عادلِ شہر ترے عدل کے معیار پہ تُھو۔۔۔سطح جالندھری

بہت شور سنا تھا کہ حاکم وقت قطر سےتشریف لائیں گےاور بس پھرانصاف کا بول بالا ہوگا۔ کوئی ہے جو انہیں ہلا جُلا کر اطلاع دے سکےکہ حضور! اس سانحہ کے یتیموں کو آپ نے جو امید کے جگنوتھمائے تھےوہ آج دم توڑ گئے ہیں۔ اٹھیے حضور! ان کی تدفین ہورہی ہے۔ آپ بھی بذریعہ ٹویٹر تعزیت کرلیں۔ایک دو مٹھی الفاظ ڈال دیں۔ مگر خدارا گالم گلوچ سے ذرا پرہیز کرلیجیےگا ۔گوچھٹتی نہیں  منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔۔۔پھر بھی ایک تو یہ موقع نہیں کہ امیج خراب ہوگا اور دوسرا ان معصوموں کا اخلاق خراب ہوگا جن کے ماں باپ “نامعلوم ” گولیوں کا شکار ہوگئے-

کوئی ذرا ان موجودہ اراکین اسمبلی کو بھی اس انصاف کی خبر سنا دیں جو اپوزیشن میں ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ جس کا قاتل نامعلوم ہو اسکا قاتل حکمران ہوتا ہےاور ہراندھےقتل کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے۔

اب انہیں کوئی بتادے کہ صلاح الدین کو شدید ذہنی مریض ہونے اورگھروالوں کی طرف سے بازو پر لکھی گئی اسکی ذہنی حالت کے باوجود بے رحمی سےماردیا گیااور مارنے والوں کو ” بخشوا” بھی لیا گیاہے۔۔کیسے؟ یہ ایک مقدس راز ہے جوسب پر عیاں ہے پھر بھی نہاں ہے!

اب سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کاخون بھی نام نہاد انصاف کی بھینٹ چڑھادیا گیا ہے،کبھی” غداروں کےیار”فیض نےغرباء کے اسی لاوارث خون کا مرثیہ لکھاتھا
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل، نہ آ ستیں پہ نشاں
نہ سرُخیِ لبِ خنجر، نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ، نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرفِ خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ د یں کی نذر کہ بیعا نہ ء  جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو، کہ مشتہر ہوتا
پکارتار ہابے آ سرا ، یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدّعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون  خاکِ  نشیناں تھارِزقِ خاک ہوا!

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے مرثیے لکھنے والے بھی اب نہیں کہ یہاں اب نازک مزاج صاحبان اقتدارہیں(اصلی اور پتلی دونوں ہی )اسی لئے وطن عزیز میں اب ایسے ہمدردوں کی گنجائش نہیں جو مرثیے لکھتے لکھتےنجانے کب ظلم پرسوال ا ٹھانےلگ جائیں کیونکہ اپنے یہاں تو’ چلی ہےرسم کہ کوئی سوال نہ کرے’۔کہ سوال اٹھانےوالے اب یوں اٹھ جاتے کہ پھراپنے پیچھےسینکڑوں بلکتےسوال چھوڑجاتے ہیں,وہ تو شکر ہے فرازاحمدفراز بھلے وقتوں میں چلے گئےورنہ یہ کہنے کے جرم میں وہاں ہوتے جہاں سب نے ایک دن جانا ہے
پھروہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھرہوئی عام, وہی اہل ریا کی باتیں
نعرہ حب وطن مال تجارت کی طرح
جنس ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں
سوزندہ تو”نظرچراکےاورجسم وجاں بچاکے ” شاہراہ زیست پہ گزرتے چلے جارہے ہیں مگر یہ مرنے والے غضب کے دلیر ہوگئے ہیں،انہیں اب ایسے حب الوطنی کےکسی تمغے کی ضرورت باقی نہیں رہی جسے دینے والوں کی اپنی حب الوطنی مشکوک ہو!
سودوزیاں کے کھیل سے نکل کراب یہ فضاؤں میں سرعام نوحہ کناں ہیں ۔عدل کا تابوت لئےپھرتےہیں کہتےہیں یہ بھی ہماری طرح مظلوم ہے،ہمیں توپھر رونےوالے موجودہیں اس بیچارےکےتووارثان عدل نے خود چند ٹکوں کےلئے ٹکڑے ٹکڑےکیے ہیں۔
اوراب تویہ سرپھرے سب کے ذہنوں کےبند دریچےاپنےسوالوں کی کلہاڑی سے توڑرہےہیں کہ یہ خاموشیوں کے سلسلے آخر کب تک؟
کب تک اندھے قانون کی پیاس ہمارے لہو سے بجھائی جاۓگی؟؟
کب تک اس مورال کی قربان گاہ پرلاشیں سجائی جائیں گی؟
کب تک اپنے ہی لوگوں کو چاندی ماری کا نشانہ بنایا جائےگا؟
کب تک افلاس کو ایوان انصاف سے دھکے دیکر نکالنے کا سلسلہ جاری رہے گا؟
کب تک عدل کی تلوار صرف غریب کا سر قلم کرے گی ؟
کب وہ وقت آئے گا جب کسی زورآور کے سر پر “مقدس ہتھوڑا” برسےگا؟
کب تک ہم سے “عوام” ہونے کا خراج لیاجاتا رہےگا؟
کب عام آدمی کےخون کا رنگ بھی سرخ مانا جائےگا؟
کب تک راجہ کےایوانوں میں پرجا کی ہمدردی ممنوع ہوگی؟
کب تک اس دیس میں راہزن کو راہبر بتایا جائےگا؟
کب تک قاضی کی دہلیز پہ نوٹ بکھرے رہیں گے؟
کب تک عوام کے قاتل نامعلوم رہیں گے؟
کب تک غریبوں سے قاتلوں کو معافی دلوائی جاۓگی؟
کب تک شک کے فائدے,ناکافی ثبوت, ویڈیو ریکارڈنگ کےباوجود, محکمہ جاتی ریکارڈ کےباوجود۔۔۔گواہوں کی عدم دستیابی کاڈھونگ رچایا جائےگا؟
کب تک عدل کے ترازو پہ بےگناہی کا فیصلہ دولت کے باٹ سے ہوگا ؟
ان مرنےوالوں میں سےچند ذرا سنجیدہ مزاج تو بس یہ مطالبہ کررہے ہیں
انصاف کےتقاضےجوکرسکےنہ پورا
ایسی عدالتوں کےمنصف کو بھی سزادو
مگر کچھ دل جلے ایسی آوازیں بھی بلند کررہے ہیں جو بلا امتیاز سبھی کے لئے ہیں۔
جس کے پلّو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ
ایسی دربار سے بخشی ہوئی دستار پہ تُھو
جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کا ٹتی ہو
ایسی تلوار مع، صاحبِ تلوار پہ تُھو
شہر آشوب زدہ ، اُس پہ قصیدہ گوئی
گنبدِ دہر کے اس پالتو فنکار پہ تُھو
سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسّر ہو خوشی
ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تُھو
روزِ اوّل سے جو غیروں کا وفادار رہا
شہرِ بد بخت کے اُس دوغلےکردار پہ تُھو
زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور
عادلِ شہر ترے عدل کے معیار پہ تُھو
کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تری دانش نے
اے عدو ساز ، تری دانشِ بیمار پہ تُھو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply