موت۔۔عائشہ یاسین

موت ایک اٹل فیصلہ ہے۔ موت ایک حقیقت ہے۔ جس شئے نے زندگی پائی یا وجود کے سانچے میں ڈھالا گیا اس کو وقت مقررہ پر اپنے وجود سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ یہ نظام قدرت ہے۔ جو یہاں اللہ کی رضا سے بھیجا گیا اس کو بہرحال موت کا مزہ چکھنا ہے۔ سارے کام دھندے ادھورے چھوڑ کر ملک الموت کے پیچھے چل دینے کا نام ابدی نیند ہے۔ جب قضا سر پر کھڑی ہوئی ہو تو ایک پل کی مہلت نہیں ملتی۔ زندگی کے سارے امور کسی بچے کے کھلونے کی مانند فرش پر بکھرے پڑے ہوتے ہیں پر ان کھلونوں کو سمیٹ کر اپنی جگہ رکھنے کی اجازت نہیں ملتی۔ سب کچھ ویسا ہی سجا رہ جاتا ہے۔ ہمارے ادھورے کام، رشتے، ناطے، کاروباری مسائل حتی کہ کھانے کی میز پر سجی گرم گرم روٹی اپنی خوشبو سے ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہے پر موت کی مضبوط ڈور ہمیں مکھن میں سے بال کی صورت نکال کر اپنے ہمراہ لے کر نہ ختم ہونے والے سفر پر چل پڑتی ہے۔ عمل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور زیست حساب کتاب کی صورت نامہ اعمال میں ڈھال دی جاتی ہے۔ پوری زندگی کو سمیٹ دیا جاتا ہے۔ دنیا ایک چادر کی صورت تہہ کرکے ہمارے ہاتھوں میں آجاتی ہے اور ہم اپنی سجی سجائی محفل سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ دن بدلتا ہے اور نہ رات۔ کاروبار دنیا اپنے اوقات کے مطابق اپنی رفتار سے آگے بڑھتے رہتے ہیں بس ہم نہیں رہتے اور نہ ہمارے عمل میں ردوّ بدل ہوتا ہے۔ جب دنیا سے رشتہ ٹوٹتا ہے تو ایک پل میں ہم اجنبی ہوجاتے ہیں۔ اس جسم سے جب روح نکلتی ہے تو ہم نہ زید رہتے ہیں نہ بکر۔۔

ہم ایک لاش بن جاتے ہیں ۔ ہم مرحومین میں شامل ہوجاتے ہیں اور لوگ ہمیں ہمارے نام کے بجائے مردہ کا لقب دیتے ہیں۔ جی ہمارا نام بھی معدوم ہوجاتا ہے وہی نام جس پر ہم ساری زندگی فخر کرتے ہیں۔ وہی جسم جس پر ہمیں بڑا ناز ہوتا ہےجسے ہم پوجتے ہیں، سنوارنے ہیں،نئے اور اعلی کپڑوں سے مزیّن  کرتے ہیں۔ مہنگے سے مہنگی خوشبو اور عطر میں نہلائے رکھتے ہیں۔ ہم گھنٹوں اپنی زیبائش کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم خود کو اعلی اور دوسروں کو کمتر جانتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کے وجود سے بڑی گھن آتی ہےمگر جب روح اس جسم میں نہیں ہوتی تو اس جسم کی اہمیت مٹی سے زیادہ نہیں رہتی ۔ ہاں وہی مٹی جس میں ہمیں طرح طرح  کے جراثیم نظر آتے ہیں۔ وہی مٹی جس پر اٹھنے بیٹھنے والے غریب لوگوں سے ہمیں وحشت ہوتی ہے ،وہی مٹی جو اگر ہمارے لباس پر لگ جائے تو ہم کتنی حقارت سے اس کو اپنے وجود سے جھٹک دیتے ہیں ،یہ سوچے بغیر کہ یہ من مٹی کا ،یہ تن مٹی کا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب کہیں پناہ نہیں ملے گی،جب لوگ ہمارے مردہ جسم سے اٹھنے والی بو اور سڑاند سے گھبرا جائیں گے تو یہی ہمیں بانہیں پھیلائے اپنی آغوش میں پناہ دے گی اور ہمارے اندر پلنے والے تمام گند، بد بو، سڑاند اور کیڑے مکوڑوں کو چھپا لے گی۔ ہمارے تمام جسمانی عیب نو من مٹی تلے دب جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو، مٹی ہمیں قبول نہ کرے تو ہمارے جسم کا  گند سب پر ظاہر نہ ہوجائے؟ مگر نہیں ہم ہر اس چیز کو حقیر جان لیتے ہیں جو زمین سے وابستہ ہو۔ ہم اپنے اصل کو بھلائے ساری زندگی فانی دنیا کو رام کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ ہم مال و دولت اور تھوڑی سی شہرت کما کے سمجھتے ہیں کہ ہم معتبر ہوگئے۔ لیکن حقیقت اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم مردہ پڑے دنیا والوں کا تماشا  دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔تب ہمیں اپنی اوقات اور اسٹیٹس کا معلوم چلتا ہے جب دوست رشتہ دار اور اولاد اسی مسجد کے مولوی کو بلا کے خاکی جسم کے ساتھ لا بیٹھاتے ہیں جس کی ہمیں تاحیات قدر نہیں ہوتی۔ ہمارے نزدیک ایک مولوی کی کیاحیثیت ہوتی ہے۔ اس کا کام کیا تھا سارا دن مسجد میں رہ کر بچوں کو قرآن پڑھانا اور نماز پڑھانا۔ ہم کہاں اور یہ مولوی کہاں۔ ہم ٹھہرے اعلی افسر فر فر انگریزی بولنے والے،اس ملک کے معزز انسان، جس کے پاس بنگلا، گاڑی ، بنک بیلنس کے علاوہ ماڈرن بیوی اور برگر بچے ہیں، پر آج جب ہمیں اپنوں کی دعا کی ضرورت ہے تو میری اولاد میرے لئے مغفرت مانگنے کے بجائے مولوی بیٹھا دیتی ہے جو کتنی انہماک سے قرآن پڑھ رہا ہوتا ہے اور میرے حق میں دعا کر رہا ہوتا ہے۔ ظلم تو اس وقت ہوتا ہے جب ہماری قبر تیار کی جارہی ہوتی ہے۔ ہمیں لحد میں اتارا جارہا ہوتا ہے اور قبرستان میں کھڑے دوست رشتےدار اپنے کاروبار اور ہنسی مذاق میں مصروف ہوتے ہیں اور جتنی جلدی ہوسکے ہمیں اس گڑھے میں ڈال کر   چاول  کھانے کی تیاری کرتے ہیں اور ہم اپنے اعمال کو ہاتھ میں تھامے ابد میں داخل ہوجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سچ ہے کہ موت ہی اصل حقیقت ہے۔ یہ زندگی فانی ہے۔ جھوٹ ہے۔ یہ فریب ہے۔ موت ہی ہماری محافظ ہے جو وقت مقررہ سے پہلے نہیں آتی۔ پر ہم زندگی سے ڈرنے کے بجائے موت سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ زندگی تو فقط ایک وقفہ ہے کہ ہم لوٹائے جائیں گے اصل زندگی کی جانب۔ ہم دنیا کے کچے رنگوں میں ایسے رنگ جاتے ہیں کہ اپنی بقا اور مقصدیت کو فراموش کر دیتے ہیں مگر ابلیس اپنا وعدہ نہیں بھولتا۔ وہ آدم کو اصل کی طرف دیکھنے ہی نہیں دیتا اور فراموشی کا نشہ ہم پر غالب رہتا ہے۔ غفلت اور بے حسی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اللہ ہمیں پکارتا رہتا ہے ہمیں اپنا مقصد یاد دلاتا رہتا ہے کبھی غم کی شکل میں تو کبھی بیماری دے کر مگر ہم اس کو یاد کرنے یا اس کی پناہ مانگنے کے بجائے گمراہ ہوجاتے ہیں ۔ہم نا شکری اور بے یقینی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ وہ ہم سے نا امید نہیں ہوتا، جب بھی بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے وہ بڑھ کر اپنے بندے کے دکھ کس مداوہ کرتا ہے۔ اس کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کو معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ اللہ ہی ہے جو ہمارے توبہ کرنے پر ہمیں اور ہمارے اعمال کو بخشتا ہے۔ وہی ہے جو ہمیں قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے پناہ دیتا ہے ورنہ موت کے وقت تو دنیا منہ موڑ لیتی ہے۔ سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ موت سب اصل ظاہر کر دیتی ہے۔ تب ہمیں اپنے رب کے سوا کوئی اپنا نظر نہیں آتا۔ موت بڑی حسین ہے اگر ہم مومن بن کر اس میں داخل ہوں۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ایمان پر قائم رہ سکیں اور مومن بن کر زندگی بسر کریں اور مومن کی موت نصیب ہو۔ اللہ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply