کھوتی کو عزت دو۔۔عارف خٹک

محترم چچا جان اور کھوتیوں پر پی ایچ ڈی کرنیوالے کرک کے غیور اور خٹکزینے کے امین جناب ڈاکٹر رحیم خٹک سکنہ اسلام آباد والے فرماتے ہیں کہ ہمارے وقتوں میں کھوتی اور بیوی میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔خواتین اگر سر پر دو پانی کے مٹکے بھر کر لاتی تھیں۔تو کھوتی بھی بھرا مشکیزہ پیٹھ پر لادے خراماں خراماں خواتین کے ہمراہ چلی آرہی ہوتی تھی۔رات کو تھکی ہاری بیوی کے پاس جاکر اُس کا شوہر گر پاؤں کا انگوٹھا ہلاتا،کہ اندر کمرے میں آجاؤ۔تو تھکن سے چُور نیند میں ڈوبی آواز میں وہ بولتی۔سرتاج آج سامنے بندھی کھوتی سے کام چلا لیجیئو۔سرتاج بھی زمانے بھر کے فرماں بردار اتنے کہ بنا شکایت کھوتی کی طرف چلے جاتے۔لیکن وفادار اتنے کہ مجال ہے دوسری شادی کا سوچتے بھی ۔ چچا رحیم نے آج دوسری شادی نہیں کی۔

کھوتی کے ساتھ جتنا ظلم ہوا ہے۔شاید ہی ہماری خٹک تاریخ میں یوسفزئیوں کےساتھ اتنا ظلم خوشحال خان خٹک نے کیا ہو۔ ہمارے علاقے کے معروف سوشل ورکر صدیقی فرماتے ہیں۔کہ ایسی کھوتیوں کو جائیداد میں آدھا حصہ تک دے دینا چاہیے۔جنہوں نے ہمیں اُن اوقات میں جذباتی سہارا دیا۔،جب ہماری بیویاں تک ہمیں مُنہ نہیں لگاتی تھیں۔کرک کے مشہور صحافی شکیل جرمن صاحب فرماتے ہیں۔کہ کرک کےملحقہ علاقوں میں کھوتی کی اتنی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔کہ اگر کوئی پرائی کھوتی کےساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔تو خون کی ندیاں تک بہہ جاتی ہیں۔آپ نے مجنوں کو لیلٰی کے عشق میں پاگل پھرتے پڑھا ہوگا۔ فرہاد کو شیریں کےلئے کدال سے دودھ کی نہریں نکالتے سُنا ہوگا۔مگر یہ حقیقت آپ کی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔کہ کرک کے آصف اللہ خٹک آف تخت نصرتی نے آج تک کھوتی  کی محبت میں شادی تک نہیں کی۔بلکہ جب سے پی ٹی آئی نے کھوتیاں گردی شروع کی ہیں۔آصف اللہ خٹک ان کا بائیکاٹ کرکےاحتجاجاً جمیعت جوائن کرچُکے۔۔
محترم جناب رحیم خٹک صاحب کہتے ہیں کہ بندہ بیوی میں شراکت داری قبول کرسکتا ہے مگر کھوتی کو کوئی اور بری نظر سے دیکھے تو یہ ان سے قطعاًبرداشت نہیں ہوتا۔اور ایسے مردوں کیلئے ہماری پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے گھر سے تین گھر چھوڑ کر میر قباز خان چچا کا گھر تھا۔ چچا جان غصے کے تیز اور مزاج کے بُہت سخت تھے۔ہر وقت ڈبل بیرل گن ہاتھ میں لے کر گُھوما کرتے۔ جس دن چچی سے لڑائی ہوتی۔ اُس صبح گاؤں کے کھیتوں میں دانہ چُگتے پالتو کبوتروں کو ایک ہی فائر میں ڈھیر کردیتے۔ لیکن مجال ہے کبھی کوئی کبوتر بُھون کر کھایاہو۔ کہتے تھے کبوتر جیسے امن پسند پرندے کو کھانا بذات ِخود کبوتر کےساتھ ظلم ہے۔ ان کے اکلوتے بیٹے تاج محمد خان ایک رات حالت ِجذبات میں اُٹھے۔ اور کھوتی کے کھیڑ والی جگہ پر چلے گئے۔تاکہ کھوتی سے راز و نیاز کرسکیں۔ گُھپ اندھیرے میں گائے اور کھوتی میں فرق واسطے جانوروں کی دم چیک کررہے تھے۔ کہ اچانک ان کا ہاتھ انسانی کولہوں سے ٹکرا گیا۔ رات کے اندھیرے میں ابا کی آواز آئی۔ تاج محمد،خانہ خراب تمیز نام کی کوئی چیز تیری ماں نے تجھے سکھائی ہے کہ نہیں؟
پندرہ منٹ کے بعد آجانا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کھوتی کو عزت دو۔۔عارف خٹک

  1. ھاھا، لالا کھوتے کو عزت دو یا کھوتے کی عزت کی واٹ لگاؤ، گاؤں کے کھوتوں کو اگر پتہ چل گیا تو پھر گاؤں مت انا، ایسا نہ کہ اپکو اغوا کرلے۔ ا

Leave a Reply