدان میں اترے تو مرکزی حکومت کے ہوش ٹھکانے آگئے اور وزیرداخلہ کو کہنا پڑا کہ وہ اس سیاہ قانون میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جامعہ کا مظاہرہ اور یہ اعلان ایک ہی دن ہوا۔

جامعہ کے طلباء کو بھی اس کامیابی سے رب کائنات نے آزمائش سے گزارنے کے بعد نوازا کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے۔ جمعہ کے دن پہلا احتجاج ہوا جس کو دبانے کے لیے پولیس نے طاقت کا بیجا استعمال کیا ۔ انتظامیہ کو یہ توقع تھی کہ طلبا ڈر جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سنیچر کی صبح پھر سے مظاہرہ کیا گیا جس کو پولیس کو توقع نہیں تھی۔ اس طرح یونیورسٹی کے جیالوں کی حوصلہ شکنی کاناپاک منصوبہ خاک میں مل گیا۔ شمال مشرق میں مظاہروں کے بعدفرانس ، برطانیہ، اسرائیل ا ور امریکہ نے اپنے شہریوں کو آسام یا کولکاتہ جانے سے گریز کرنے کی ہدایت کردی۔ اس سے مرکزی سرکار کی بے عزتی تو ہوئی لیکن عملاً کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اس کے برعکس اگر جامعہ کے بعد مظاہرے کی آگ جے این یو، دہلی یونیورسٹی اور اس سے منسلک کالجوں تک بھی پھیل جانے پر وہاں بھی غیر ملکیوں کے لیے سفری انتباہ جاری ہوجائے گا تواپنے دارالخلافہ میں مودی جی کی حالت سرینگر کے فاروق عبداللہ جیسی ہوجائے گی ۔ اس خوف نے امیت شاہ کو بربریت کا حکم دینے پر مجبور کردیا ۔ ان کی ظالمانہ کارروائی اب وزیرداخلہ کی پیشانی پر ایک ایسا کلنک بن گئی ہے جب وہ اس عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے تب بھی یہ داغ ان کے ماتھے سے نہیں ہٹے گا۔

جمعہ کے بعد سنیچر کو ایوان پارلیمان تک مارچ کی تیاری میں مظاہرہ فرینڈس کا لونی کے قریب پہنچ گیا جہاں بسیں اور گاڑیاں جلائی گئیں۔ اس بابت شدید اختلاف ہے کہ اس تشدد کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ لیکن اس پر اتفاق ہے کہ طلبا اس میں ملوث نہیں تھے۔ پولیس کا یہ الزام ہے کہ مظاہرین میں سماج دشمن عناصر شامل ہوگئے تھے اور دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کا کہنا ہے کہ یہ آگ پولیس نے خود لگائی ۔ سسودیا ایک ذمہ دار آدمی ہیں اس لیے وہ ایسے نازک مسئلہ پر غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دے سکتے ۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ ایک ویڈیو بھی منسلک کی ہے جس میں ایک پولیس اہلکار بس کے اندر  کوئی  مائع چھڑکتا ہوا نظر آتا ہے۔پولیس اس الزام کو جھٹلا رہی ہے لیکن اس کا فیصلہ بہت جلد اقلیتی کمیشن کے ذریعہ غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد ہوجائے گا۔ ویسے پولس کے ذریعہ پتھربازی اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی ویڈیوز کا انکار ناممکن ہے۔ یہ دراصل پولس کی اپنی وردی کے اندر جارحانہ کارروائی کے لیے ازخود جواز فراہم کر نے کی بھونڈی کوشش تھی ۔ یہ ساری مذموم حرکات ویڈیوز کے اندر فلمبند ہوچکی ہیں ۔

یونیورسٹی کے جیالے طلبا پر مظالم توڑنے کی ماحول سازی کرلینے کے بعد پولیس نے اچانک شام کے وقت یونیورسٹی کیمپس پر ہلہّ بول دیا۔ یہ درندے لائبریری میں بلکہ بیت الخلاء تک میں گھس گئے اور ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا ۔ ان وحشیوں نے مسجد میں نماز پڑھنے والوں تک کو نہیں چھوڑا اور عبادتگاہ کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے لیکن وہ بھول گئے کہ یہ بلاواسطہ اپنی قبر کھود نے والی حرکت ہے ۔ بی بی سی کی صحافیہ کے ساتھ پولس کی بدسلوکی اور اے این آئی کو دیا گیا بیان ساری دنیا میں مودی جی کا نام روشن کررہا ہے۔ اس دوران جہاں ایک طرف بے قصور طلبا پرظلم و ستم کے دل دہلا دینے والے مناظر کی تشہیر ہو رہی تھی وہیں ان سے برسرِ پیکار پامردی کے ساتھ ڈٹے ہوئے طلبا اور طالبات کو بھی ساری دنیا دیکھ رہی تھی ۔ ایک ویڈیو میں جس طرح طالبات کی مزاحمت نے پولس والوں ذلیل و خوار ہوکر لوٹنے پر مجبور کردیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔ آنے والی نسلیں اس کے ذریعہ جوش اور حوصلہ پائیں گی ۔

پولیس کی اس بربریت نے وہ کام کردیا کہ جس کا امیت شاہ اور نریندر مودی کو خوف تھا ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جامعہ کی یہ آگ دہلی یونیورسٹی یا جے این یو تک پہنچے لیکن جب پولیس والے طلبا کو مجرمین کی مانند لاک اپ میں لے گئے تو دہلی کے عوام کا ضمیر ہوگیا ۔ رات ۹ بجے پولس ہیڈ کوارٹر پر احتجاج کا اعلان جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا ۔ دسمبر کی سرد رات پر ظلم و جبر سے مقابلہ کی آگ غالب آگئی ۔ ایک ایسے احتجاج میں جس کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی ہر کوئی آگیا ۔ کوئی طالب علم کی حیثیت سے آیا تو کوئی طلباکے ماں یا باپ کا درد محسوس کر کے پہنچ گیا۔ طلبا، اساتذہ ، سماجی کارکن ، صحافی اور دردمند لوگ نصف شب میں جوق در جوق پہنچ گئے۔ رات ۹ بجے سے صبح ۴ بجے تک چلنے والا یہ انوکھا احتجاج عظیم کامیابی پر منتج ہوا۔ پولیس نے تمام طلبا کو رہا کردیا۔ یہ صرف انتظامیہ کی نہیں بلکہ اس کے آقاوں کی شکست تھی ۔ امیت شاہ نے دن میں یہ تسلیم کرچکے تھےکہ وہ شہریت کے قانون کی ترمیم میں ترمیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ جو کام آسام کے مظاہرین سے نہیں ہوسکا وہ جامعہ کے جیالے طلبا نے کردکھایا۔

سرکار کے اشارے پر شمال مشرقی ہند میں بڑے بڑے مظاہروں کا بلیک آوٹ کرنے والا گودی میڈیا جامعہ کے احتجاج کی ان دیکھی نہیں کرسکا۔ سارے چینل والے پہلے جامعہ کیمپس اور پھر پولیس ہیڈکوارٹر پر موجود تھے۔ ٹیلی ویژن چینل والے وہاں موجود مظاہرین سے پولیس کے ظالمانہ سلوک کی تفصیلات پوچھ رہے تھے ۔ خوش قسمتی سے وہاں پر کوئی مودی بھکت دانشور موجود نہیں تھا جو اس کو توڑ مروڈ کر اور جھوٹ کا ملمع چڑھا کر سچائی کو خلط ملط کرتا ۔ اپنے مطلب کی بات نکالنے کے لیے ایک معروف چینل کا نامہ نگار طلبا سے بار بار یہ پوچھ رہا تھا کہ آخر اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ پولیس کو تشدد پر مجبور ہونا پڑا؟ اس سوال کے جواب میں وہاں موجود جامعہ کے ایک سابق طالب علم نے مودی سرکار کو بالکل برہنہ کردیا ۔

اس نے کہا یہ حرکت پولیس نے امیت شاہ کے اشارے پر کی ہے ؟ کیونکہ وہ ڈر گئے ہیں ۔ ان کو معلوم ہے کہ تعلیم گاہوں سے نکلنے والے یہ شعلے ان کے اقتدار کو بھسم کردیں گے ۔ اس لیے وہ اس آواز کو کچلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ اس مسلم قوم سے تعلق رکھنے والے ایک جوان کے الفاظ جن کے بارے میں ایوانِ پارلیمان کے اندر شاہ جی بین السطور یہ کہہ چکے تھے کہ وہ ڈر گئی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جامعہ اور اے ایم یو طلبا نے اپنے احتجاج سے شاہ جی کو خوفزدہ کرکے شہریت قانون کی ترمیم پر نظر ثانی کے لیے مجبور کردیا ہے۔ جولوگ بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا ہندوستان کے مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ہے ان کو جامعہ کے طلبا کی اس عظیم کامیابی کو یاد رکھنا چاہیے ۔ ایک سرکاری ناانصافی کے خلاف سب سے توانا آواز اٹھا کر ظالم کا سرنگوں کرنے کا اعزاز ان کے حصے میں آیا ہے۔ اس عظیم کامیابی کے لیے وہ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہندوستان ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply