کینسر (92) ۔ کینسر کا نقشہ/وہاراامباکر

انسانی جينوم کا پراجیکٹ 2003 میں مکمل ہوا۔ اس وقت تک سائنسدانوں کو نارمل اور ایبنارمل خلیے کے درمیان بڑے فرق معلوم تھے۔ راس مائس، آر بی، نیو وغیرہ جیسے جین میں ہونے والی میوٹیشن جو کینسر کی خاص نشانی تھے۔ لیکن کینسر کی وضاحت نامکمل تھی۔ اصل کینسر میں ایسی کل کتنی میوٹیشن ہوتی ہیں؟ انفرادی اونکوجین اور ٹیومر سپریسر جین کو آئسولیٹ کیا جا چکا تھا لیکن ایک اصل انسانی کینسر میں ایسی جین کا مکمل سیٹ کیا تھا؟
انسانی جینوم پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ پراجیکٹ شروع ہوا (اگرچہ اس کی تشہیر زیادہ نہیں)۔ یہ کینسر جینوم اٹلس تھا۔ اس میں دنیا بھر سے محققین کی درجنوں ٹیمیں شامل ہیں۔ انسانی جینوم پراجیکٹ نے نارمل انسانی جینیات کا نقشہ دیا تھا۔ کینسر جینوم پراجیکٹ کا مقصد یہ ہے کہ کینسر کا جینیاتی نقشہ بنایا جائے۔
یہ پراجیکٹ 2006 میں شروع ہوا تھا۔ کینسر کی 33 اقسام کی مالیکیولر خاصیتوں کے نقشے تیار ہو رہے ہیں۔ بہت کچھ اب معلوم کیا جا چکا ہے اور اس تحقیق کے نتائج کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ اگلے پچیس سال میں بیس ہزار پرائمری کینسر سیمپل سے لئے جانے اڑھائی پیٹابائٹ پر محیط جینیاتی، ایپی جینیاتی، ٹرانسکرپٹومک اور پروٹیومک ڈیٹا کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا اور اس کے نتائج کو شائع کیا جاتا رہے گا تا کہ کینسر کی تشخیص، علاج اور بچاوٗ کے طریقوں کو بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔ اس میں پتے، جگر، اووری، پھیپھڑے، دماغ اور کئی دوسرے کینسر شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کی اس جینیاتی منظر کو دکھایا کیسے جا سکتا ہے۔ اس پر 2009 میں ووگلسٹائن نے جواب دیا۔ ان کا نقشہ لینڈسکیپ آرٹسٹ کی تکنیک کو مستعار لیتا ہے۔
ووگلسٹائن نے تمام انسانی جینوم کو اس صورت میں کھول دیا جیسا صفحے پر ایک دھاگہ زگ زیگ کی صورت میں بنایا گیا ہو۔ پہلی جین سب سے اوپر بائیں کونے میں۔ دوسری اس سے آگے اور اس طرح چلتے چلتے تئیسویں کروموزوم کی آخری جین صفحے کے سب سے نیچے اور دائیں کونے میں۔ یہ نارمل انسانی جینوم ہے جس کو مکمل طور پر کھول کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ وہ “بیک گراونڈ” ہے جس میں سے کینسر نمودار ہوتا ہے۔
اس بیک گراونڈ پر ووگلسٹائن میوٹیشن رکھنے لگتے ہیں۔ جب کسی کینسر کے سیمپل میں ایک جین کی میوٹیشن کا سامنا ہوتا ہے تو اس صفحے پر اس جین پر نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب کسی ایک جین میں زیادہ بار میوٹیشن ملتی ہے تو یہ نکتہ ٹیلے، پہاڑیاں اور پھر پہاڑ بن جاتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر میں سب سے عام میوٹیشن ہونے والی جین بلند چوٹیوں کی صورت میں نظر آتی ہے جبکہ شاذ و نادر ہی کبھی میوٹیٹ ہونے والی فلیٹ نقطوں کی صورت میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر جینوم پر پڑنے والی پہلی نظر مایوسی کی ہے۔ کروموزوم میں میوٹیشن بھری پڑی ہیں۔ چھاتی اور بڑی آنت کے کینسر کے ایک سیمپل میں پچاس سے اسی میوٹیشن ہیں۔ پتے کے کینسر میں پچاس سے ساٹھ۔ یہاں تک کہ دماغ کے کینسر میں (جو کم عمری میں ہوتا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ میوٹیشن کم ہوں گی) بھی چالیس سے پچاس میوٹیشن ہیں۔
زیادہ تر کینسر کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ چند اہم استثنا ہیں۔ جن میں سے ایک پرانا پاپی، اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا ہے۔ اس میں صرف پانچ سے دس جینیاتی تبدیلیاں ہیں۔ اور شاید جینیاتی تبدیلیاں کا کم ہونا ہی یہ وجہ ہے کہ اس کو سائٹوٹوکسک کیموتھراپی کی مدد سے آسانی سے گرایا جا سکتا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جینیاتی لحاظ سے سادہ کینسر ( جن میں میوٹیشن کم ہے) ادویات کا نشانہ آسانی سے بنتے ہیں اور زیادہ قابلِ علاج ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس بات کی وضاحت دے دیتا ہے کہ ہائی ڈوز کیموتھراپی لیوکیمیا میں کیونکر کامیاب ہے جبکہ بہت سے دوسرے کینسرز میں نہیں۔ یہ اس کی گہری بائیولوجیکل وضاحت ہے۔ “آفاقی علاج” کی تلاش اس لئے ناکام رہی تھی۔
ووگلسٹائن نے معلوم کیا کہ لیوکیمیا کے برعکس زیادہ تر عام کینسر جینیاتی گڑپڑ کا ڈھیر ہیں۔ میوٹیشن کے اوپر میوٹیشن کے اوپر میوٹیشن۔ تینتالیس سالہ مریضہ کا ایک سیمپل دکھاتا تھا کہ ان کی جین میں 127 میوٹیشن ہیں۔ یعنی تقریباً ہر دو سو میں سے ایک جین میں میوٹیشن تھی! اور ایک ہی قسم کے کینسر میں بھی میوٹیشن کی اقسام بے تحاشا تھیں۔ چھاتی کے کینسر کے دو سیمپل کا موازنہ ان میں یہ فرق نمایاں کر دیتا تھا۔ ووگلسٹائن نے لکھا، “کینسر جینوم سیکوئنس ہمارے سو سالہ کلینکل مشاہدات کی تصدیق کرتا ہے۔ ہر مریض کا کینسر منفرد ہے کیونکہ اس کا جینوم منفرد ہے۔ فزیولوجیکل تنوع کا مطلب جینیاتی تنوع ہے”۔ نارمل خلیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ایبنارمل نہیں”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply