• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک بہتر اور ذہین عمران خان تیار کیا جاسکتا ہے۔۔اسد مفتی

ایک بہتر اور ذہین عمران خان تیار کیا جاسکتا ہے۔۔اسد مفتی

میرے گزشتہ ایک کالم “اب پچھتاتے ہیں خدا ایجاد کرکے “ کی اشاعت کے بعد اس ناچیز کو بہت سے قارئین کے ٹیلی فون موصول ہوئے جس میں انہوں نے اس معلوماتی کالم کی مبارکباد کے علاوہ اسی موضوع پر مزید جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔
ان افراد کی گفتگو سے جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے۔وہ اس دریافت اور نوع انسانی کی کامیابی کے بارے میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسانی کلوننگ کی جانب سائنس کا سفر کس تیز رفتاری سے جاری ہے؟
سو اسی باب میں،مَیں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں۔۔۔
میرا یہ کالم آپ گزشتہ سے پیوستہ سمجھ لیجیے۔

فروری1997میں بھیڑ ڈولی کی کلوننگ سے حوصلہ پا کر کئی سائنس دانوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کلوننگ کے ذریعے نیا انسان تخلیق کرسکتے ہیں،سائندانوں کے اس اعلان سے مذہبی اور سیاسی حلقوں میں بڑی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا،جس یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے تقریباً ہر ملک نے انسانی کلوننگ پر قانونی امتناع کا اعلان کردیا تھا،لیکن بعد کی تفصیلات سے یہ انکشاف ہوا کہ مکمل متناع کسی بھی ملک میں عائد نہیں کیا جاسکتا۔مجوزہ قوانین میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ لیبارٹری کی سطح پر انسانی کلوننگ کے تجربات جارہی رہیں،البتہ ان تجربات سے تیار شدہ مواد کوکسی خاتون کے جسم میں منتقل نہ کیا جائے،اس گنجائش کی حد تک کئی تجربات کیے گئے ہیں،اور ا ن کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کلوننگ کی جانب انسان کا سفر تیز رفتاری سے جاری ہے،

سرِ دست سائنسدان تجربات کے بارے میں عالم انسانیت کو یہ بشارت دیتے ہیں ک جنیٹک تکنیک سے یہ ممکن ہوجائے گا کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے لیے کسی انسان سے اس کے اعضاء کا عطیہ لینے کی محتاجی ختم ہوجائے گی۔اور درکار اعضاء کو مصنوعی طور پر تیار کرلیا جائے گا،لیکن اس کے ساتھ بعض اخباری نامہ نگاروں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ جینی حیاتیات کی تحقیقات کو کیمیائی اسلحہ سازی میں استعمال کیا جاسکتا ہے،یہ خدشات اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں کہ کسی بھی نئی ایجاد یا دریافت میں منفی پہلو بھی پائے جاتے ہیں مگر کلوننگ سائنس دان یہ استدلال کرتے ہیں کہ کلوننگ تجربات انسان کی محرومیوں کا واحد علاج ہیں،مثلاً کسی مرحوم عزیز کو دوبارہ زندہ پالینا،طبی تحقیق،نسلِ انسانی کے بہتر ڈیزائن،جسم انسانی کے ناکارہ حصوں یا فالتو پُرزوں کی تیاری وغیرہ وغیرہ،چنانچہ اس تحریک کے قائد سائنس دان ڈاکٹر ہربرٹ کہتے ہیں کہ کلوننگ کا خوف بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

اگر اس تکنیک کونظم و ضبط کے ساتھ بروئے کار لایاجائے تو اس سے انسانوں اور جانوروں دونوں کا بھلا ہوگا،انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی کوئی امید افزا امکان سامنے آیا توکسی نہ کسی شخص نے اس تجربہ کو آگے بڑھانے کی کوشش ضرور کی۔سائنس کی تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عمائسن نے ڈی این اے کی ترکیب کا راز بتایا۔ڈاکٹڑ واٹسن کلوننگ تجربات کے حامی ہیں،اوراس میدان میں جینی منصوبہ”جیسے اہم سائنسی تجربات کے روح رواں ہیں “۔۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ چند سال قبل بھارتی نژاد نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کُھرانا نے مصنوعی جنین کی تیاری کا ایک اہم تجربہ کیا تھا،مابعد میں بھی کافی عرصہ تک انسانی کلوننگ نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔ڈولی کے بعد کے تجربات میں سے سب سے پہلے ساچیو سیل ریسرچ کا نام اخبارات کی زینت بنا،جہاں مئی2008میں ہوبہو مشابہہ بَچھڑے تیار کیے گئے تھے۔

جون 2009میں ایک چوہے کی تیاری کی خبر آئی اور اس کے پانچ ماہ بعد نومبر2009میں یہ چونکادینے والی خبر آئی کہ جاپان میں گائے کے دودھ کے خلیوں سے گائے کا کلوننگ تیار کرلیاگیا۔اسی دوران ایک امریکی ماہر طبعیات نے اعلان کیا کہ وہ دوبرس میں انسانی خلیہ تیار کردیں گے۔جب اس کے اس اعلان پر قانونی امتناع عائد کرنے اور تجربہ گاہوں کو انسانی جین فراہم نہ ہونے دینے کی کوششیں کی گئیں تو اطالوی سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ وہ خود اپنی کلوننگ تیار کرلیں گے۔کلوننگ تکنیک کے میدان میں اس وقت نمائندہ تحقیقی کام امریکی،برطانوی اور اطالوی سائنسدانوں نے سرانجام دیاہے،ان سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ انسانی بیضہ(انڈا)سے ازلی انسانی خلیے نکال کر ان کی پردافت کی ہے،چونکہ یہ خلیے ضائع شدہ حمل سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔لہذا یہ ائنسدان کہتے ہیں کہ اب بیماری راہ میں کوئی اخلاقی بندش بھی حائل نہیں ہے،کیونکہ ضائع شدہ حمل تو بے جان ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال اس موضوع پر بحث جاری ہے،لیکن یہ بات طے ہے کہ اس تکنیک کے بہت سے فائدے ہیں،مثلاً اس کی مدد سے جسم میں ایسے جین سرائیت کرائے جاسکتے ہیں جو کئی موروثی بیماریوں کے ازالہ میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں،انسانی اعضاء کی کلوننگ میں بھی یہ تکنیک استعمال کی جاسکتی ہے۔جگر،تِلی یا ہڈیوں کا گودا لیبارٹری میں تیار کیا جاسکتا ہے۔اور معمولی نشوونما کے بعد اس کی پیوندکاری مریض کے جسم میں کی جاسکتی ہے،جہاں وہ مریض کے فون پر پل کر مکمل جسم کو پہنچ جائے گا،اس طرح انسانی اعضاء کی خریدوفروخت،بازیابی کے مسئلے پر قابو پایا جاسکے گا،ابھی حال ہی میں ہالینڈ کے ایک جریدے نے لکھا ہے کہ ذیابطیس،امراض قلب،پارکنسس،اعصابی کمزوری،نسوں کی سختی،بلڈ ٹرانسفر،اور کسی بھی قسم کے کینسر جیسے امراض کا تسلی بخش علاج جنیاتی کلوننگ ہی ہے،جس کے ذرائع تلف شدہ خلیوں کی تبدیلی،مرمت،یا انکی صحیح دیکھ بھال کی جاسکتی ہے،اور ڈاکٹر کو لینز کے بقول میں نہائیت عجز وانکساری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہم تخلیق انسانی کی وہ کتاب پڑھنے کے قابل ہوگئے ہیں جس کا علم قبل ازیں نہیں تھا۔
پابندِ مقدر ہوکر بھی ہر چیز پہ قادر ہے انسان
مجبور کا جب یہ عالم ہے،مختار کا عالم کیا ہوگا

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply