وزیر اعلیٰ پنجاب
محترمہ مریم نواز
وزیراعلی ہاؤس لاہور پنجاب
محترمہ وزیراعلی صاحبہ
اسلام و علیکم
آپکو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی منتحب ہونا بہت مبارک ہو۔ میں آپکی توجہ ایک ایسے مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں ۔ جسکا حل تو قومی اسمبلی میں ایک بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ہونا ہے ۔۔لیکن آپ کیونکہ اپنی سیاسی جماعت میں بھی اثر رسوخ رکھتی ہیں ۔ یہ مسئلہ تو پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا ہے لیکن اس سے فائدہ ہر اس بڑی جماعت کا ہوسکتاہے ۔ جو اس کو حل کروانے میں پہل کرے گی۔ اس مسلئے کے حل سے نہ صرف ملک کے تقریبا 90لاکھ غیر مسلم دھرتی کے بچے خوش ہو جائیں گے ۔جن کے ووٹوں کی تعداد جون 2022 کے الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق 39,56,336 تھی ۔ حالیہ انتحابات میں یہ تعداد تقریبا 45لاکھ تھی ۔۔اگلے انتخابات تک یہ تعداد کم از کم ایک(1) کروڑ تک پہنچ چکی ہوگی ۔ آبادی اور ووٹوں کا تناسب پاکستان میں تقریباً آدھا آدھا ہے ۔۔جس سے یقیناً آپکی جماعت کو 50لاکھ ووٹروں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہونگی۔ گوکہ ملک بھر میں پھیلے ہونے کی وجہ سے یہ 50لاکھ ووٹرز بظاہر کوئی بڑا پریشر گروپ نہیں ہیں، لیکن ان 50لاکھ اقلیتی ووٹروں کی ہمدردیاں آپکی یا جو بھی جماعت اس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش میں پہل کرے گی ،اسکو قومی اسمبلی کی پنجاب اور سندھ سے 20اور صوبائی اسمبلیوں کی کم ازکم 50 نشستوں پر یقینی فتح دلوا سکتی ہیں۔ آپکی جماعت کو پنجاب میں 10 سے 15 قومی اور 20سے 25صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر یقینی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اس سے اس سیاسی جماعت کو بین الاقوامی نیک نامی بھی حاصل ہو گی۔ جو یہ پہل کرے گی ۔۔جس کی آج کے دور میں غریب ملکوں کے سیاسی جماعتوں کو نئے بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں ضرورت ہوتی ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کی بابت تجویز پیش کرنے سے پہلے میں آپکو اپنا مختصر تعارف پیش کر دوں ۔
میرا نام اعظم معراج ہے ۔ میں تحریک شناخت کا ایک رضاکار ہوں۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی انتحابی سیاسی یا مذہبی ایجنڈا ہے۔اور نہ یہ کوئی این جی او ہے۔ یہ تحریک دنیا بھر کی اقلیتوں خصوصاً پاکستان کی اقلیتوں کو” پیغام انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی و بقاء” دیتی ہے۔میں اس خط کے ساتھ اپنا اور تحریک کا تفصیلی تعارف بھی منسلک کر رہا ہوں ۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں پر 16انتحابات میں 6 بار 3انتحابی نظاموں کے تجربات کئے گئے۔لیکن یہ پاکستان کی سیاسی,حکومتی,ریاستی ، دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے،،کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری/مذہبی اقلیتں کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہوئے۔تحریک شناخت نے ان تمام نظاموں جنکی شروعات 1909 کے آنڈین ایکٹ المعروف مارلے منٹو اصلاحات سے ہوتی ہے۔اس وقت سے موجودہ نظام تک کے نظاموں کےبغور مطالعے کے بعد ان نظاموں کی خوبیوں خامیوں سے اخذ کرکے پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات سے ہم آہنگ ایک لالحہ عمل تیار کیا ہے ۔جو ایک بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے ۔جس کو اگر ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ یوں ہوگا ۔
“اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتحابی نظام میں مذہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مزہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔۔۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ” اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والے انتخابی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بزریعہ سلیکشن کی جاتی ہے کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے ۔”
یہ مکمل لالحہ عمل و مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں آگاہی دنیا بھر تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز ودیگر ذرائع سے تقریبا دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہےہیں ۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کہ رائے عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسلئے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین نے ہی حل کرنا ہے۔۔۔ 98فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے غیر مطمئن و بے چین ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپکے اقلیتی رفقاء آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا نہیں بتائیں گے ۔۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ مکمل کتابچہ آپکو بھیج رہا ہوں جس کی مدد سے آسانی سے آئینی ترمیم تیار کی جاسکتی ہے ۔ میرے خیال میں اس ملک کے سیاسی راہنماہ اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسئلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔۔ یہ آپکی خو ش نصیبی ہے۔۔ کہ آپ ان چند راہنماؤں میں سے ایک ہیں ۔ جو اس مسئلے کو حل بھی کرسکتی ہیں اور اس سے وابستہ سیاسی مفادات بھی حاصل کر سکتی ہیں ۔۔اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلاً بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنی خوش اور مطمئن ہیں ۔
آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے ۔۔لہذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقیناً یہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا۔ اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ اس مسلئے کو حل کیا ہے۔۔پاکستان کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے بہت کم لوگوں کو ایسے منصب نصیب ہوتے ہیں ۔ کہ وہ تاریخ رقم کر سکیں ۔ امید ہے آپ اس موقع سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گی ۔۔اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے میں ہر وقت دستیاب ہوں
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضاکار تحریک شناخت
منسلک
1.کتابچہ” تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کا جائزہ.یہ کیوں ضروری ہے ۔؟ اور کیسے ممکن ہے ؟۔
2.تعارف تحریک شناخت
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں