ہندوستانی عوام کا دشمن کون ہے؟۔۔۔ابھے کمار

بھارت میں ان دنوں پیاز کی قیمتوں میں زبردست اچھال دیکھنے کو ملا ہے۔ تہوار کے موسم میں اگر رسوئی گھر میں پیاز نہ ہو تو سارا ذائقہ بگڑ جاتا ہے۔ لہٰذا عوام میں غصہ ہونا لازمی ہے۔ ایک طرف جہاں ضروری اشیاء کی قیمتیں ایکسپریس ریل گاڑی کی رفتار سے بڑھ رہی ہیں، وہیں جنتا کی آمدنی پنکچر ہوئی گاڑی کی طرح بیٹھی پڑی ہے۔ مگر افسوس اور مایوسی تب اور بھی بڑھ جاتی ہے جب روزی، روٹی اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ نریندر مودی حکومت کی ناکامی کو چھپانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ برسر اقتدار جماعت بی جے پی اور ان سے وابستہ ہندو شدت پسند طاقتیں یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں  کہ عوام کی پریشانی کے لیے حکومتِ وقت بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اُلٹا،دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ کسانوں نے پیاز کی کاشتکاری کم کی تھی، جو عوام کی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بارش اور سیلاب کا بھی بہانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بہت سارا  پیاز پانی سے برباد ہو گیا، جس کے لیے حکومت کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ہندو شدت پسند تنظیم سے جڑے ایک رکن سے پوچھ ڈالا تھا کہ اگر پیاز کی قیمتوں میں اضافے کے لیے کسان، بارش اور سیلاب ذمّہ دار ہے تو کانگریس کے دور حکومت میں احتجاج کیوں کیے گئے تھے؟جواب دینے کے بجائے انہوں نے کہا کہ پیاز کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پاکستان چلے جائیے!

در حقیقت بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر بھگوا تنظیموں کی اصل طاقت فرقہ پرستی ہے۔جب اُن کے پاس سوال کا جواب نہیں ہوتا تو وہ مسئلے کو کمیونل رنگ دے دیتے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ دن رات پھیلائے جا رہے ان پروپیگنڈ وں  کی وجہ سے بہت سارے عام لوگ بھی بھگوا طاقتوں کی باتیں دوہرا رہے ہیں اور فرقہ پرستی کا کیڑا بڑی تیزی سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دل و دماغ میں بیٹھتا جا رہا ہے۔ آج جو لوگ اپنے آپ کو بھگوا طاقتوں سے دور ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی جانے انجانے ان کے پروپیگنڈے کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں۔

فرقہ پرستی کے مرکز میں مسلم،اسلام ،پاکستان مخالف ایجنڈا ہے۔ فرقہ پرستی کی کہانی میں دیگر ہندو دشمن بھی ہیں، جن کو وقتاً فوقتاً سامنے لایا جاتا ہے۔ کمیونسٹ اور عیسائی کو بھی ہندو سماج اور ملک کا دشمن تصّور کیا جاتا ہے۔ اس ڈسکورس میں ہندو کو “مظلوم” اور “بے سہارا” پیش کیا جا رہا ہے، جو اپنے ہی ملک میں اپنے واجب حق سے دور ہے۔ وہیں دوسری طرف مسلم، عیسائی کو “حملہ آ ور” بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جو بھارت کے اصل باشندے یعنی ہندوؤں کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ پروپیگنڈے کا یہ بھی حصہ ہے کہ کمیونسٹ انقلاب کے نام پر ہندو دھرم، ہندو سماج کے خلاف سازش رچ رہے ہیں اور وہ ہندوستان کے امن و امان کو ختم کرنے کے لیے کافی سرگرم ہیں۔

ان خطرات کو پیش کرنے کے بعد بھگوا طاقتیں خود کو ہندو دھرم اور ہندو سماج اور ملک کا محافظ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ہندو کو مظلوم بنا کر بھگوا طاقتیں اکثریتی ہندو سماج کو اقلیتوں کے خلاف متحد کرنا چاہتی ہیں، جو حقیقت میں خود ذات برادری اور طبقاتی خطوط پر بٹا ہوا  ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست نہ صرف ہندو بلکہ ملک اور عوام کے دشمن ہیں۔ عوام کے دشمن وہ بھی ہیں جو اُن کو غربت میں دھکیل رہے ہیں۔ دشمن وہ بھی ہیں جو عوام کی روزی روٹی کے سوال کو مندر مسجد کے جھگڑے میں تبدیل کر رہے ہیں۔ عوام کے دشمن وہ بھی ہیں جو سماج میں دھرم/مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑا رہے ہیں۔۔فرقہ پرستوں کی پوری سٹریٹجی ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو ہندو مخالف اور مسلم پریمی بنا کر پیش کریں۔

بدقسمتی دیکھیے کہ آج میڈیا اور حکمرانوں کی ساری توانائی پڑوسی ملک پاکستان پر حملے کرنے  میں خرچ ہو جاتا ہے۔ یہ حملہ صرف لفظی ہوتا ہے اور اس سے کوئی مرتا نہیں ہے مگر اس سے عوام کے دلوں کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔

صورت حال کشیدہ کرنے میں ہندوستانی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ دن رات پاکستان سے وابستہ منفی خبروں کو دکھایا جاتا ہے۔ اُن کی کوشش یہ ہے کہ عوام کے دل و دماغ میں نفرت کا زہر ڈال دیا جائے،تاکہ عوام کو اپنی غریبی اور بیروزگاری کا خیال نہ رہے۔ جتنا وقت ہندوستانی ٹی وی چینل اور اخبار پاکستان کی منفی خبروں کو دکھانے میں صَرف کرتے ہیں اس کا اگر ایک تہائی حصہ وہ ہندوستان کی غریبی کے مسئلے کو سامنے لانے میں لگا دیں تو کروڑوں لوگ خط افلاس سے اوپر اٹھ جائیں گے۔ مثال کے طور پر مشہور صحافی سدھارتھ ورد راجن نے ایک سیمینار میں بولتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی نیوز چینل اور اخبار پاکستان سے متعلق منفی خبروں کو سامنے لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ پاکستان میں ٹائمز آف انڈیا کے نمائندے تھے تب انہوں نے پاکستان کی تعلیم سے جڑی ایک مثبت خبر شائع ہونے کے لیے دہلی بھیجی تھی۔ کئی دنوں تک جب یہ خبر اخبار میں جگہ نہیں بنا پائی تو انہوں نے ایڈیٹر سے دریافت کیا۔ جواب ملا کہ جب اخبار میں ہندوستان کی تعلیم کی بہت ساری خبریں نہیں شائع ہو پاتی ہیں، تو پاکستان کی تعلیم کی صورت حال پر خبر لگانے کا وقت اور جگہ کہاں ہے۔

پاکستان کو نشانہ بنانے کے بہانے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرست پاکستان کو مسلمان اسلام سے جوڑ کر یہ دکھلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان، مسلمان اور اسلام ہندو/ہندو دھرم/ ہندوستان کے مخالف ہیں۔ یہ بات کھل کر کوئی نہیں بولتا ہے مگر زمین کے نیچے بہنے والے فرقہ ورانہ کرینٹ کے اندر یہی سوچ کام کرتی ہے۔ کشمیر مسئلہ کے حل میں بھی یہی کمیونل سوچے دِکھ رہی ہے۔ کشمیریوں کے خلاف جو بھی ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اس سے عوام کا دھیان ہٹانے کے لیے اس مسئلے کو ہندو بنام مسلم تنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ سرکار اور بھگوا میڈیا کے ذریعے یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ کشمیری عوام کا ایک بڑا حصہ متشدد ہے، جو ماحول کو بگاڑے ہوئے ہے۔ یہی لوگ 500 روپے لے کر ہندوستانی فوج پر پتھر مارتے ہیں۔ میڈیا اور سرکاری اسکالر یہ بھی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ کشمیر میں چل رہے خون خرابے اور بدامنی کے لیے ایک مخصوص مذہب اور اس کے پیروکار ذمّہ دار ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہاں بھی ہندو اقلیت میں ہوتا ہے وہاں اس کے اوپر مسلمان زیادتی کرتے ہیں، جیسا کہ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ہوا۔

مگر تاریخ اور ذاتی تجر بے ان افواہوں اور پروپیگنڈوں کو مسترد کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تشدد کسی خاص مذہب یا قوم سے وابستہ نہیں ہے۔ ہر قوم میں امن پسند اور فتنہ پرور لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں بھی مختلف ذہنیت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ سب کو ایک ہی رنگ میں رنگنا مناسب نہیں ہے۔ اگر ہندو مذہب میں امن اور عدم تشدد کی بات کرنے والے مہاتما گزرے ہیں تو اونچ نیچ اور تشدد کو جائز ٹھہرنے والے لوگ بھی سامنے آئے ہیں۔ ہندو دھرم کے ماننے والوں اور بدھ دھرم کے پیروکار میں بھی سانپ اور نیولے کی طرح لڑائی ہوئی ہے، جن کے خونی تاریخ پر زیادہ بات نہیں ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرقہ پرست ان تاریخی حقیقتوں کو بھلا دینا چاہتے ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ ساری لڑائی کسی طرح بھی ہندو بنام مسلم کر دی جائے۔ ان کو اس بات کی خوشی فہمی ہے کہ ہندو مسلمان تنازعہ کو بھڑکا کر وہ اپنی سیاسی روٹی پکاتے رہیں گے اور ان کا راج ہمیشہ برقرار رہےگا۔ تبھی تو اُن کی پوری کوشش ہے کہ جو کوئی بھی ان کی ناکامی کی طرف اشارہ کرے گا، اُن کو وہ ہندو اور ملک مخالف قرار دے کر خارج کر دیں گے۔ اقتدار اور میڈیا کی طاقت سے وہ اپنے پروپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ سب رجحانات ہندوستانی جمہوریت کی صحت کے لیے کافی خطرناک ہے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply