مذہب کا چورن بیچتے مسلمان/حبیب خواجہ

کیا آپ نے کبھی اسلام آباد، کراچی یا لاہور کے پوش ایریا میں کسی مصروف چوک یا شاہراہ پر لوگوں کو باجماعت نماز پڑھتے دیکھا ہے؟

کبھی نہیں دیکھا ہو گا، مگر کچھ عرصہ قبل جب اندرون شہر کی چھوٹی چھوٹی مساجد جمعہ کے روز تنگ پڑ جاتیں تو ملحقہ گلیوں میں ایک دو صفیں نمازیوں کی بن جاتی تھیں، جو صرف دس منٹ کا کام ہوتا تھا، اور جلد ہی کام نمٹا لیا جاتا تھا۔ان دنوں  جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی، یوں ساتھ مارکیٹ ہوتی بھی تو کاروباری لوگوں کو مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔

مگر کچھ عرصے سے یورپ کی گلیوں، پارکوں، مارکیٹوں، ائیرپورٹوں یا کسی بھی ایسے عوامی رش کے مقامات پر کچھ توجہ حاصل کرنے کے بھوکے (attention seeker type) لوگ کہیں بھی عام لوگوں کے بیچ نیت باندھ کر نماز پڑھنے لگتے ہیں۔شاید آزادی کے اس غلط استعمال پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں،جبکہ کچھ لوگ اس کی ویڈیو بنا کر اس فعل کو مزید گلیمرائز  کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حالانکہ ان مقامات پر ایک طرف، الگ تھلگ، کچھ علیحدہ جگہیں بھی ہوتی ہیں، جہاں آسانی سے کسی کو تنگ کئے بغیر، اور اپنے کسی مذہبی ہرج کے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، مگر یوں انہیں اپنی آزادی کا کیسے معلوم ہو؟ یا ان کی وڈیو بھلا کیسے وائرل ہو؟

جہاز کے اندر کی وڈیو بھی دیکھ رکھی ہے، جہاں شدید قسم کے موذی ایمان والوں کو نماز کا زور آیا ہوتا ہے تو باقی کے غیر مسلم لوگ ایک طرف دبکے ہوئے سہمے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں، حالانکہ جہاز کے اندر نماز نشست پر بھی ادا ہو سکتی ہے، مگر تگڑے اور شرارتی ایمان والوں کا کیا کہیے۔

آج ایک وڈیو دیکھی ہے، جس میں امریکہ کے شہر نیو یارک کے انتہائی مصروف ترین کاروباری و سیاحتی و  مرکزی مقام Time Square پر رش کے اوقات کار کے دوران مسلمان بھائیوں کا ایک جتھہ باجماعت نماز تراویح پڑھ رہا ہے۔

چکاچوند روشنیوں کے بیچ گزرگاہ کی ایسی جگہ جہاں ارد گرد، سامنے اور پیچھے دیوقامت سکرینیں آویزاں ہوں، جن میں جانوروں اور ماڈلوں کی قابل اعتراض تصاویر بھی دکھائی جا رہی ہوں، بھلا عبادت کیلئے کیسے موزوں ہو سکتی ہے؟ کئی مسلمان اور غیر مسلم لوگ موبائل کیمروں کے استعمال سے اس سب کارروائی کی وڈیوز بھی بنا رہے ہیں،یہ  عبادت ہے؟ یا ایک اقلیت کا اکثریت کے بیچ ایک سیاسی اسٹنٹ ہے؟

سیکیولر مغرب میں آزادی کا یہ انتہائی، غیر ضروری، غلط اور بھونڈا استعمال ہے، جس کے کچھ مضمرات بھی بہرحال یقینی ہیں۔ گو وہاں اکثریت دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتی اور مذاہب کے بیچ تعصب روا نہیں رکھتی، مگر کچھ “پیندیسری” قسم کے لوگ بہرحال وہاں بھی ہوتے ہیں، جو اس قسم کی سیاسی خرافات کی ٹوہ میں ہوتے ہیں، تاکہ نفرت و تعصب کے اپنے ایجنڈے کو فروغ دے سکیں۔

ہم خود ہی بیل کو بلاتے ہیں کہ آ ہمیں مار! اور ایسا سب کچھ کرتے ہیں، جو اپنے ملک میں بھی نہیں کر سکتے،مگر جب جواب آتا ہے تو پھر ہمیں اسلامو فوبیا یاد آ جاتا ہے۔

انہوں نے اگر حکام سے پیشگی اجازت لے بھی رکھی ہو تب بھی یوں نظروں میں آنا مناسب ہرگز نہیں، ان ممالک میں اسلام گھروں اور مساجد کی چار دیواری کے اندر تک ہی محدود رہے تو سبھی کیلئے ہی بہتر ہو گا، بہت باہر نکلا تو نفرت بڑھے گی، تعصب پھیلے گا، کیونکہ وہ مذہب کو یوں گلیوں چوراہوں میں نہیں لاتے، مسلمان اقلیت ہیں،اسی لئے وہ لوگ قدرے برداشت بھی کر رہے ہیں،لیکن ہر چیز کی بہرحال ایک حد ہوتی ہے،ہم یونہی اسٹنٹ نہ  ہی بنائیں تو سب کیلئے اچھا ہے۔

تراویح ایک نفل عبادت ہے، جو خصوصاً ان ممالک میں گھروں یا مساجد میں ہی پڑھنی چاہیے،چوکوں چوراہوں اور مصروف مرکزی کاروباری مقامات پر تو اسلامی ممالک میں بھی نماز نہیں پڑھی جاتی، تراویح تو دور کی بات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ اسلام کو ایسے مسلمانوں سے بچائے، دنیا کو ایسے  لوگوں کے فتنے سے بچائے، آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مذہب کا چورن بیچتے مسلمان/حبیب خواجہ

Leave a Reply