• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نوگزے پیر اور ان کی قبریں/انگریزی سے ترجمہ-لیاقت علی ایڈووکیٹ

نوگزے پیر اور ان کی قبریں/انگریزی سے ترجمہ-لیاقت علی ایڈووکیٹ

نوگزے پیر اور ان کی قبریں
پاکستان اور بھارت کے متعدد شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں کئی کئی فٹ لمبی قبر یں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ان قبروں کے متولیوں اورگدی نشینوں کا دعوی اور عام لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان میں دفن حضرات غیر معمولی طور پر طویل القامت تھے اور ان کا تعلق اس دور سے تھا جب دھرتی پر طویل القامت افراد بکثرت پائے جاتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ اکثر صورتوں میں ان کے قد نو گز یا اس سے بھی زیادہ لمبے ہوتے تھے ۔ طویل قامت ہونے کی نسبت سے ان کو نوگزے پیر اور ان کی قبروں کو نو گزوں کی خانقاہیں کہا جاتا ہے ۔عوام دور نزدیک سے نوگزوں کی ان درگاہوں پر حاضری دیتے اور مرادیں مانگتے ہیں۔ان نوگزے پیروں کے بارے میں روایت ہے کہ یہ بزرگ اسلام کے ابتدائی دورمیں بغرض تبلیغ برصغیر تشریف لائے تھے اور انہی کی تعلیمات کا اعجاز ہے کہ بر صغیر کےغیرمسلموں کی بڑی تعداد مسلمان ہوئی تھی۔ان مزاروں کو ماننے والوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنھوں نے دنیا کے ایک سے زائد ممالک دیکھ رکھے ہیںاور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں اور کہیں بھی اتنے طویل قامت لوگوں کی موجودگی کا سراغ نہیں ملتا اور نہ ہی اتنی طویل قبریں موجود ہیںلیکن اسے ان کی سادہ دلی کہا جائے یا بے وقوفی کہ وہ نوگزوں کی ان خانقاہوں اور ان میں دفن حضرات کو مقدس ہستیاں سمجھتے ہوئے ان کی ’پوجا‘ کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔
نو گز وں کی قبروں کے بارے میں ابھی شکوک و شبہات دور نہیں ہوئے تھے کہ غریب وال ( جہاں سیمنٹ کی مشہور فیکٹری ہے )کے قریب واقع ایک گاؤں میں اٹھارہ میٹر لمبی قبر کا سراغ ملا۔ اس قبر کے بارے میں اس کے متولیوں کا دعوی ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ اسلام کے بیٹے حضرت ہیم کی ہے جن کا قد میں اٹھارہ میٹرتھا۔ قبروں کی لمبائی کا یہ سلسلہ اٹھارہ میٹر لمبی حضرت ہیم کی قبر پر نہیں رکا بلکہ اس طویل قبر کے تھوڑی دور ایک اور قبر موجود ہے جو پورے سو میٹر لمبی ہے اور اس کے ماننے والوں کا دعوی ہے کہ یہ حضرت نوح کے ایک اور بیٹے حضرت کمبیت کی ہے جو سو میٹر لمبے تھے۔کتب میں حضرت نوح کے بیٹے ہیم کا ذکر توملتا ہے لیکن کمبیت کون تھا اس بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا ۔ یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک بھائی کا قد تو اٹھارہ میٹر طویل تھا جب کہ دوسرا بھائی پورے سو میٹر کا تھا۔ دونوں بھائیوں کے قد میں اتنا فرق کیوں؟یہ سوال سرا سر مادی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور روحانی دنیا میں ایسے سوال نا مناسب سمجھے جاتے ہیں ۔
متشکک انسانی ارتقا کے کسی بھی دور میں غیر معمولی قدو قامت کے حامل افراد کی موجودگی کے بارے میں سوال تو اٹھاتے تھے لیکن ان قبروں میں دفن افراد کے بارے میں کوئی منطقی اور تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے تھے۔اس حوالے سے ایک وضاحت یہ دی جاتی تھی کہ لمبی قبریں در اصل متولیوں کے لالچ کی نشانی تھی۔ قبروں پر آنے والوں زائرین سے قبر پر چڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کپڑا ہتھیانے کے لیے انھیں لمبا کرتے تھے۔ آج کپڑے کی اتنی زیادہ اہمیت کچھ عجیب سی لگتی ہے کیونکہ ہم ٹیکسٹائل ملز کے عہد میں زندہ ہیں جہاں چند گھنٹو ں میں ہزاروں گز کپڑ ا تیار ہوجاتا ہے ۔ لیکن آج سے چند سو سال پیچھے جائیں جب کپڑا کھڈی پر بنتا اور جولاہا ہر ششماہی کسان کو ایک قمیض اور تہبندکے لئے کپڑ ا فراہم کرتا تھا توکپڑے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس دور میں قبروں پر کپڑا چڑھانا بہت مہنگا کام تھا ۔ کسان خود ننگے رہ کر قبروں پر چادریں چڑھاتے ہوں گے۔ جس کسی نے نوگزے کی قبر پہلے پہل بنائی ہوگی اس کا کنبہ خاصہ بڑا ہوگا اور اسے اپنے کنبے کے افراد کے تن ڈھانپنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کپڑے کی ضرورت ہوگی چنانچہ اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس نے قبر کے سائز کو لمبا کر لیا تاکہ زیادہ سے زیادہ کپڑا لوگ قبر پر چڑھائیں ۔ قبروں کی لمبائی کے حوالے سے اس جواز کو مذاق سمجھ کر رد کیا جاسکتا ہے۔
قبروں کی اس لمبائی کا ایک منطقی جواز بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہمارے اجداد کسی صاحب علم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے تو وہ خود کو بہت خوش قسمت خیال کرتے تھے اور ایسے شخص کی توقیر و تعظیم میں کوئی دقیقہ فر و گذاشت نہ کرتے تھے اور پھر یہی’عظیم ‘شخص جب فوت ہوتا تو اسے عام انسانوں کی طرح عام قبر میں دفنانا انھیں عجیب لگتا۔ اتنا عظیم انسان اور معمولی انسانوں کی طرح دفن ہو، ہر گز نہیں،کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔مرحوم نے اتنی پاک زندگی گذاری تھی لہذا مر نے کے بعد اس کو خاص پروٹو کول ملنا چاہیے اور یہ پروٹوکول یہی ہوسکتا ہے کہ اس کی قبر دوسرے عام انسانوں سے مختلف ہو چنانچہ اس طرح نوگز ے کی متھ کی ابتدا ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی۔
لیکن اس بارے میں ایک اور وضاحت بھی موجود ہے جوزیادہ منطقی ہے ۔یہ وضاحت رائل ایشیاٹک سوسائٹی تحقیقی رسالے کے صفحات میں ایک مضمون کی صورت میں موجود ہے ۔ یہ مضمون ایک انگریز افسر نے لکھا تھا جو بر طانوی عہد کے ابتدئی دور میں پنجاب میں تعینات تھا ۔یہ انگریز افسر جو شائد شیخوپورہ میں تعنیات تھا اپنی حدود میں نوگزے کی قبردیکھ کر بہت حیران ہوا ۔اس نے حکم دیا کہ قبر کی کھدائی کی جائے اور اپنا سانس تھوڑی دیر کے لئے روک لیں کیونکہ جب قبر کھودی گئی تواس میں سے کسی شخص کی لاش کی بجائے گوتم بدھ کا مجسمہ بر آمد ہوا تھا ۔ قرون وسطی کے چینی سیاحوں بالخصوص بارہویں صدی کے مورخ پنڈت کلہانہ اور گیارہویں صدی کے البیرونی کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ چھٹی صدی کے اوائل میں جب ہن ان علاقوں جو موجودہ پاکستان میں شامل ہیں، پر حملہ آور ہوئے توبدھ بھکشووں نے ان کے ہاتھوں گوتم بدھ کے مجسموں کو توڑ پھوڑ اور توہین سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں زمین میں دفن کرنا شروع کر دیا تھا ۔ چونکہ بدھ مت کے نزدیک سورج مقدس ہے اس لئے بدھ کے مجسمے کا منہ ابھرتے سورج کی طرف کرکے زمین میں دفن کیا گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدفون بدھ مجسموں پر جو مقابر تعمیر ہوئے وہ بھی شمالا جنوبا ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح مسلمانوں کے مقابر تعمیر ہوتے ہیں۔ گوتم بدھ کے مجسمے عموما عام طور پر انسانوں کے قد کاٹھ سے بڑے ہوتے ہیں ۔ مجسموں کی ان قبروں کو ہمارے اجداد ا نے پنا لیا اور دعوی کر دیا کہ ان قبروں میں’ مسلمان صوفیا اور اولیا ء دفن ’ہیں جو طویل قد و قامت کے حامل تھے۔ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ گوتم بدھ کے مجسموں کی یہ قبریں ظہور اسلام سے ایک صدی قبل بنائی گئی تھیں۔
غریب وال کے نواح اٹھارہ فٹ لمبی قبر دراصل ایک تباہ حال مندر کے ملبے پربنائی گئی ہے۔نوے کی دہائی تک اس قبر پر کم لوگ آتے تھے ۔ گجرات سے تعلق رکھنے والا ریٹائرڈ پولیس کا ڈی۔ایس ۔پی ان دنوں اس قبر کا کرتا دھرتا ہوا کرتا تھا ۔ اس شخص نے ایک عورت کو ٹرینڈ کیا تھا جو باقاعدگی کے ساتھ ہیم کے ساتھ ’رابطے ‘ میں تھی اور دونوں کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہوتا تھا۔ان دنوں ایسے لوگ موجود تھے جو اس قبر اور اس میں دفن ’شخص ‘کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا کرتے تھے لیکن اب صورت حال مختلف ہے گرد و نواح کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قبر ہمیشہ سے موجود تھی اور اتنی ہی لمبی تھی ۔جہاں تک کمبیت کی قبر کا تعلق ہے یہ تو صریحا فراڈ اور مذاق ہے۔اس قبر میں تو گوتم بدھ کا مجسمہ بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سلمان رشید کے انگریزی مضمون مطبوعہ روزنامہ’ ڈیلی ٹائمز‘ لاہور کا ترجمہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply