• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بھارت کے مسلمانوں میں اصلی سیکولر سیاست کی لہر۔۔حمزہ ابراہیم

بھارت کے مسلمانوں میں اصلی سیکولر سیاست کی لہر۔۔حمزہ ابراہیم

بھارت میں شہریت کا نیا قانون منظور ہوا ہے جس کے مطابق صرف ان غیر ملکیوں کو بھارت کی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا ہے جو مسلمان نہیں ہیں۔ اس طرح آسام اور بنگال میں بنگلہ دیش اور برما سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتا گیا ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک بھر کے مسلمان نوجوان طلبہ میں احتجاج کی لہر پیدا ہو گئی ہے اور جدید عقلی علوم حاصل کرنے والے طلبہ نے علماء کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس  نے مسلمان طلبہ اور انکے ساتھ چلنے والے غیر مسلم طلبہ پر بدترین   تشدد کیا ہے اور اس کے بعد ہندوستان بھر میں یونیورسٹیز کے طلبہ نے احتجاج کیا ہے۔ یہ سب دہلی میں ہوا ہے، کشمیر میں نجانے کیا حالات ہونگے؟

ماضی میں کشمیر کی مسلمان آبادی پر ہونے والے مظالم پر علماء مذہبی اثر و رسوخ کا سیاسی استعمال کر کے ہندوستان کے مسلمان عوام کو چپ رکھتے تھے لیکن اب نوجوان طبقہ علماء کے چنگل سے نکل رہا ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی سیکولر قیادت مسلم لیگ تھی۔ گاندھی جانتے تھے کہ انکو پیچھے ہٹائے بغیر وہ اپنے آپکو  ہندوستان کا واحد قائد نہیں بنا سکتے۔ چنانچہ انہوں نے تحریک خلافت جیسی بے مقصد مہم میں جان ڈالی تاکہ مسلم لیگ کمزور ہو۔ جب جناح نے مخالفت کی تو علی برادران نے ان سے بُرا سلوک کیا۔گاندھی جی کا عجیب فلسفہ تھا کہ ہندو جوگی اور گرو تو محض ثقافتی کردار ہوں مگر مسلمان عالم دین، جس نے ساری عمر نجاست و طہارت اور عبادت و دعا کے مسائل پر ”تحقیق“ کی ہے،  ثقافتی کے بجائے مسلمانوں کا  سیاسی نمائندہ بن جائے۔جناح مخالف کانگریسی علماء سیکولر نہیں تھے۔ یہ مذہبی سیاست کرتے تھے، مذہبی توجیہ والے سیاسی فتوے دیا کرتے تھے۔ لکھنو میں شیعہ سنی فرقہ واریت کے سرخیل مولانا حسین احمد مدنی  اور مجلس احرار تھے تاکہ اس مذہبی فساد کی مدد سے جناح کو پیچھے دھکیلا جا سکے۔ اور انکا مقصد کانگریس سے چندے لینا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان کو انہوں نے پسماندہ رکھا تاکہ وہ مدارس کیلئے استعمال ہو۔ انہوں نے جدید تعلیم اور سائنس کے خلاف تبلیغ کی اور خود کو وارثِ پیغمبر کہہ کر مسلمانوں کو اپنی سیاست کی پیروی پر مجبور کیا۔ اب ہندوستان میں مدارس کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمان  کل آبادی کا چودہ فیصد جبکہ اعلی تعلیمی اداروں میں انکی تعداد چار فیصد ہے۔ مجھے آج تک مولانا حسین احمد مدنی یا آیت اللہ ناصر حسین موسوی کا کوئی پیروکار یہ نہیں بتا سکا کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی فیکلٹی میں مسلمان اساتذہ نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں؟ آئی آئی ٹی  کے اندر چودہ فیصد طلبہ مسلمان کیوں نہیں؟ ہندوستان کے اسلامی مدارس کے طلبہ  کی تعداد مسلمانوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ کیوں ہے؟ نہرو جی کے سوشلزم کی تلوار مسلمان جاگیردار پر تو چلی مگر ہندو صنعتکار پر کیوں نہ چلی؟ اور تو اور بنگال کے ہندو جاگیردار بھی کانگریسی سوشلزم سے صاف بچ نکلے۔

سیاست کے مزے لینے والے علمائے کرام اسلام کے الگ ثقافتی تشخص کے مخالف مگر سیاست میں علماء کی مداخلت کے وکیل تھے جو کہ سیکولر ازم کا بالکل الٹ ہے۔ سیکولرازم مذہب کے نہیں، علماء کے سیاست سے الگ ہونے کا نام ہے۔ سیکولر ازم مذہبی رہنماؤں کے ثقافتی کردار کی نفی نہیں کرتا۔ ان علماء کو اپنے ثقافتی کردار کے بجائے سیاست کا نشہ  لگ گیا تھا۔ سیاسی علماء ہمیشہ اسلام پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مفادات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ مسلمان عوام کے مفادات سے ٹکراتے ہیں۔ مسلمان عوام کو جدید علوم سے دور رکھتے اور پسماندہ بناتے ہیں۔ وہ مذہب کے ثقافتی تشخص کو بھی اتحاد کے نام پر نابود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آزادی سے پہلے علمائے کرام کو یہ خوف لاحق تھا کہ آزادی کے بعد اگر مسلم لیگ کے منصوبے کے مطابق صوبائی خودمختاری یا الگ وطن ملا تو اس میں مسلمانوں کو جدید عقلی علوم (علماء کے بقول انگریزی علوم) کی طرف مائل کیا جائے گا اور علماء کو ریاست کی طرف سے قرون وسطی کے مددِمعاش کی طرز پر فنڈز نہیں ملیں گے۔ یہاں انکا مفاد کانگریس سے مل گیا کیونکہ کانگریس بھی مسلمانوں کو مولوی ہی دیکھنا چاہتی تھی اور پچھلے سو سال سے ہندو ہی جدید علوم میں آگے آگے تھے۔ علمائے  کرام نے اپنی معیشت کو خطرے میں دیکھا تو کہا کہ سیکولر جناح سے اسلام کو خطرہ ہے۔ مولانا آزاد کا یہ کہنا کہ پاکستان میں اسلام (مدارس) اور ہندوستان میں مسلمان خطرے میں ہونگے، دراصل اسی حقیقت کی طرف اشارہ تھا ۔ پس انہوں نے نیشنلزم کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اپنے مدارس کی ایمپائرکے تحفظ کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔یہ ہندو سیکولر قیادت کے ساتھ تھے مگر مسلم سیکولر قیادت کے خلاف تھے۔ لکھنو کے  شیعہ سنی مذہبی فسادات میں نام نہاد نیشنلسٹ علماء کا کردار انکے روشن خیال ہونے کی قلعی کھول دیتا ہے۔

جناح جانتے تھے کہ علماء جدید دور میں قیادت کے اہل نہیں۔ چنانچہ انہوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کو کوئی سرکاری عہدہ نہ دیا۔ حالانکہ اگر فقہی ریاست بنانا مقصود ہوتا تو علامہ شبیر احمد عثمانی کو وزیر قانون یا کم ازکم چیف جسٹس بناتے۔ ٹو نیشن تھیوری کا مطلب ٹو نیشن آئیڈیالوجی جناح کی وفات کے بعد بنا۔ تھیوری کا مطلب ہندوستان کے سیاسی سوال کی تشریح تھا، اور آئیڈیالوجی کا مطلب نظریہ ہوتا ہے۔ جناح نے کبھی ٹونیشن آئیڈیالوجی کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔  انکی وفات کے بعد شبیر احمد عثمانی صاحب کا دو مذہبی  نظریہء پاکستان اپنا لیا گیا۔لیکن پھر بھی پاکستان کے مسلمان تعداد کے لحاظ سے مساوی بھارتی مسلمانوں سے بہتر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہندوستان کے مسلمان آہستہ آہستہ علماء کے چنگل سے نکل کر خود تاریخ پڑھ رہے ہیں۔ اب انہیں جناح جیسی عملی طور پر سیکولر  قیادت چاہیئے جو علماء کو ثقافتی کردار تک محدود رکھے مگر ان کو سیاسی یا قانونی اعتبار سے کوئی فیصلہ کُن کلیدی عہدہ نہ دے۔ اسی طلبہ ایکٹوازم سے وہ قیادت ابھرے گی۔ علماء ہمیشہ کی طرح تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں۔آج بہت سے تعلیم یافتہ ہندو اور کمیونسٹ بھی مسلمانوں کے ساتھ ہیں لیکن نہیں ہیں تو علماء نہیں ہیں۔ایک مثال کے طو ر پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اس ہندو طالبہ کا انٹرویو ملاحظہ فرمائیں :-

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply