پاکستان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟۔۔۔حسن کرتار

مسئلہ بہت ہی گھمبیر نوعیت کا ہے اسلئے کوشش ہوگی کہ سادہ مختصر اور فوکسڈ باتیں کی جائیں۔
یوں تو پاکستان اپنی پیدائش سے پہلے ہی کا یہ سنتا چلا آ رہا ہے کہ یہ ملک خطرے میں ہے۔ پھر سن اکہتر نے یہ بات درست بھی ثابت کی اور بقول اندرا گاندھی کے دو قومی نظریہ نامی جذباتی بیوقوفی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خلیج بنگال میں غرق ہوگئی۔۔۔

پاکستان اگر کوئی عقلمند ملک ہوتا تو شاید تب ہی سمجھ جاتا اور اپنے آئین اور ملکی سٹرکچر کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرتا۔ بدقسمتی سے بھٹو کے جذباتی ، مفاد پرست اور شارٹ سائیٹڈ فیصلوں پھر ضیاء کی ٹوٹل ڈسٹرکشن پالیسیوں نے ملک کو بجائے آگے لے جانے کے مزید پاتال کی طرف دھکیل دیا۔۔۔ یہ پاتال گہری ہوتی گئی  ہوتی گئی  اور آج اتنی گہری ہو چکی ہے کہ آج کل ہر پاکستانی سمیت فوج کے بڑے افسران بھی سمجھتے ہیں اور اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔۔۔
اور اگر انٹرنیشنل پالیٹکس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سو فیصد درست بھی نظر آتی ہے۔۔۔ رائٹر کی ادھر اودھر سے لی گئی  اہم معلومات کے مطابق فوج اس وقت موجود آپشنز پر سوچ رہی ہے۔۔۔

1۔مختصر سا مارشل لاء لگا کر نہ صرف کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کیا جائے بلکہ ملک کا آئین بھی سیکولر کر کے اور مزید صوبے بنا کر الیکشن کروا دیئے جائیں۔۔۔
2۔یہی سب کچھ کراویا جاۓ مگر ٹیکنو کریٹس کی حکومت سے یا پھر سے زرداری شریف الائنس کو واپس لا کے۔۔۔
جبکہ بڑی طاقتیں ان دو پوائنٹس پر سوچ رہی ہیں۔۔۔
1۔پاکستان کو سیکولر اور مضبوط ملک بنایا جائے
2۔پاکستان کو تین چار ملکوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یا پنجاب اور سندھ انڈیا۔ کے پی کے افغانستان کو دے دیا جائے اور بلوچستان اور کشمیر کو علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنا دیا جائے۔ یا کچھ کشمیر انڈیا کے حوالے کر دیا جائے اور کچھ بلوچستان ایران کے حوالے کر دیا جائے۔۔۔
جو لوگ انٹرنیشنل پالیٹکس کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں یا انٹرنیشنل شخصیات کے ساتھ روابط میں رہتے ہیں بخوبی جانتے ہونگے کہ یہ لوگ پاکستان کو “لوسٹ کیس”کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کا اب کچھ نہیں ہوسکتا اور تباہی بربادی اس کا مقدر ہے۔۔۔

یہاں آپ کے ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہو رہے ہونگے کہ یہ سب اتنی آسانی سے کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔
تو اس کے ممکنہ جوابات یہ ہیں۔۔۔
1۔پاکستان جیسے ملکوں میں انارکی پھیلانا بہت آسان ہوتا ہے۔ بس چند دھماکے کروا دو۔ ڈالر کو اتنا اونچا لے جاؤ کہ معیشت بالکل تباہ ہو جائے۔ مہنگائی آسمان تک پہنچا دو۔ اس کے بعد آپ خود دیکھیں گے کہ آپ لوگ کیسے چھوٹی چھوٹی چیزوں کیلئے بلک رہے ہونگے۔ لوگ ذخیرہ اندوزی شروع کردیں گے۔ لوٹ مار شروع ہو جائے گی اور ایک ایسی انارکی پھیلائی گی کہ پھر شاید کئی  سال کا  عرصہ لگے اس سے نکلنے میں۔۔۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی فوجیوں کو خریدا نہیں جا سکتا تو وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے۔ شدید مشکل حالات میں یہ سارے نہیں تو انکی اکثریت بک جائے گی اور پھر وہی کرے گی جو جو ان سے کروایا جائے گا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان مسائل کا کیا حل ہے؟
1۔ بطور پاکستانی ہر مسئلے کی طرح اس اہم مسئلے کو بھی سیریسلی نہ لیا جائے بس یہی سمجھا جائے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔
2۔ جنگی بنیادوں پر اہم تبدیلیاں لائی  جائیں مثلا ً آئین سیکولر کیا جائے۔ بلوچستان کو مکمل خودمختاری دی جائے۔ تین چار اور صوبے بنا کر فیڈریشن کو مضبوط بنایا جائے اور کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے چاہے اس کیلئے فوجیں پیچھے ہٹانے کی پہل پاکستان کو ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
3۔ اس کے علاوہ اور کئی  ممکنہ حل ہو سکتے ہیں جو میرے خیال میں ہمارے پالیسی میکرز اگر تھوڑا سا بھی دماغ رکھتے ہیں تو ضرور واقف ہونگے کہ جدید دنیا میں کیسے ایک ملک کو ٹریک پہ ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں بھی کوئی مفید حل یا تجاویز ہیں تو ضرور دیجئے کہ یہ صرف ملکی بقا ء کا مسئلہ نہیں ہم سب کی بھی بقا ء کا مسئلہ ہے۔ شدید حالات میں ان تمام بڑے لوگوں نے یا پھانسیاں چڑھ جانا ہے یا بیرون ملک بھاگ جانا ہے۔ پیچھے تباہی بربادی ہم لوگوں اور ہمارے بچوں نے ہی بھگتنی ہے۔۔۔۔
یہاں سب سے اہم بات جو ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ یہ ملک اگر تقسیم در تقسیم بھی ہوگیا تو بھی ہم لوگ آپس میں ہمساۓ ہی ہونگے۔ اور کسی نہ کسی پوائنٹ پہ آ کر ہمیں آپس میں صلح کرنی ہی پڑے گی کیونکہ جدید دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے تجارتی اور ویزہ فری تعلقات فروغ دیئے بغیر ترقی کرسکیں۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply