ترک خارجہ پالیسی ہے کیا؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

کافی عرصے سے سوچ بچار میں ہوں اور ترکی کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایک دور تھا، ممالک کی پالیسی کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے تھے، جس پر ماہرین پہلے سے بتا دیتے تھے کہ اس قضیے میں اس ملک کی پالیسی یہ ہوگی۔ اب ہر چیز مشکل ہوگئی ہے، نظریات قصہ پارینہ بن گئے اور ان کی جگہ منافقت نے لے لی۔ بڑا خوبصورت نظریہ گھڑا گیا کہ کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی مستقل دوست ہوتا ہے، جیسے ہی مفاد تبدیل ہوتا ہے، دوست دشمن اور دشمن دوست بن جاتے ہیں۔ یعنی دنیا نے ایک ہی اصول پر اتفاق کر لیا ہے اور وہ مفاد ہے، جس طرف آپ کا مفاد ہو، اسی طرف آپ کھڑے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کی کمزور اقوام کی حمایت کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ ظلم کرنے والے طاقتور ہیں اور ان کے ساتھ ممالک کے مفادات جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کے خلاف لڑنا تو دور کی بات، ان کے خلاف بیان تک نہیں دیا جاتا۔

ترکی اور سعودی عرب میں شدید اختلافات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور کہا گیا کہ ترکی جمال خاشقچی کے معاملے میں بہت آگے تک جائے گا اور ترک میڈیا نے بین الاقوامی میڈیا کی معیت میں اس قصے کو خوب اچھالا۔ وہ دنیا جس میں ہزاروں بے گناہ مار دیئے جاتے ہیں، وہاں ایک خاص قتل کو اٹھانا بڑا معنی خیز تھا۔ اسی میڈیا کو شیخ نمر جیسے فقیہ اور دیگر سینکڑوں لوگوں کی پھانسیاں تو نظر نہیں آئیں، ایک صحافی کا قتل نظر آگیا اور کچھ زیادہ ہی نظر آگیا۔ عرب دنیا میں بھی ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم سے لے کر یونان تک سے مشترکہ جنگی مشقیں کر لیں۔ یونان کے ساتھ بحری مشقیں ترکی کو برانگیختہ کرنے جیسا تھا۔

ترکی یورپ کے ساتھ ہے یا روس کے ساتھ ہے؟ اس کی بھی کوئی خاص سمجھ نہیں آرہی، کبھی تو ترک قیادت کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ مغرب کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی نیٹو سے الگ نہیں ہوا جاتا۔ ایک طرف امریکی طیاروں کے طلبگار ہیں اور دوسری طرف روسی دفاعی نظام کو بھی حاصل کر لیا ہے۔ ایک بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ترکی نے اپنے پتے بڑے طریقے سے کھیلے ہیں۔ ایک ہی وقت میں روس اور امریکہ ہر دو سے تعلقات کو قائم رکھا ہے اور ہر جگہ سے مفادات لے رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سیرین مہاجرین کو یورپ کی طرف جانے کا راستہ فراہم کر دیا تھا اور ہزاروں لوگ یورپ کے دروازے تک پہنچ گئے تھے۔ اس موقع کو بھی ترکی نے خوب استعمال کیا تھا اور یورپ کے لیے ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ یورپ کو لگا کہ اگر ترکی کو راضی نہ کیا گیا تو لاکھوں لوگ ہمارے دروازے پر ہوں گے۔

یوکرین روس جنگ میں مغرب نے ترکی سے بھرپور تقاضا کیا کہ وہ روس سے تعلقات پر نظرثانی کرے اور اس کے اس حملے کی مذمت کرے، مگر ترکی نے ایسا نہیں کیا۔ترکی نے روس یوکرین باہمی مذکرات کرانے اور کردار ادا کرنے کی طرف قدم بڑھا دیا، اس طرح ترکی ناصرف مذمت نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے بھی بچ گیا، جس کا وطن عزیز شکار ہوگیا تھا اور ساتھ میں اس نے روس سے تعلقات کو بھی بنائے رکھا۔ روس یوکرین جنگ نے دنیا میں خوراک کا بحران پیدا کر دیا ہے اور غریب ممالک انتہائی پریشان ہیں۔ روس، یوکرین اور ترکی کے درمیان ہونے والے ایک بندبست کے نتیجے میں غلے سے بھرے کچھ جہاز سمندری راستے سے روس سے نکلے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ترک صدر سعودی عرب گئے، جہاں ان کا محمد بن سلمان نے استقبال کیا۔ جی اسی محمد بن سلمان نے جسے جانے کیا کیا کہا جاتا رہا؟ اب اسی محمد بن سلمان کو ملنے کے لیے ترک صدر سعودی عرب پہنچ گئے۔ اب محمد بن سلمان ترکی پہنچے ہیں، جہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے ہیں۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جیوبائیڈن خطے کا دورہ کرنے والے ہیں، اس لیے ہر ملک اپنا وزن بڑھانے کے چکر میں ہے، تاکہ خطے کی نئی بندر بانٹ کی حکمت عملی میں اپنا حصہ وصول کر سکے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے مشرق وسطیٰ میں ایک نیٹو طرز کے اتحاد کی بات کی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ بحرین اور عرب امارات تو پہلے ہی سرنگوں ہوچکے ہیں، اب ترکی سعودی عرب کی دوستی کی بنیاد کیا ہوگی؟ اس کا پتہ تو جلد چل جائے گا، مگر یہ بات بہت واضح ہے کہ اب ترکی کو اپنا کردار واضح کرنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصل نیٹو اور یہ دو نمبر نیٹو کا تصور ہی فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی سے عبارت ہے، ورنہ خطے میں کوئی ایسی جنگ نہیں چل رہی، جس کی وجہ سے ایسے فوجی اتحادوں کی بات کی ضرورت ہو۔ مغربی میڈیا اسلامی جمہوری ایران اور ترکی کے درمیان نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیلی قیادت ترکی میں اسرائیلیوں کو سفر سے روکتی ہے اور اس کی وجہ ایران سے خطرہ بتاتی ہے۔ پورا میڈیا اسے لے کر پروپیگنڈا کرنے لگتا ہے۔ یہ اسرائیل اور اس کے اتحادی ہیں، جو نہتے لوگوں کو شہید کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ اسلام میں کسی نہتے اور بے گناہ شہری کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے جیسا ہے۔ اس تمام صورتحال میں جلد ترکی کی خارجہ پالیسی واضح ہو جائے گی اور امید کرتے ہیں کہ اس میں فلسطینیون کے حقوق کا تحفظ کرنے کا عملی لائحہ عمل بھی ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply