جب ربِ کائنات نے اپنے محبوبِ کریمؐ کو “الیوم اکملتُ لکم دینکم واتممتُ علیکم نعمتی” کا مژدہء جاں فزا سنایاتو کائنات ایک لمحے کیلئے ٹھٹھک گئی، کہ پروردگارِ عالم تیری یہ کائناتِ ارضی جانے کب سے ہے اور تو ہی جانے کہ کب تک قائم رہے گی۔ ایسی صورت میں رشدو ہدایت کا دروازہ بند ہو جانے کی صورت میں یہ خلقِ خدا آخر کس کا در کھٹکھٹائے گی، ہدایت اور راہنمائی کیلئے کس کی طرف رجوع کرے گی، کہاں سے کوئی اپنے روز مرّہ مسائل کا حل تلاش کرے گا، اپنی الجھنیں کہاں سے سلجھائے گا؟؟ تو یکایک ہاتف سے آواز آئی “لقد کانٙ لکُم فی رسول اللّٰہِ اسوة حسنہ”۔۔۔۔ اور کوئی شک نہیں کہ میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔۔۔
آج انسان بالعموم اور مسلمان بالخصوص انتہائی عجیب و غریب دور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں صرف زوال ہے، معاشرتی زوال، معاش کے شعبے میں زوال، اخلاقی انحطاط، انسانی اقدار کا زوال۔، غرضیکہ پوری انسانیت رو بہ زوال ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں ہر گز کوئی عار نہیں کہ آج کا مسلمان معاشرہ کم و بیش انہی تمام خرابیوں اوررذالتوں میں ملوث ہے جو کبھی زمانہء جاہلیت کا طرہء امتیاز ہوا کرتی تھیں۔ یوں تو ذاتِ نبئ محترمؐ کی نبوت کی اور بہت سی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت جامعیت بھی ہے۔ آپ زندگی کے جس بھی شعبے سے متعلق رہنمائی لینا چاہتے ہوں آپ سیرت کا مطالعہ کریں آپ کو ہر معاملے میں مکمل رہنمائی میسّر آئے گی۔ میں یہاں مقابلے کے عنوان کے پیشِ نظر دورِ حاضر کے میری نظر میں موجود چند ایک مسائل اور ان کے قرآن اور سنت کی رو سےممکنہ حل بیان کرنے کی کوشش کروں گی۔
میری نظر میں فی زمانہ سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت اور رواداری کا فقدان ہے اور یہ رویّہ ہر دو مذہبی اور لبرل طبقات میں دن بہ دن جڑ پکڑ رہا ہے۔ ایک طرف دین داری کا دعوٰی کرنے والا طبقہ رواداری، حسنِ سلوک اور خوش خلقی کے واضح اسلامی احکام کی صریح خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف خود کو روشن خیال کہلانے کا دعویدار طبقہ ہر ایک اسلامی احکام کے منافی عمل کو ذاتی اور شخصی آزادی کے نام پر معاشرے میں فروغ دینے میں مصروف ہے۔ جبکہ نبئ رحمتؐ کا پیغام اس کافرہ بڑھیا کی تیمارداری اور بعد ازاں اس کے قبول اسلام۔میں واضح نظر آتا ہے جو آپ ؐ پر ہر روز کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ یا وہ بڑھیا جس کا سامان آپؐ نے ازراہِ ہمدردی اٹھا کے اسے منزل تک پہنچایا اور وہ بڑی دردمندی سے اس نیک سیرت نوجوان کو مکے میں وارد ہوئے ایک “جادوگر” (نعوذباللّٰہ) کے شر سے بچنے کی تلقین کرتی ہے اور جب یہ نوجوان مسکراتے ہوئے انکشاف کرتا ہے کہ وہ “جادوگر” وہ خود ہے تو وہ خود اس کے اخلاقِ حسنہ کے سحر میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ کیا میرے نبیؐ کی تعلیمات میں اتنا زور کسی بھی اور معاملے پر دیا گیا ہے جتنا انسانوں کے باہمی معاملات جسے عرفِ عام میں حقوق العباد کہتے ہیں، پر دیا گیا ہے۔۔آپؐ کی رواداری کی اس سے بڑھ کر کیا مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ آپؐ نے نجران سے آئے عیسائی وفد کو مسجدِ نبویؐ میں ان کی کے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی بخوشی اجازت دی جبکہ وہ لوگ آپؐ کی اسلام کی دعوت کو ٹھکرا چکے تھے۔ احادیثِ مبارکہ میں ایک حکمران کے فرائض میں جتنا زیادہ زور ایک مسلم ریاست میں موجود غیر مسلم شہریوں کے حقوق پردیا گیا ہے۔ شاید ہی اتنا کسی اور معاملے پر دیا گیا ہو گا۔ اور ہمارے روشن خیال طبقے کیلئے ذاتِ باری تعالٰی کا واضح حکم ہے کہ اگر کوئی بطورِ مسلمان اپنی شناخت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس کے پاس “ان الدّین عند اللّٰہِ الاسلام” کے سوا دوسرا کوئی انتخاب نہیں۔
مالی بے ضابطگیاں، بد دیانتی، رشوت ستانی یا عرفِ عام میں کرپشن اس دور کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ میرے نبیؐ نے جب “الرّاشی والمرتشی کلاھما فی النّار” فرما دیا تو نبئ رحمتؐ کی زبانِ حق ترجمان سے جہنم کی وعید سن کر بھی جو شخص اس عمل میں ملوّث ہو کیا وہ مسلمان کہلائے جانے کا حقدار ہے؟ ؟ میرے نبیؐ کے فرمان کے مطابق ان بد ترین چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں جو کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں ، خاص طور پر اختیارات اور طاقت کے ناجائز استعمال سے قومی دولت لوٹنے میں ملوث ہوں۔ دو چار ہاتھوں سے معذور سابقہ حکمران یا موجودہ حکومتی کارندے عبرت کا نشان بنیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے سے اس خباثت کا خاتمہ نہ ہو۔
آج زمانہ آزادئ نسواں اور حقوقِ نسواں کے حصول کیلئے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے اسلام کے ظہور کے 1400 سال بعد بھی ہمارے یہاں یہ بحث ہوتی ہے کہ عورت کو اسلام نے معاشی آزادی کا حق دیا ہے یا نہیں، جبکہ آج سے چودہ سو سال پہلے نبئ رحمتؐ کی “کابینہ” میں حضرت شفاء بنتِ عبداللّٰہؓ “فوڈ اتھارٹی” کی سربراہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ام المومنین حضرت زینب بنتِ خزیمہؓ گھر بیٹھ کر چمڑا رنگنے کا کاروبار کرتی تھیں اور اپنی کمائی میں سے خوب خیرات کیا کرتی تھیں۔ اس ضمن میں کئی اور صحابیات کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ اسلام نے عورت کو مکمل معاشی آزادی دے رکھی ہے۔ شوہر یا اس کے متعلقین کا اس کی کمائی پر کوئی حق نہیں وہ اپنی مرضی اور خوشی سے ان پر کچھ خرچ کرے تو اسے اس پر دوہرے ثواب کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ لیکن اس پر اس حوالے سے کوئی جبر نہیں کر سکتا۔ عورت کو حق مہر کی مکمل ملکیت کا اختیارحاصل ہے۔ اسلام کی رو سے عورت نہ صرف مرد سے خلع لے سکتی ہے بلکہ نکاح کے وقت طے کر لیا جائے تو اسے طلاق کا حق بھی حاصل ہے۔
عورت کو اسلام نے باپ کی وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا ہے اور شوہر اور بیٹے کی وراثت کا بھی۔ عورت کا تعلیم حاصل کرنا مردوں کے ساتھ فرض قرار دیا گیا ہے۔ مکمل معاشی آزادی دینے کے باوجود مرد کو عورت کا کفیل بنایا گیا ہے۔ عورت اگر گھر سنبھالنا چاہتی ہے تو شوہر اسے زبردستی کمائی کرنے کا نہیں کہہ سکتا۔ عورت کا نان نفقہ، بچوں کے اخراجات، اس کی ذاتی ضروریات اور یہاں تک کہ اگر مرد استعداد رکھتا ہو تو گھر کے کاموں میں بیوی کی معاونت کیلئے ملازمہ تک مقرر کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ کوئی مجھے بتائے کہ اس سے زیادہ وہ کون سے “حقوق” ہیں جن کی طلب ہمارے آج کے معاشرے کی عورت کو ہے۔ یہ ضرور ہے کہ بر صغیر کے معاشرے کا عمومی مزاج اسلام کے احکامات کے منافی ہے لیکن میرے نبیؐ کے دین میں عورت کو آج کے دور میں درپیش سبھی مسائل کا حل موجود ہے۔ ہاں اتنے اور اس سے بھی کہیں زیادہ حقوق دینے کے بعد عورت پر کچھ فرائض بھی عائد کئے گئے ہیں۔ جن میں سرِ فہرست اپنی عفت اور پاکدامنی کی حفاظت ہے جس کیلئے اسلام نے عورت کیلئے ایک باوقار ڈریس کوڈ مقرر فرمایا ہے۔ عورت پر نسلِ نو کی تربیت کی بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہےماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ سمجھا جاتا ہے اور یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کیلئے عورت اپنے پروفیشنل کیرئیر کو پسِ پشت بھی ڈال دے تو ایک ماں اور عورت ہونے کے ناطے میرے نزدیک یہ کوئی گھاٹے کا سودا بھی نہیں ہے۔
بے راہروی اور بے حیائی میرے نزدیک آج کے دورکے بڑے مسائل میں سے ایک ہے اور جس کا ایک حل تو قرآنِ پاک کی واضح آیة کریمہ ہے جس میں عورت کو اپنا جسم ڈھانپنے اورمرد کو “غص البصر” کا حکم ایک ساتھ دیا گیا ہے۔ یہ دو پیمانے اگر ہمارا معاشرہ اپنا لیتا ہے تو یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ پھر اس طرح کے جرائم کے تدارک کیلئے اسلامی تعزیرات، جو رجم، سنگساری اور دیگر کئ صورتوں میں موجود ہیں جن سے عملی طور پر معاشرے سے ان جرائم کا تدارک ممکن ہے۔ اور اس میں بھی واضح حکم ہے کہ جب ایک عورت نے خود آپؐ کے سامنے اپنی بدکاری کا اعتراف کیا تو آپؐ نے اسے حاملہ ہونے کی وجہ سے وضع حمل کے بعد اڑھائی سال اس بچے کو دودھ پلانے کے بعد اس پر حد نافذ فرمائی کہ اس سارے معاملے میں اس بچے کا کوئی قصور نہیں۔ یہ تھا میرے نبی کا انصاف اور رواداری کا معیار۔
لکھنے پر آئیں تو یہ موضوع شاید پوری کتاب کا متقاضی ہے۔ مذکورہ بالا چند ایک مثالوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دورِ حاضر کے ہر مسئلے کا حل قرآنِ کریم اور سنن و احادیث میں آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھااور یہ ماخذ انشاءاللّٰہ قیامت تک کے انسانوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے بہت کافی ہیں۔ ۔میرے عظیم پیمبر کے دورِ جدید کا پیغمبر ہونے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللّٰہ پاک دورِ حاضر کے مسلمانوں کو ایمان کی وہ حلاوت اور شیرینی اور دین کا وہ فہم و ادراک عطا فرمائے کہ وہ اپنے مسائل کا حل قرآن اور سنت کے مطابق حل کرنے کی طرف راغب ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں