• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/چوہدری محمد علی۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط9

پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/چوہدری محمد علی۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط9

چوہدری محمد علی بھی ایک سیاست دان سے زیادہ ٹیکنو کریٹ تھے آپ کا تعلق جالندھر کے آرائیں خاندان سے تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ چوہدری محمد علی انگریزی دور کی بیوروکریسی میں اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر فائز تھے لیکن تقسیم کے بعد انہوں نے بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں اور پاکستان میں بیوروکریسی کے سب سے بڑے افسر سیکرٹری جنرل مقرر کیے گئے جس کی وجہ سے ان کا بیوروکریسی میں اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا۔
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے گیارہ اگست کی قائد اعظم کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی۔ آپ قائد اعظم کی مذہبی آزادی کے بارے میں خیالات سے متفق نہیں تھے۔
آپ کا شمار لیاقت علی خان کے بہت قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ قائدِ اعظم سے لیاقت علی خان کی آخری ملاقات میں بھی وہ ان کے ہمراہ تھے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد بنتی بدلتی حکومتوں کے عروج و زوال میں بھی شریک تھے۔
چوہدری محمد علی نے جناب لیاقت علی خاں کے دور میں بہت عروج حاصل کیا وہ ان لوگوں میں سےتھے جو ملک کو ایک خاص سمت میں لے جانا چاہتے تھے انہوں نے قراردار مقاصد کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے قائد اعظم کے ہندو وزیر منڈل کو خوف زدہ کرنے اور ملک سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا۔
چوہدری محمد علی ”ظہورِ پاکستان“ کے صفحہ نمبر 439 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ
”مرکزی کابینہ کو صرف ایک دھچکا لگا، جب وزیرِ محنت جوگندر ناتھ منڈل بھاگ کر ہندوستان چلا گیا۔ بنگال کے ہندو اچھوتوں کے رہنما کی حیثیت سے اس نے پاکستان کی جدوجہد میں قائدِ اعظم کا بڑی وفاداری سے ساتھ دیا تھا۔ قائدِ اعظم کی وفات کے بعد اس کا رویہ بتدریج تبدیل ہوتا گیا۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کیے اور اسے آمادہ کرنے لگے کہ وہ ان کی قیادت بھی سنبھال لے۔
“اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ہائی کمیشن اور منڈل کے مابین بھی رشتے استوار ہونے لگے۔ لیاقت علی خان اس صورتِ حال سے باخبر تھے اور میں بھی احتیاطی تدابیر سے کام لے رہا تھا کہ زیادہ رازدار دستاویزات اس کے ہاتھ نہ لگیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ منڈل کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ وہ ڈر گیا اور بھاگ کر ہندوستان چلا گیا۔“

ضمیر نیازی چوہدری صاحب کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ:

”1949
سے 1958 تک کے جمہوری دور میں بھی سیاست دان ملک کا انتظام چلانے میں آزاد نہیں رہے۔ جو شخص اس وقت بیوروکریسی کی مشینری کا انچارج تھا، وہ چوہدری محمد علی تھے۔“
چوہدری محمد علی کی صلاحیتیں اپنی جگہ، مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں حکومتیں تبدیل کرنے میں شریک ہوں یا نہ ہوں، ان واقعات کے عینی گواہ ضرور تھے۔“
چوہدری محمد علی ایک با اثر بیوروکریٹ تھے۔ لیاقت علی خان سے لے کر غلام محمد تک ان کا شمار فیصلہ ساز ٹولے کے اہم ارکان میں ہوتا تھا۔
چوہدری محمد علی کا نام ان لوگوں میں ہے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر سنسر کی یا جو لوگ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی میں شامل تھے ان میں آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اس کا خواجہ ناظم الدین کو بہت دکھ ہوا کیونکہ وہ آپ پر بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے۔

خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں مالی معاملات میں مہارت کی بنیاد پر پاکستان کی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل کیے گئے تھے۔ وہ نہ مسلم لیگ کے رہنما تھے اور نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور دائرہ اثر تھا ۔ ملک کےپہلے وزیر اعظم لیا قت علی خان کے قتل کے بعد ملک کی بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا وہ حصہ تھے چنانچہ جس وقت خواجہ ناظم الدین کو اس عہدے  سےہٹا کر انہیں وزیر اعظم کے عہدے  پر مقرر کردیا گیا ان کو اس کابینہ میں ملک غلام محمد کی جگہ وزیر خزانہ کا عہدہ دیا گیا جبکہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدہ پر فائز کردیا گیا۔
اس کا کہیں ثبوت نہیں کہ یہ عمل جمہوری طریقہ سے ہوا تھا۔ نہ تو اس زمانہ میں حکمران مسلم لیگ کی کسی سطح پر ان تبدیلیوں پر غور کیا گیا اور نہ کابینہ میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ اس زمانے  کےسیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی اور ان کے قریبی ساتھیوں اور مشیروں نے کیا تھا۔

محمد علی بوگرہ کی تعیناتی نہ صرف ایک سیاست دان کی جگہ ٹیکنو کریٹ کی تعیناتی تھی بلکہ میوزیکل چیئر کا آغاز تھا ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”مسلم لیگ کا دورِ حکومت“ کے صفحہ نمبر 244 پر لکھتے ہیں:
”علاوہ ازیں چوہدری محمد علی نے مصنف کو ایک ذاتی ملاقات میں مزید بتایا کہ جب بوگرہ کو غلام محمد کے سامنے لایا گیا تو غلام محمد نے تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے اس کی تجویز سے اتفاق نہ کر لیا، گورنر جنرل اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب یہ کارروائی ہورہی تھی تو ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پسِ پردہ کھڑے تھے جب ملک غلام محمد کی جگہ سکندر مرزا گورنر جنرل مقرر ہوئے تو ان کے سہروردی سے معاملات طے ہو چکے تھے پہلی دستور ساز اسمبلی کے لیے سہروردی کی حمایت کے بدلے ان کو وزیر اعظم بنانے کا پروگرام تھا مگر سکندر مرزا نے اس کی بجائے اپنے ٹیکنوکریٹ ساتھی چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے کے سیاست دانوں میں کچھ دم باقی تھا، خاص طور پر مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں میں، جنہوں نے غلام محمد کی جگہ مقرر ہونے والے گورنر جنرل اسکندر مرزا اور ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم چودھری محمد علی کو نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل پر مجبور کیا جو صوبائی اسمبلیوں سے بلواسطہ طور پر منتخب ہوئی تھی۔
چوہدری محمد علی کے دور میں دوسری دستور ساز اسمبلی تشکیل پائی جو کہ صوبائی اسمبلی کے ذریعے منتخب ہوئی، بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا گیا ون یونٹ فارمولے کے تحت سندھ، بلوچستان، سرحد اور پنجاب کے صوبے اور چھ نوابی ریاستوں کو ملا کر مغربی پاکستان کے نام ایک نیا صوبہ تشکیل دیا گیا۔آپ کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کے لیے پہلا آئین بنانا تھے جو 1956ء میں نافذ ہوا۔

چوہدری محمد علی اپنی کتاب ”ظہورِ پاکستان“ کے صفحہ نمبر 453 پر انتہائی انکساری کے ساتھ آئین کی منظوری کے بارے میں لکھتے ہیں:
”آئین سازی کا کام لشتم پشتم چلتا رہا، حتیٰ کہ اکتوبر 1954 میں آئین ساز اسمبلی ہی توڑ دی گئی۔ اگلے سال ایک نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں لایا گیا، جس نے ہمت کے ساتھ اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور 6 ماہ کے اندر اسے مکمل کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اسی قرارداد (قراردادِ مقاصد) پر مبنی تھا، جسے لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا۔ اس آئین کا نفاذ 23 مارچ 1956 سے عمل میں لایا گیا۔ اس آئین کا سنگِ بنیاد، جسے وزیرِ اعظم کے طور پر مجھے ملک کے اندر پیش کرنے کی عزت حاصل ہوئی، ہر شعبے، انتظامی، اقتصادی اور سیاسی میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین مساوی شراکت تھا۔“

2 مارچ 1956 کو گورنر جنرل نے اس آئین کی منظوری دی اور 23 مارچ کو صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اسکندر مرزا کے صدر بنتے ہی محمد علی کو یہ احساس ہوگیا کہ ان کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ آخر کار ستمبر 1956 میں ہی چوہدری محمد علی نے استعفیٰ دے دیا۔

اس آئین کے ذریعہ ایک طرف ملک کی سب سے بڑی آبادی والے صوبہ مشرقی پاکستان کو مساوی نمائندگی (پیریٹی) دی گئی تاکہ مغربی پاکستان کے تحفظات دور کیے جا سکیں۔ تو دوسری طرف مغربی پاکستان کے چار صوبوں اور چھ نوابی ریاستوں کو ختم کرکے ایک یونٹ میں تبدیل کر دیا گیا
سکندر مرزا کے علاوہ ایوب خاں بھی اس آئین سے ناخوش تھے
ایوب خان اپنی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کے صفحہ نمبر 91 اور 92 پر لکھتے ہیں
”چوہدری محمد علی نے جیسے تیسے آئین تیار کرلیا جو 23 مارچ 1956 کو نافذ کیا گیا۔ یہ بڑی مایوس کن دستاویز تھی۔ وزیرِ اعظم، جو اس امر کے سخت متمنی تھے کہ انہیں تاریخ میں آئین کے مصنف کی حیثیت سے یاد رکھا جائے، نے اپنی کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کے نظریات کو اس آئین میں سمولیا تھا۔ آئین کیا تھا، بس چوں چوں کا مربہ تھا۔“
یہ آئین جس طرح کا بھی تھا، ایوب خان کو بنیادی اعتراض ایک بات پر تھا کہ اس آئین میں واضح طور پر اختیارات کی تقسیم کردی گئی تھی۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ:
”اس آئین نے اقتدار کو صدر، وزیرِ اعظم اور اس کی کابینہ اور صوبوں میں تقسیم کر کے اس کی مرکزیت ہی کو نیست و نابود کر دیا تھا، اور کسی کو صاحبِ اختیار نہیں رہنے دیا تھا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس شخص نے آئین بنایا وہی اس کا پہلا شکار بنا۔
“اس زمانے میں ایک دفعہ میں نے انہیں بڑی بے بسی کی حالت میں ان کے دفتر میں دیکھا۔ چونکہ وہ وزارتِ دفاع کا قلم دان بھی خود سنبھالے ہوئے تھے، اس لیے مجھے ایک دفاعی سلسلے میں ان سے ملنے کے لیے جانا پڑا۔ انہوں نے مجھ سے کہا ”میری جماعت نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ بس اب معاملہ ختم ہے۔“
“میں نے ان کی ہمت بندھانے کے لیے چند الفاظ کہے مگر ان کی تشفی نہ ہوئی۔ ”نہیں نہیں۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ صورت اختیار کر گیا ہے۔ تم یہ کام کیوں نہیں سنبھال لیتے، اور مجھے اس سے چھٹکارہ کیوں نہیں دلا دیتے؟ میں نے کہا ”دیکھیے ان باتوں کا ذکر مجھ سے نہیں اپنے صدر سے کیجیے اور اس الجھن سے نکلنے کا کوئی مناسب طریقہ سوچیے۔

وہ ایک عوامی سیاست دان نہیں تھے اور نہ ہی انہیں اس بات کا تجربہ تھا کہ عوام کے احتجاج سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک عوامی احتجاج سے گھبرا کر انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس واقعے کی کہانی نعیم احمد نے اپنی کتاب ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 100 اور 101 پر یوں بیان کی ہے:
”وزیرِاعظم جس نے کرسی چھوڑ دی: آپ (چوہدری محمد علی) نے جس صبح کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا، اس سے ایک رات پہلے ایک جلوس وزیرِ اعظم ہاؤس آیا۔ وہ جلوس کراچی کے آئی جی پولیس گریس کے خلاف تھا۔ گریس کے خلاف لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا۔ جلوس بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔ سکیورٹی افسر نے مجھ سے (جو اتفاق سے اس وقت رات کی ڈیوٹی پر تھا) کہا کہ جلوس کے بارے میں وزیرِ اعظم کو اطلاع کر دی جائے۔ وزیرِ اعظم صاحب اس وقت تک اپنے کمرے کا دروازہ بند کر چکے تھے۔ بجائے اس کے کہ سکیورٹی افسر وزیرِ اعظم کو مطلع کرنے خود جاتے، انہوں نے مجھ پر ذمہ داری ڈال دی کہ چوہدری صاحب کو جلوس کے بارے میں اطلاع دو۔ –
سن 56 کے آئین کی منظوری کے بعد سن 59میں ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے- نئے آئین کے تحت ملک کے پہلے صدر مقرر ہونے والے اسکندر مرزا نے اپنی پارٹی ریپبلکن پارٹی کی فتح کے لیے بڑے پیمانہ پر جوڑ توڑ شروع کردی تھی اور سکندر مرزا آئین کو محض کاغذ کا پرزہ خیال کرتا تھا اس نے نئی پارٹی کے لیے راتوں رات سیاستدانوں کو تیار کیا۔ ان کی وفاداریوں کو تبدیل کیا
سکندر مرزا انتخابات نہیں کروانا چاہتا تھا ان تمام کوششوں۔ تقرریوں اور برطرفیوں کا مقصد عوام پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ ملک میں سیاسی ابتری کی صورت حال ہے۔

یہی وہ موقع تھا جب سکندر مرزا کو احساس ہوا کہ چوہدری محمد علی اب اس کی گرفت سے نکل چکے ہیں۔ اس لیے اس نے وزیر اعظم چودھری محمد علی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور ان کی جگہ عوامی لیگ کےحسین شہید سہرودی کو وزیر اعظم مقرر کیا۔

وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد چوہدری صاحب نے ”نظامِ اسلام پارٹی“ تشکیل دی۔ تاہم انہوں نے ایوب خاں کے مارشل لاء کی ڈٹ کر مخالفت کی انہوں نے ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور اس دوران جلسے جلوسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ ایک بار کرنل مجید ملک، جو مرکزی اردو بورڈ لاہور کے ڈائریکٹر تھے، نے جب چوہدری صاحب سے یہ سوال کیا کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ بڑی آسانی سے چھوڑ دی، اب جلوسوں میں کیوں شرکت کرتے ہیں؟ ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 102 پر درج ہے کہ چوہدری صاحب نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا:
”مجھے ڈر ہے کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ محمد علی  تمہیں پاکستان میں کیا مقام دیا تھا، لیکن تم نے میرے پاکستانی بندوں کے لیے کیا کیا؟ چوہدری صاحب نے فرمایا یہ سوچ کر مجھے خوف آتا ہے لہٰذا میں ان جلسے جلوسوں کی قیادت اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے روز جواب دینے کے لیے کر رہا ہوں تا کہ کہہ سکوں کہ اے اللہ! میں نے تو مقدور بھر کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بحال ہوجائے باقی آئندہ کیا ہوگا تو غیب کا علم تُو ہی جانتا ہے۔“
اسی طرح ساٹھ کی دہائی میں ایک طالب علم کے جواب میں کہا کہ اہم فیصٖلے بند کمروں میں ہوتے تھے جس میں میں شامل تو ہوتا تھا مگر صرف اپنی کمزور آواز میں ان کی مخالفت کر سکتا تھا ان کے خلاف موقف یا سٹینڈ نہیں لے سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply