امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیشِ نظر آپریشن ضرب عضب یا رد الفساد ہو، کراچی میں بھتا مافیا، ٹارگٹ کلنگ کے خلاف رینجرز کا برائے نام کامیاب آپریشن ہو، منی لانڈرنگ یا وائٹ کالر کرائمز،ملکی نظام ہر طور پر ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت ہو یا قومی اور لسانی عصبیت، ہر طرف نئے واقعات جنم لے رہی ہیں اور لوگوں کا سٹیٹ اور حکومت پر سے اعتماد اُٹھ رہا ہے۔
سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف عمل ہیں اور نان ایشوز کی ’’سیاہ ست‘‘ میں ایک دوسرے پر باری لینے کے لیے ایک دوسرے پر چڑھائی کر رہے ہیں۔ ایسے میں کاروبار، صنعت و حرفت کیا خاک ترقی کرلے گی؟ ہاں، مگر البتہ یہ بدمعاش، ’’سیاہ ست کار‘‘ اور طاقتوراشرافیہ دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل ہڑپ رہی ہے اور عوام کے جان و مال سے کھیلنے سے مزے لے رہی ہے۔
دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے اور گمراہ لوگ بھی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ایک طرح سے دنیا میں نیکی اور بدی کی جنگ برپا ہے۔اس جنگ میں چانکیا اور میکیاولی وغیرہ فلسفیوں کے متوالوں نے منافقت، چاپلوسی، مکر و فریب، دھوکے بازی، فراڈ، سازش اور شیطانی ذہنیت نے دنیا کے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔ برے لوگ چار سو پھیلے ہوئے ہیں۔ عقل و فکر اور بصیرت کا فقدان ہے۔ غور و فکر کی جگہ ذاتی منفعت، جمود اور جھوٹی انا نے لی ہوئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں با عمل اور باکردار افراد کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔ چور، ڈکیت اور راہزنوں کا راج ہے۔ کرپشن نے سارا سسٹم بلاک کرکے رکھ دیا ہے۔ شخصیات کو پوجا جاتا ہے۔ ادارے اپنے دائرہ اختیار سے ہٹ کر کام کرتے ہیں۔ مذکورہ اشخاص اگرچہ وقتی طور پر کامیاب ہیں، لیکن ابدی ناکامی ان جیسے لوگوں کا مقدر ہے۔
ایسے ایسے بیانات آپ کو ہر روز اخباروں کی شہ سرخیوں میں نظر آئیں گے، جن کا حقیقتِ حال سے کوئی تعلق اور واسطہ تک نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ’’ملکی معیشت روز افزوں ترقی کی جانب رواں دواں ہے‘‘، ’’عوام میں بیداری کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں‘‘، ’’تعلیم اور صحت میں مثبت تبدیلی انقلاب کی طرف اشارہ کر رہی ہے‘‘، ’’انڈے اور مرغے پالنے سے ملک میں انقلابی تبدیلی آسکتی ہے‘‘، ’’یوٹرن ہی عظیم لیڈروں کا شیوہ ہے‘‘
’’زرمبادلہ کے ذخائر میں تبدیلی آئی ہے اور افراطِ زر پر قابو پالیا جائے گا‘‘، ’’ڈالر کی شرح میں کمی ہوگی‘‘، ’’ بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کردی گئی‘‘، ’’ مختلف قسم ٹیکسز سے چھٹکارا دلایا جائے گا‘‘، ’’صحت، انصاف اور نئی تعلیمی پالیسی جلد از جلد عوام کے سامنے لائیں گے‘‘،’’ملک خوشحالی سے دس قدم کی دوری پر ہے‘‘، علی ہذا القیاس۔ ایسے بیانات ہمارے لیڈروں کی نوک زبان ہیں۔ ایسے اشارے ہر روز اخباروں کی شہ سرخیوں میں چھپتے دکھائی دیتے ہیں۔ خدارا، عوام کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان کو ان فضول وعدوں پر مزید نہ ٹرخایا جائے۔ کہیں پر بھی عوام کی آواز نہیں سنی جا رہی۔ عدالت، ہسپتال اور دیگر سرکاری ادارے لوگوں کے معاملات کو لٹکائے رکھتے ہیں، یہ عوام کے استحصال کے ذمہ دار ہیں۔ بروقت انصاف نہ ملنا بھی ناانصافی ہے اور بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے مسیحا اور یہ سسٹم مریض کو موت کے منھ میں دکھیل دیتے ہیں۔ ایسے لاکھوں ہزاروں کیس ہیں، جن میں مؤکل کی شنوائی توکیا، اس کی آواز کو بھی دبا دیا جاتا ہے۔ کیسا ملک ہے یہ، ڈاکٹر مسیحا ہے اور نہ انصاف جج کا اصول قرار پایا، لوگوں کو ٹر خانے کا ایک پیچیدہ نظام گھڑا گیا ہے۔ جہاں پر سب کچھ دروغ بیانی اور اگزاجیریشن سے کسی مسئلے کو مزید پیچیدہ بنایا یا باور کرایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہاں سے انقلاب کے لیے راہیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ معاشرتی اور اخلاقی نظام پست ہوچکا ہے۔ شرفِ انسانیت اور انسانی وقار ناپید ہے۔ فکری اور نظریاتی الجھاؤ نے رہی سہی کسرپوری کر دی ہے۔ مادہ پرستی اور مادہ پسندی نے انسانیت کا مقام نیچے گرا دیا ہے۔ مذہب اور لادنیت میں تفاوت کو جائز مانا جا چکا ہے۔ انسانیت کے بجائے حیوانی مفاد پرستی نے جگہ لے لی ہے۔ مقصد ان باتوں کایہ ہے کہ چار سو شیطا نیت کا راج اوردور دورہ ہے۔اس حال میں پوری دنیا (بشمول پاکستان) بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
اب تھوڑی سی امید وں کی کھوج میں نکل پڑتے ہیں۔ کچھ فلسفی نما قسم کے انسان سوچتے ہیں کہ امن و بقا اور انسانیت کا فلسفہ تاریک دور سے نکل روشنی کی طرف گامزن ہے۔ کچھ ایسے انسان دوست لوگ بھی موجود ہیں جو ترقی اور انسانیت کا رونا رو کر سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں۔ غور و فکر پر عمل کرتے ہوئے اس دنیا کو جنت بنانا چاہتے ہیں۔نظریات سے لیس افراد دنیا کو جنگوں کی بھٹی میں جھونکنے والوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ غربت اور بے بس انسانوں اور اقوام کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونا چاہتے ہیں۔ وسائل پر اختیار چند لوگوں کا حق نہیں سوچتے بلکہ اس کے بجائے فرضی طور کھنچی ہوئی لکیروں کو انسانیت کی توہین سمجھتے ہیں۔ امن اور فراخی کو اپنا نصب العین مانتے ہوئے اس کو عملی طور پر لاگو کرنے کی تدابیر کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کو طبقاتی تفریق یعنی کلاس سسٹم سے چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں۔ جھوٹے تعصبات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ غلامی کو انسانیت کاطوق سمجھتے ہیں۔
کچھ لوگ صحت، تعلیم، چھت اورروزگار کو بنیادی انسانی حقوق ماننے پر مصر ہیں۔ ترقی پسندوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کرنا صرف اشرافیہ کا حق نہیں مانتے ہیں بلکہ مزدور اور کسانوں کی نمائندگی ضروری خیال کرتے ہیں۔ موروثی لیڈر شپ سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ اداروں کو اپنے دائرہ کار میں کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مساوات اور برابری پر یقینِ محکم رکھتے ہیں۔ علم کی قدر دانی چاہتے ہیں۔ کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو دل وجان سے چاہتے ہیں اور انہیں انعام و اکرام سے نوازنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی کامیاب لوگوں کی ستائش ہونی چاہیے۔ عدل و انصاف سب لوگوں کا حق ہے۔ امتیاز کے بغیر انصاف کی برابر فراہمی ہونی چاہیے۔ کرپشن کی ہر شکل کو برا سمجھنا چاہیے۔ ذات برادری پر یقین نہیں رکھنا چاہیے۔ پرہیزگاری کو اپنا شیوہ اور کریڈٹ گرداننا چاہیے۔
قارئین، جب سے دنیا وجود میں آئی ہے، اور جب تک موجود رہے گی، خیر و شر کی قوتیں ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہیں گی۔ دراصل بات یہ ہے کہ جدید دنیا میں ریاست کی داغ بیل اس مقصد کے لیے ڈالی گئی کہ اجتماعی انسانی مسائل و مصائبِ معاشرہ کا حل نکالا جا سکے۔ مذاہب اس لیے آئے ہیں کہ پسماندہ اور غلامانہ ذہنیت کو ختم کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے خوش نما نعروں اور نظریات سے عوام کو غلام بنانے کے طریقے سوچے گئے۔ ان کو جدید مشینی ریاست کے اندر ایک حیوان سے بد تر زندگی گزارنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ جدید ریاست کے کچھ فائدے بھی ملے ہیں جن کا موزانہ فی الوقت ممکن ہے اور نہ ماضی پرستی ہی کرنی چاہیے۔
اس لمبی چوڑی بحث کے بعد خیال آتا ہے کہ آخر ا ن تمام مسائل، مصائب و آلام کا حل کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرنا ہوگا اورحال میں رہ کر مستقبل کے لیے سوچنا ہوگا ۔ہمیں من حیث القوم اپنے اوپر اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔ دوسرے ممالک کو دیکھنا اس ضمن میں بے کار ہے۔ ہمیں اپنے معروض کے مسائل کو خود سے حل کرنے کاقرینہ سیکھنا ہوگا۔ سیاست دانوں کو سیاسی حریف، بڑے اور چھوٹے صوبے کی تمیز سے بالاتر ہوکر برابری کی بنیاد پر اس مملکتِ خداداد کے لیے معاشی پالیسی پر اِکا کرنا ہوگا۔ میری رائے ہے کہ اس ملک کو مرکزیت سے نکال کر ایک ’’کنفیڈریشن‘‘ بنا دیا جائے۔ دفاع اور خارجہ وغیرہ کو چھوڑ کر تمام صوبائی یونٹوں کو اس کے وسائل پر اختیار دیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کے اصولوں اور ’’مبنی بر عدل‘‘ انصاف کا نظام قائم کیا جائے۔ آئینی و قانونی سقومات کو دور کیا جائے۔ غیر متعلقہ تمام آوٹ ڈیٹیڈ قوانین کو ختم کیا جائے۔ تمام صوبائی زبانوں کو تعلیمی اورسرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ تاریخ کو از سر نو مرتب کیا جائے اور صوبائی تعصبات کو نکال باہر کیا جائے۔ دوسرے ممالک میں دخل مداخلت اور اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کو ترک کیا جائے۔نیشنل انٹرسٹ کے اندر رہتے ہوئے ملکوں سے تعلقات قائم کیے جائیں۔ قرضوں اورعالمی سامراجی قوتوں کی باج گزاری سے توبہ کیا جائے۔ مضبوط بنیادوں پر تعلیمی اور ہیلتھ پالیسی بنائی جائے۔ قانون ساز اداروں میں مزدور اور کسانوں کو نمائندگی دیا جانا اہم امور میں سے ہے۔ ملکیت اور پیسے کے قانون میں ایک خاص حد تک اجازت دیا جائے۔ موروثی طور پر آباد عوام کو علاقائی بنیادوں پر کم ازکم اراضیات دیے جانے کا بندوبست کیا جائے۔ باقی ماندہ تمام زمین کوسرکار اپنے قبضے میں لینے کے لیے قانون بنائے۔
قارئین کرام! شائد کہ اس سے اس ملکِ عظیم کی تقدیر بدل جائے اور ملک ترقی کے اہداف سر کرلینے کے قابل ہوجائے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں