کذّاب جن اور پاگل صحافی۔۔۔سہیل وڑائچ

ہے تو وہ میرا موکل، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بے تکلف ہو چکا ہے، میرے الٹے سیدھے خیالات کی وجہ سے وہ مجھے پاگل صحافی کہتا ہے جبکہ میں اس کی جھوٹی سچی کہانیوں کی وجہ سے اسے کذّاب جن کہتا ہوں۔

برسوں کی رفاقت ہے اس لئے کذاب جن کی جھوٹی کہانیاں بھی مجھے بہت اچھی لگتی ہیں، وہ جب بھی حاضر ہوتا ہے میرے لئے دنیا بھر کے جھوٹ اکٹھے کرکے لاتا ہے اور میں اپنے موکل کے ان جھوٹوں، افسانوں اور افواہوں سے دل بہلا لیتا ہوں۔

ابھی کل ہی وہ آیا تو قہقہے لگانے شروع کر دئیے۔ میں نے کہا، اب کون سے جھوٹ پر خوش ہو رہے ہو تو کذاب جن کہنے لگا، تھانوں میں سازشیںتیار ہو رہی ہیں، کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ میں نے کہا، جھوٹے! تم باتیں گھڑ لیتے ہو، بھلا تھانے میں ایسا کیا ہو سکتا ہے جو اتنا اہم ہو کہ تم مجھے سنانے آئو اور قہقہے لگائو۔

کذاب جن کی پانچویں آنکھ ایک بار بند ہوئی اور پھر دوبارہ کھلی۔ کہنے لگا، بوجھو تو جانیں، مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا ایسی خرافات مجھے نہ سنائو، کذاب جن دو قدم پیچھے ہٹا اور چنگھاڑ کر کہا کہ پھر یہ سارا ہلّا گلا کیا ہے؟ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا، وہ پروپیگنڈا ہے جھوٹا پروپیگنڈا۔

کذاب جن جب بھی حاضر ہوتا ہے میں اپنی تفننِ طبع کی خاطر کوئی نہ کوئی سوال داغ دیتا ہوں۔ میں نے پوچھا، سیاست میں کون اِن اور کون آئوٹ ہے؟ کہنے لگا، پاگل صحافی تمہیں نظر نہیں آتا کہ مودی ملتانی، ترین لودھروی اور نعیم الحق کو پچھاڑ کر زلف پجاری سب سے آگے نکل چکا ہے، یہ سب تو اب اس کی گرد بھی نہیں چھو سکتے۔

وہ ہوشیار ہے، روحانی امداد بھی ہے اور اوپر سے وہی سب سے خاص الخاص مشورہ بین بھی ہے۔ کذاب قصے کہانیاں سنا رہا ہو تو نئی نئی سازشی کہانیاں بھی سامنے لاتا رہتا ہے جن میں سے اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔

مجھے جھوٹ کا مزہ آتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ میں جھوٹ کا عادی ہو چکا ہوں، مجھے سچ بالکل پسند نہیں، جھوٹ اور جھوٹی دنیا میں رہنے کا جو میٹھا مزہ ہے وہ کڑوے سچ میں کہاں؟ ہاں تو خیر! میں نے کذاب جن سے پوچھا کہ اسلام آباد/ راولپنڈی اور اس کے مضافات میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟

میرے موکل کی پانچویں آنکھ پھر سے پھڑکی، اس نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا، میں یہ بتا سکتا ہوں کہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے کہا، ہوگا تو سب جھوٹ مگر اسے سننے میں کیا حرج ہے؟ کذاب جن نے شاید اس موضوع کی تیاری کر رکھی تھی، اس لئے کہا، یہ سب کچھ دس گیارہ وجوہات کی بنا پر ہو رہا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ عمومی تاثر یہی ہے کہ ایمانداری کے باوجود حکومتی پہیہ چل نہیں رہا، دوسرا نکتۂ اعتراض ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو ہٹانے پر ہوا۔

اقوام متحدہ کی تقریر کے بعد واپسی پر جہاز میں بیٹھتے ہی زلف پجاری نے خان کے کان میں کچھ ایسی پھونک ماری کہ دورے کے دوران کی ساری غلطیوں کا ذمہ دار ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو ٹھہرا کر فارغ کر دیا گیا۔

اندرونی حلقوں میں اس کو پسند نہیں کیا گیا، بلکہ کہا گیا کہ ڈاکٹر لودھی کی خدمات کا یہ ’’صلہ‘‘ مناسب نہیں تھا، تیسرا اختلاف ایک ریٹائرڈ فوجی کی بطور سفیر تقرری پر ہوا، چوتھا معاملہ تہران میں ایک انٹیلی جنس معاہدے پر دستخط کے حوالے سے ہوا، عرب کے شاہی اجلاس میں زلف پجاری کے شریک ہونے پر میزبانوں کو شکوہ ہوا تو اندرونی حلقوں کو بھی اسی نام پر ماتھے میں سلوٹیں نظر آتی ہیں۔

پانچواں ایشو نواز شریف کو علاج کے لئے باہر بھجوانے اور اس میں تاخیر کرنے کا تھا، چھٹا اسی حوالے سے ضمانتی بانڈ پر دو اختلافی آرا کا تھا، ساتواں اور سب سے بڑا معاملہ بہرحال سب سے بڑے صوبے میں دُلہا بھائی کی طرف سے ڈلیوری نہ ہونے کا ہے، آٹھواں اختلاف وزارتِ اطلاعات کے حوالے سے ہے اور یہ معاملہ اندرونی حلقوں نے کئی صحافیوں کو بھی کھل کھلا کر بتایا ہے، نواں مسئلہ روحانی مسائل کی وجہ سے دراڑیں ڈال رہا ہے، دسواں مسئلہ بے لچک رویہ اور گیارواں معاملہ سمجھانے کے باوجود نہ سمجھنے کا ہے۔

کذاب جن یہیں پہنچا تھا کہ میں اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکا اور قہقہہ لگا کر کہا، ارے او جھوٹے! صاف پتا چل رہا ہے کہ یہ سب جھوٹ کا کارخانہ ہے، ان میں سے کوئی بھی بات ٹھیک نہیں لگتی۔

کذاب جن نے ہمیشہ کی طرح جھوٹی قسمیں کھا کر مجھے یقین دلانے کی کوشش کی مگر میں اپنے موکل اور اس کے کذب و افترا سے اچھی طرح واقف ہوں، یہ آسمان سے تارے بھی توڑ لائے تب بھی مجھے یقین نہیں آتا، یہ کذاب جن بہت چالاک ہے، اس لئے اس کے جھوٹ احمقانہ نہیں بلکہ دلکش اور مسحور کن ہوتے ہیں۔

کذاب جن نے جب دیکھا کہ میں اس پر یقین نہیں کر رہا تو کہنے لگا، اے پاگل صحافی تمہیں نہ سیاست کا پتا ہے نہ دنیا کا، سب کچھ میں بتاتا ہوں پھر میری سنائی باتیں لوگوں کو سنا کر تم بقراط بنے پھرتے ہو، مجھے سمجھ آگئی کہ کذاب جن غصے میں ا ٓگیا ہے، میں نے اس کی دلجوئی کی خاطر کہا، مائی ڈیئر کذاب! سنجیدہ باتیں چھوڑو، یہ بتائوکہ گپ شپ کیا ہے؟

کذاب جن کے چہرے پر شگفتگی آئی اور کہنے لگا کہ بنی کھالہ کے گرد و نواح میں کئی جوگی اور جادوگر اکٹھے ہوئے ہیں، کالا جادو اور مقدس جادو دونوں چل رہے ہیں، ایک جھاڑ پھونک کرنے والے نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی تقریر کے دوران نیلا ڈریس اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران سفید لباس اُسی کے مشورے سے پہنا گیا تھا اور ان مخصوص ڈریسز کا مقصد ردِّبلا تھا تاکہ وہ دعائوں کے زیر اثر محفوظ رہے اور نحس سے بچا رہے۔

گپ سناتے ہوئے کذاب جن نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اسے طنزیہ مسکراہٹ نظر آئی تو پلٹ کر مجھے کہا کہ اب اسے بھی جھوٹ نہ سمجھ لینا، یہ سب تو سیاست نہیں بلکہ روحانیت ہے، اس میں تو جھوٹ کی گنجائش تک نہیں۔ میری مسکراہٹ ختم نہ ہوئی تو کذاب جن نے کہا، پاگل صحافی تم ترقی نہیں کر سکتے، آج کل روحانیت کا دور ہے اور تم مادیت کے پرستار۔

پھر کہنے لگا اب تو کوئٹہ، لندن، اور مدینہ منورہ کی طرف چارٹرڈ فلائٹس چلتی ہیں اور روحانیت وہاں سے بھر بھر کر ملک میں لائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی جادو، کوئی جن اور کوئی مخالف، خان کو نقصان نہ پہنچا سکا اور نہ ہی پہنچا سکے گا۔ میری طنزیہ مسکراہٹ ختم نہ ہوئی تو کذاب جن جھلا کر بولا، آٹھ دس دن کی تو بات ہے یہ سب کچھ سامنے آجائے گا، پھر میں قہقہے لگائوں گا اور پاگل صحافی تم منہ چھپائو گے۔

میں نے کذاب جن کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ دنیا اللّٰہ چلاتا ہے، جن نہیں چلاتے۔ سچ صرف خدا ہے باقی سب جھوٹ ہے۔

جو خدا کو منظور ہوگا، وہی ہوگا، یہاں نہ کوئی سدا رہا ہے، نہ کوئی سدا رہے گا۔ سب نے ہی اس دنیا اور اقتدار سے جانا ہے تو پھر اتنا تردّد کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply