آرٹیکل 62،63 اور جماعت اسلامی

جماعت اسلامی اور آرٹیکل 63،62 حصہ دوئم:
مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے آئین کی دفعہ 62،63 کا من وعن جائزہ لیا تھا، پانامہ کیس میں پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کی آئین کی دفعہ 62، 63 کے نفاذ کے بعد پارلیمنٹ میں محض سراج الحق صاحب کے ہی بچ جانے کی پیش گوئی سراج الحق صاحب کے کردار اور کارکردگی کی گواہی ضرور ہے لیکن میری نظر میں مکمل سچ نہیں۔آرٹیکل 62،63 جسمیں امیدوار کی پارلیمنٹ کی رکنیت کیلیے اہلیت اور نا اہلی کے معیارات کا تعین کیا گیا ہے اس پر دیگر جماعتوں کے چند ایک نیک نام ارکان پارلیمنٹ بھی شائد ضرور پورا اترتے ہوں، لیکن جماعت اسلامی کے دیگر ارکان پارلیمنٹ بھی اپنے لیڈر کی طرح اس معیار پر پورا اترنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ حال ہی میں آزاد اور نیک نام ادارے پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق مرکز، سینٹ اور صوبوں کے اراکین پارلیمنٹ کو انکی حاضری اور قانون سازی میں شرکت کے حوالے سے پوائنٹس دئیے گئے ہیں، جنمیں جماعت کے اراکین پارلیمنٹ پہلی دس پوزیشنز میں شامل رہے، یہ جماعت کے ارکان پارلیمنٹ کے کردار اور اپنی ذمہ داری سے ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کے بنیادی نکات میں سے اہم ترین “اصلاح حکومت” ہے, جسکے زریعے جماعت اقتدار کے مراکز کو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں اور کرپٹ عناصر کی جگہ دفعہ 62،63 پر پورا اترنے والے عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں دینے کیلیے کوشاں ہے، کیونکہ جماعت سمجھتی ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کیلیے مسجد, بازار, درسگاہوں ,عدالتوں ,معاشی نظام سمیت معاشرے کے ہر پہلو میں دین سے راہنمائی لیتے ہوئے حکمرانی ضروری ہے. جماعت اس ملک کی سیاست میں منفرد اسلوب کی حامل جماعت ہے جو بلدیات سے لیکر اوپر کے ایوانوں تک اپنے تربیت یافتہ مخلص کارکن کو ہی حق نمائندگی کے لئے پیش کرتی ہے. جماعت کا نظام موروثیت اور پیسے کی بنیاد پر سیاست کی مکمل نفی کرتا ہے، یہاں حق نمائندگی کا معیار تقویٰ اور کارکردگی ہی ہے۔پاکستانی کی جمہوری تاریخ میں بلدیاتی و بالائی ایوانوں میں جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کردہ سینکڑوں افراد حق نمائندگی حاصل کرتے رہے ہیں, ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین بار جماعت اسلامی کے مئر منتخب ہوئے, مرکزی و صوبائی حکومتوں میں بھی مختلف ادوار میں جماعت کے وزراء کی کارکردگی مثالی رہی. ان سب ذمہ داران کا دامن ہر قسم کی کرپشن کے داغوں سے پاک رہا اور عوامی خدمت میں بھی انھوں نے سرکاری خزانہ کو عوام کی امانت سمجھتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے انتہائی دیانتداری سے استعمال کیا۔ اس حوالے سے جہاں بابائے کراچی کہلانے والے کراچی کے دوبار منتخب مئر عبدالستار افغانی جب مئر شپ چھوڑتے ہیں تو وہی چھوٹا سا میڈیکل سٹور اور پرانا گھر ہی انکی پہچان رہتا ہے، کراچی کے بجٹ کو چار ارب سے 44ارب تک پہنچا دینے والے جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان کےدور میں جب کمیشن سے پاک کلچر فروغ پاتا ہے تو کروڑوں روپے میں مکمل کئے جانے والے پراجیکٹس کی لاگت پہلے سے بہتر معیار کے ساتھ لاکھوں روپے قرار پاتی ہے اور کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بنتا ہے. آج جماعت کے بد ترین سیاسی مخالفین بھی نعمت اللہ خان کی مثالی کارکردگی کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔جہاں وطن عزیز نے پچھلے دنوں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے کے سیکرٹری خزانہ کی کروڑوں روپے کی شرمناک کرپشن پکڑی جاتی ہے, وہیں اسی ملک کےصوبے پختونخواہ کے سابق وزیر خزانہ کے دور میں لاہور کا سرکاری دورہ محض چند سوروپے میں مکمل ہو جاتا ہے اور یہی مرد قلندر مرد حق جسے دنیا سراج الحق کے نام سے جانتی ہے جب سرکاری دورے پر جرمنی پہنچتا ہے تو رات کسی فائیو سٹار ہوٹل میں گزارنے کی بجائے اپنے سرکاری اہلکاروں کو لے کر مقامی اسلامک سینٹر میں گزارتے ہیں تاکہ قومی خزانے کی بچت ہو اور وزیر خزانہ ہوتے ہوئے پشاور میں چھوٹے سے کرائے کے گھر میں بغیر کسی پروٹوکول رہتے ہیں, اپنے دفتر اور گھر میں محض اس لیے ائر کنڈیشنر استعمال نہیں کرتے کہ جبتک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو جاتی میراضمیر AC استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا. یہ تو قیادت کی بات ہے، میں یہاں سراج صاحب کے سینئر وزارت چھوڑنے کے بعد انکی جگہ پر کرنے والے جماعت کی طرف سے وزیر بلدیات عنائت اللہ خان کا ذکر کرنا چاہونگا جنکی محنت، لگن اور ذہانت نے انکی اتحادی جماعت کے سربراہ عمران خان کو بھی انتہائی متاثر کیا اور انکی کارکردگی کو اپنے وزراء کیلیے قابل تقلید قرار دیا۔ عنائت اللہ خان نے KPK میں انتہائی متوازن بلدیاتی نظام لا کر اور انتخابات کے بعد اقتدار باقی صوبوں سے پہلے نیچے بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کر کے مثال قائم کر دی ہے، انکی پشاور کی تعمیرو ترقی اور خوبصورتی کیلیے اٹھائے گئے اقدامات کی گونج بھی پورے صوبے میں سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح جماعت کی طرف سے صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید کی کارکردگی کا اعتراف بھی مرکز کی سطح پر کیا گیا اور انکی معاشی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے وفاق کی طرف سے صوبے کیلیےنقد انعام کا اعلان بھی کیا گیا، انہی مظفر سید کی کارکردگی سے جب کچھ کرم فرماؤں کو حسد اور خوف محسوس ہوا تو انھوں نے خیبر بنک کے سربراہ کے ذریعے انپر بے بنیاد الزام لگوائے لیکن دو آزادانہ انکوائریوں کے بعد تمام الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا اور خود الزام کنندہ نے اخباری اشتہار ہی کے ذریعے اپنے الزامات کو واپس لیتے ہوئے معذرت کی ۔ آج KPK کے 5 اضلاع اور 16 تحصیلوں جبکہ سندھ کے ضلع ٹنڈو آدم میں جماعت کی طرف سے منتخب عوامی نمائندے پوری تندہی سے عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔ مثال کیلیے میں لاہور کےدیہی علاقے لکھو ڈہر سےتین بار منتخب ہونے والے جماعت کے کونسلر و ناظم چوہدری منظور گجر کا ذکر کرونگا کہ منتخب ہونے کے بعد ٹھیکیدار انھیں مبارکباد دینے کے بہانے حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ پہلے لوگوں کو میں 7 فیصد کمیشن دیتا تھا آپکو 10 فیصد دونگا, وہ جواباً کہتے ہیں یہ تو تھوڑی ہے, وہ بڑھاتے بڑھاتے 22 فیصد پر آجاتا ہے تو چوہدری منظور جواب دیتے ہیں کہ میرے عزیز حرام کا خواہ ایک روپیہ ہو یا لاکھوں ہوں رہے گا گھاٹے کا سودا ہی, میں تمھیں محض اس شرط پر ترقیاتی منصوبوں کا ٹھیکا دونگا کہ عوام کی پائی پائی عوام کے استحقاق کے مطابق انکی فلاح پر خرچ ہونی چاہیے. یہ ہے جماعت کی تربیت اور اسکے لائحہ عمل کی برکات جو جماعت اس ملک کے عوام تک پہنچانا چاہتی ہے, اب عوام کو بھی چاہیے کہ کھر ے اور کھوٹے کی پہچان کرتے ہوئے جماعت کا ساتھ دیکر عظیم اور با برکت اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرے تاکہ اسلامی اور خوشحال پاکستان کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔

Facebook Comments

احسن سرفراز
بندگی رب کا عہد نبھانے کیلیے کوشاں ایک گناہگار,اللہ کی رحمت کاامیدوار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply