بے وقوف مالیکیول ۔ جین (8) ۔۔وہاراامباکر

جین کیا ہے؟ یہ نامعلوم تھا۔ شروڈنگر نے یہ خیال 1944 میں پیش کیا تھا کہ جین ایک ہوشیار کیمیکل ہے۔ ان کی مشہور کتاب “زندگی کیا ہے؟” میں شروڈنگر نے خیال یش کیا تھا کہ جین ایک خاص قسم کا مالیکیول ہے جو تضادات سے بھرپور ہے۔ ترتیب والا ۔۔۔ تا کہ تقسیم ہو سکے اور آگے بڑھ سکے۔ بغیر ترتیب والا ۔۔۔ تا کہ زندگی کا تنوع آ سکے۔ انفارمیشن کا وسیع ذخیرہ لئے ۔۔۔ تا کہ اس سے جاندار بن سکے۔ چھوٹا سا ۔۔۔۔ تا کہ خلیے میں پورا آ سکے۔

شروڈنگر نے تصور کیا کہ یہ ایک کیمیکل ہے جس کے بہت سے کیمیکل بانڈ ہیں جو کروموزوم کے فائبر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی کوڈ ہے جو لکھا ہوا ہے۔ جیسے تسبیح کے دانے ہوں اور اس پر زندگی کا خفیہ کوڈ۔

یہ بھی پڑھیں :مکھیوں کے ایکسرے ۔ جین (7) ۔۔وہاراامباکر

یکسانیت اور فرق، ترتیب اور تنوع، پیغام اور مادے ۔۔۔ شروڈنگر ایک کیمیکل کا سوچ رہے تھے جو ان الگ خاصیتیوں کا حامل ہو۔ وراثت کے لئے متضاد کوالیٹیز رکھتا ہو۔ ایک مالیکیول جو ارسطو کو بھی مطمئن کر دے۔ اپنے ذہن کے آنکھ سے شروڈنگر گویا ڈی این اے کو دیکھ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمنی سائنس کے علم میں دنیا سے آگے تھا۔ نازی ازم نے اس کی برتری کو شدید دھچکا پہنچایا تھا۔ اپریل 1933 میں سرکاری یونیورسٹیوں نے تمام یہودی اساتذہ برطرف کر دئے۔ خطرہ محسوس کرتے ہوئے بہت سے یہودی سائنسدان دوسرے ممالک کی طرف نکل گئے۔ آئن سٹائن 1933 میں۔ کریبس بھی اسی سال۔ بائیو کیمسٹ ارنسٹ چین اور فزیولوجسٹ میکس پیروٹز کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔ کئی دوسرے سائنسدان جن کے لئے اس قسم کی صورتحال میں کام کرنا ان کے لئے ضمیر کا معاملہ تھا، وہ بھی جرمنی چھوڑ گئے۔ ارون شروڈنگر اور نیوکلئیر کیمسٹ میکس ڈلبرک ان میں سے تھے۔ ہرمن میولر سوویت یونین چلے گئے۔ بہت سے سائنسدان جرمنی میں کام بھی کرتے رہے اور سنتھیٹک آئل، جیٹ طیارے، راکٹ اور ایٹم بم جیسے منصوبوں پر بھی کام چلتا رہا لیکن جرمنی نے اپنی برتری نسلی تعصب کی پالیسیوں کی وجہ سے کھو دی تھی۔

جرمنی کا نقصان جینیات کی سائنس کا فائدہ تھا۔ مورگن کے کام نے کروموزوم پر ان کی پوزیشن دریافت کی۔ گرفتھ اور میولر کے تجربات نے اس کی میٹیریل سائنس بننے کی راہ کھولی۔ ایک کیمیکل جس کو ایکسرے کے ذریعے سٹڈی کیا جا سکتا ہے۔ سائنس پر کام آگے چلتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کروماٹن ۔ وہ بائیولوجیکل سٹرکچر جہاں جین رہتے ہیں ۔ کے بارے میں علم تھا کہ یہ پروٹین اور نیوکلیئک ایسڈ سے بنا ہے۔ کسی کو اس کے کیمیکل سٹرکچر کی سمجھ نہیں تھی۔ بائیولوجسٹ پروٹین کو جانتے تھے۔ ان کے کارناموں سے واقفیت تھی۔ خیال یہی تھا کہ یہ والے پروٹین ہیں جو جین کے کیرئیر ہیں۔ آخر، ایک خلیے کے بیشتر فنکشن پروٹین ہی تو کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں نیوکلئیک ایسڈ بائیوکیمیکل دنیا کے تاریک گھوڑے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوئٹزرلینڈ کے بائیو کیمسٹ مائیشر نے خلیے میں مالیکیولز کی نئی کلاس دریافت کی تھی۔ وہ خلیے کو توڑ کر اس سے نکلنے والے کیمیکل کا تجزیہ کر رہے تھے۔ ایک کیمیکل نے ان کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ پیپ والی پٹیوں سے انہوں نے خون کے سفید خلیوں میں اسے الگ کیا تھا اور بالکل ویسا ہی کیمیکل انہیں سالمن مچھلی کے سپرم میں ملا تھا۔ تیزابی خاصیت رکھنے والے اس کیمیکل کا نام نیوکلئیک ایسڈ رکھا گیا تھا کیونکہ یہ نیوکلئیس میں پایا جاتا تھا۔ یہ کرتا کیا تھا؟ اس کا علم نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بائیوکیمسٹ نیوکلیک ایسڈ کے بارے میں جاننے لگے تھے۔ یہ دو اقسام میں پایا جاتا تھا۔ ڈی این اے اور آر این اے جو دونوں مالیکیولر رشتہ دار تھے۔ دونوں لمبی زنجیروں کی شک میں تھے جس میں چار اجزا تھے۔ یہ چار بیس تھے جو ایک دھاگے نما زنجیر میں بندھے ہوئے تھے۔ ایڈینین، گوانین، سائٹوسین اور تھائیمین ڈین این اے میں۔ ان کو A, C, G, T کہا گیا۔ آر این اے میں تھائمین کی جگہ پر یوراسل تھی، ان کی تخفیف A, C, G, U ہوئی۔ اس سے زیادہ ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

راک فیلر یونیورسٹی کے بائیوکیمسٹ لیوین نے اندازہ لگایا کہ یہ چاروں بیس ایک ہی ترتیب میں بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔ AGCT AGCT AGCT اور یہی کچھ ان گنت بار۔ بار بار دہرائے جانے والے اس سٹرکچر کو لیوین نے “بے وقوف مالیکیول” کا نام دیا۔

لیوین نے جو سٹرکچر بتایا تھا اس کو دیکھنے ساتھ ہی پتا لگ جاتا تھا کہ ڈی این اے کا جینیاتی انفارمیشن سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ بے وقوف مالیکیول ہوشیار پیغام رسانی نہیں کر سکتے۔ شروڈنگر نے جس خوبصورت کیمیکل کا تصور کیا تھا، وہ یہ نہیں نہ صرف بے وقوف ہے بلکہ بورنگ بھی۔ اس کے مقابلے میں پروٹین۔ متنوع، کام کرنے والے، کئی جگہوں میں استعمال ہونے والے۔ شکلیں تبدیل کرنے والے، کرتب دکھانے والے اس سے کہیں زیادہ دلچسپ تھے۔ مورگن نے تجویز کیا کہ ڈی این اے ایک دھاگے کی طرح ہے جس پر پروٹین ایکٹو اجزاء ہیں۔ نیوکلئیک ایسڈ ان کو سٹرکچر دیتا ہے۔ وراثت کا کام پروٹینز کا ہے۔ تو بس ان کی لڑی بنانے کے لئے ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایوری ایک مائیکروبائیولوجسٹ تھے۔ انہوں نے گرفتھ کا تجربہ 1940 میں دہرا کر دیکھا۔ نتائج وہی نکلے۔ (اس کی تفصیل نیچے لنک سے۔ مختصر خلاصہ یہ کہ ایک بیکٹیریا دوسرے مردہ بیکٹیریا کی باقیات سے کچھ جینیاتی مواد لے کر اپنی شکل بدل لیتا ہے۔ ایوری جاننا چاہ رہے تھے کہ باقیات کا وہ حصہ کونسا ہے)۔

لیکن یہ کیمیکل کیا تھا؟ ایوری نے اس تجربے میں ویسی چھیڑ چھاڑ کی جو کوئی ماہر مائیکروبائیولوجسٹ ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے بیکٹیریا کئی طرح کے ماحول میں پروان چڑھائے۔ اس میں گائے کے دل کی یخنی کا اضافہ کیا۔ آلودہ شوگر نکالنے اور رکابی میں کالونیاں بنا لیں۔

ابتدائی تیاری بہت اہم تھی جس میں وہ بیکٹیریا کی ٹرانسفورمیشن کا ری ایکشن ایک فلاسک میں کر سکتے تھے۔ اکتوبر تک وہ اس قابل ہو گئے کہ بیکٹیریا کے ملبے کا تجزیہ کر سکیں۔ ہر کیمیکل کی شناخت کر سکیں۔ اب وہ تجزیہ کر سکتے تھے کہ آخر کونسی چیز ہے جو دوسرے بیکٹیریا کو بدل دیتی ہے۔

پہلے اس ملبے میں سے بیکٹیریا کے کوٹ کے حصے ہٹا دئے۔ ٹرانسفورم ہونے کی صلاحیت ابھی بھی موجود رہی۔ اس کے بعد بیکٹیریا کے لِپڈ کو الکوحل میں حل کر دیا۔ اس صلاحیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کچھ پروٹین کو کلوروفارم میں حل کر دیا۔ صلاحیت برقرار رہی۔ کچھ کو انزائم کے ساتھ ہضم کروا دیا۔ ایکٹیویٹی ویسے ہی رہی۔ اس میٹیریل کا درجہ حرارت 65 ڈگری کر دیا جس سے پروٹین اپنی شکل کھو دیتے ہیں۔ کھردری سطح والے بیکٹیریا اس ملبے کی مدد سے بھی خود کو تبدیل کر لیتے تھے۔ ملبے میں تیزاب کا اضافہ کیا، جو پروٹین کو بستہ کر دیتا ہے۔ نہیں، اس سے بھی فرق نہیں پڑا۔ یہ تجربات بہت ہی باریک بینی اور احتیاط سے کئے جا رہے تھے۔ ٹرانسفورمیشن کا تعلق نہ شوگر سے تھا، نہ لپڈ سے اور نہ پروٹین سے۔ پھر یہ کیا تھا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو بچا تھا اس کو فریز کیا جا سکتا تھا۔ الکوحل میں حل نہیں ہوتا تھا اور سفید ریشوں کی طرح نیچے بیٹھ جاتا تھا۔ شیشے کی ڈنڈی کے گرد دھاگے کی طرح لپٹ جاتا تھا۔ اس میں ایک انزائم ڈالی گئی جو آر این اے کو ہضم کر لیتی تھی۔ ابھی بھی کچھ اثر نہیں ہوا۔ جس چیز نے یہ ٹرانسفورمیشن روک دی، وہ ایک انزائم تھی جو ڈی این اے کو خراب کر دیتی تھی۔

ڈی این اے؟ کیا ڈی این اے جینیاتی انفارمیشن کا کیرئیر تھا؟ کیا یہ بے وقوف مالیکیول بائیولوجی کی سب سے پیچیدہ انفارمیشن کی جگہ تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایوری اور ان کے دو ساتھیوں نے تجربات کا تانتا باندھ دیا۔ الٹراوائلٹ شعاعیں، کیمیکل انالیسس، الیکٹروفوریسز۔ ہر طریقے سے جواب واضح تھا۔ ہاں، یہ جینیاتی انفارمیشن ڈی این اے میں تھی۔

ایوری نے 1943 میں ابھی بھائی کو خط میں لکھا۔ “اگر ہم ٹھیک ہیں ۔۔۔ اور ابھی ہم آخری نتیجے تک نہیں پہنچے ۔۔۔ تو نیوکلئیک ایسڈ کا صرف سٹرکچر اہم نہیں۔ یہ فنکشنل لحاظ سے ایکٹو ہیں۔ وراثتی تبدیلیاں ان کی بدولت ہیں۔ لیکن ابھی جلدی میں کچھ شائع کرنا غلط ہو گا۔ اگر بعد میں اسے واپس لینا پڑ گیا تو شدید شرمندگی کا باعث ہو گا۔ ہم پہلے اچھی طرح تسلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی دریافت ماہرینِ حیاتیات کا خواب تھا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

اوسوالڈ ایوری کا پیپر 1944 میں شائع ہوا۔ ایوری نے جین کا میٹیریل تلاش کر لیا تھا۔ وہ کپڑا جس سے جینز کاٹی جاتی ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply