شرکت کرنا ہمارا”مکالمہ کانفرنس” میں (1)

شرکت کرنا ہمارا”مکالمہ کانفرنس” میں (1)
17دسمبر 2016کو پنجابی کمپلیکس قذافی سٹیڈیم لاہور میں “مکالمہ کانفرنس” میں شرکت رہی ۔ یہ کانفرنس “مکالمہ” کے عنوان سے قائم ویب سائیٹ کے چیف ایڈیٹر جناب انعام رانا اور ان کی ٹیم کی جانب سے ترتیب دی گئی تھی۔یہ کانفرنس ایک طرف سوشل میڈیا کی طاقت اور اس کے اثرات کا ایک بھرپور اظہار تھی اور دوسری طرف لوگوں کی مکالمے ، ایک دوسرے کی تفہیم اور اختلاف و تنوع کو برداشت کرنے سے متعلق دل چسپی کا خوب صورت مظہر۔ملک کے طول و عرض سےشوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا، بہ طورِ خاص “مکالمہ” اور اس سے متعلق افراد کی یک بڑی تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی۔ہم کوشش کریں گے کہ کانفرنس سے متعلق کچھ تاثرات ہلکے پھلکے انداز سے آپ کی خدمت میں پیش کریں:
کانفرنس کے روحِ رواں جناب انعام رانا نے 16 دسمبر کی رات ہمیں ٹیلی فون کر کے حکم فرمایا تھا کہ دو بجے کا ٹائم ہے، اورآپ کی تقریر سب سے پہلے ہے،آپ ڈیڑھ بجے تک لازماً پہنچ جایے گا۔ (یہ وضاحت رانا صاحب پہلے ہی فرما چکے تھے کہ وقت کی پابندی پاکستان نہیں، رانا صاحب کے “حاضر سروس” وطن لندن کے طریقے کے مطابق ہو گی)۔اب رانے بے چارے کو کیا معلوم تھا کہ ہم کمٹمنٹ اور ٹائم پر پہنچنے کے معاملے میں کتنے حساس واقع ہوئے ہیں! ہم جو پہلے ہی کانفرنس میں شرکت کے معاملے کو بہتریں قومی مفاد میں اتنا سیریس لے چکے تھے کہ بہت دفعہ رات کو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے تھے کہ کہیں صبح 17 دسمبر تو نہیں،اب کیا تھا، گھر میں “سب سے پہلے” 17دسمبر کے لیے ایمرجینسی لگا دی ، ویسے ہی جیسے جنرل پرویز مشرف نے” سب سے پہلے پاکستان” کے نظریے میں رکاوٹ ڈالنے والی عدلیہ کو سبق سکھانے کے لیے لگائی تھی ۔ دل میں تھا کہ سرگودھے سے نو بجے نکلیں گے ،لیکن گھر والوں کوہائی الرٹ کر رکھا تھاکہ اپن کو سات بجے تک تمام لوازمات کے ساتھ ریڈی کر دیا جائے۔مسجد میں پھنسے ہوئے مومن کی طرح رات خدا خدا کر کے کاٹی اوربھاگم بھاگ صبح نو بجےوالی ڈائیوو پر سوار ہوگئے۔ اس طرح کے کئی سفروں سے ہوتا آ رہا ہے کہ ہم ایک کتاب بیگ میں رکھ لیتے ہیں کہ چلو گھر اور یونی ورسٹی میں تو ٹائم نہیں ملتا، گاڑی میں بیٹھ کر پڑ ھ لیں گے، مگر مجال ہے جو آج تک اس کو کھولنے کا موقع ملا ہو۔ اب سارا قصور اس میں ہمارا بھی نہیں،گاڑی میں بیٹھ کر یہ بھی تو سوچنا ہوتا ہے کہ جہاں مقرر کے طور پر جارہے ہیں وہاں کہنا کیا ہے؟”مکالمہ کانفرنس ” کے لیے جاتے ہوئے بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ خیر! رکھی ہوئی کتاب کو تو حسب ِ معمول چھیڑنا مناسب نہ سمجھا، البتہ کاغذ قلم نکالا کہ چلو غیب سے کوئی مضامین خیال میں آئےتو الٹے سیدھے،جیسے بن پڑے کچھ اشارات لکھ لیں گے اور انہی پر سپیچ کھڑکا دیں گے۔(جب آپ نے پڑھنا نہ ہو تو تقریر غیب سے آنے والے مضامین ہی سے تیار کرنی پڑھتی ہے، اور غیب پر ایسا ایمان رکھنے والوں کو غیب سے مضامین آتے بھی بہت ہیں)
گاڑی کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر کے منظر کو دیکھا اور کتابوں میں شاہین کے ساتھ بنی اقبال کی تصویر کی طرح تفکر کا موڈ بناتے ہوئے، غیب کی طرف متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ غالب سے بھی زیادہ مضامیں غیب سے خیال میں اتر رہے ہیں ۔ایک سمندرہے کہ چڑھا آرہا ہے؛ نوائے سروش ہے کہ صریرِ خامہ سے ہم آغوشیوں میں مصروف ہے۔ خیالات کی کثرت اور تنوع کا عالم یہ تھا کہ سوچا کاش مکالمے والے کانفرنس کے سارے وقت کو بس ہمارے ہی مضامینِ غیب کی سماعت و تفہیم میں لگا دیں، لیکن معاً خیال آیا کہ اس ناقدری قوم کے بارے میں یہ سوچنا ہی فضول ہے، یہ اس طرح کی بلند فکری کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی ۔سو اہلِ مکالمہ ہمارے ان افکارِ عالیہ کے باوجود اپنی فضول فضول باتوں کو بھی وقت دے کے دم لیں گے۔اُدھر مسئلہ ٹائم کی شارٹج کا درپیش تھا،اور اِدھر یہ کہ اتنے غیبی مضامین کو چند منٹ میں وائنڈ اپ کیسے کریں گے؟ کیا ہو سکتا تھا! سوائے اس کے کہ ہم نے نوائے سروش سے معذرت کی کہ آپ ذرا رکیں ، جتنے مضامین اتر چکے ہیں، ان کو ترتیب دے لیں ۔ ابھی اس موضوع پر سوچ ہی رہے تھے کہ بس ہوسٹس نے اعلان کیا ہم لاہور ٹرمینل پر پہنچنے والے ہیں، اپنا دستی سامان ہاتھ میں کر لیں۔
ڈھائی گھنٹے کے اس سفر کے لیےجلدی نکلنے کی وجہ دھند کے کارن موٹر وے بند ہوجانے سے لیٹ ہو جانے کا اندیشہ تھا۔لیکن “مکالمہ” کی برکت اور ہماری بے برکتی دیکھیے کہ نہ موٹر وے بند ہوئی اور نہ کوئی ٹریفک جام قسم کا مسئلہ پیش آیا۔ہم پورے ساڑھے گیارہ بجے قذافی سٹیڈیم کے ساتھ ہی موجود ڈائیوو ٹرمینل پر لے جا اتارے گئے۔ابھی بتائے گئے وقت میں بھی دو گھنٹے باقی تھے، اور پنجابی کمپلیکس وہاں سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا۔یہ احساس شدت سے دامن گیر تھا کہ لندن میں تو ٹائم پر سیانے پہنچتے ہیں ، مگر پاکستان میں پاگل ہی پہنچتے ہیں، اب اگر دو گھنٹے وقت سے بھی پہلے جائیں گے، تو پاگلوں سے بھی کسی نچلی کیٹیگری میں آئیں گے۔لیکن چونکہ ہمارے فرضیے کے مطابق ہماری بھی کوئی عزت ہے، اس لیے تھوڑی تاخیر کرنے کے حربے آزمانے لگے۔ کتاب تو گاڑی میں نہیں پڑی تھی ، ٹرمینل کی ہاو ہو میں کیا پڑھتے۔ٹرمینل پر یونہی (یعنی ایویں ایں ) بیٹھے بِٹر بِٹر دیکھتے تو بھی پاگل سے کم نہ لگتے،سو کوئی ایکٹیوٹی ضروری تھی ، جس سے شو ہو کہ ہم بڑے اہم اور مصروف آدمی ہیں؛ کسی بہٹ بڑے مقصد پر رواں ہیں اور مطلوبہ مقام پر پہنچنے سے پہلے کچھ” کوڈل فارمیلیٹیز”، ٹائم کے انتہائی محتاط استعما ل کے ذریعے پوری کر رہے ہیں۔ٹائم کے انتہائی کھلے استعمال کے باوجود پندرہ سے بیس منٹ میں واش روم اور فیس واش وغیرہ کی “کاروائی “مکمل کر لی۔شام چھے بجے پروگرام ختم ہونا تھا، سوچا !چلو کچھ ٹائم اس انکوائری پر لگاتے ہیں کہ چھ بجے کے بعد کب کوئی گاڑی سرگودھےجائے گی ۔ متعلقہ جگہ سے پوچھنے پر معلوم ہو ا کہ شام کو گاڑی ساڑھے چھ بجے جائے گی، ہم نے احتیاطاً پوچھا : اس کے بعد کب جائے گی ؟کاونٹر پر موجود لڑکے نے کہا: ساڑھے سات بجے ۔ہمیں تو ٹائم گزارنا تھا، ہم نے کہا: اس کے بعد؟ اب لڑکے کو تو اور بھی کام تھے، اس نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: سر!پھر ایک ایک گھنٹے کے بعد اسی طرح نکلے گی۔گاڑیوں کا شیڈول بتانے والے سے مایوس ہو کر ہم کچھ اور کرنے کا سوچتے ہوئے پیچھے مڑے ،تو ساتھ چھوٹی سی مسجد پر نظر پڑی ، لیکن ابھی تو پورے بارہ بجے تھے، نمازِ ظہر کیسے ادا کرتے! ہماری خوش قسمتی کہ ایک وہابی وضع قطع کے صاحب مسجد میں داخل ہوئے، ہم نے سوچا کہ آج “فقہ الوہابیہ” پر عمل کر لیتے ہیں۔اپنا کوٹ اور بیگ حضرت کی کسڈی میں دیا اور وضو کر آئے، واپس آ کر دیکھا کہ اسی طرح کے ایک اور صاحب نماز کے لیے تشریف لے آئے ہیں، سوا بارہ بجے تینوں نے باجماعت نمازِ ظہر ادا کر لی۔سوا بارہ بجے نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ یہاں پاگل پاگل لگنے کی بجائے کانفرنس ہال پہنچتے ہیں،کوئی ہم جیسا اور بھی آیا ہوا ہوا، تو خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں کے دیوانے دو۔ ساڑھے بارہ بجے پنجابی کمپلیکس پہنچے تو معلوم ہوا کہ پاگل تو ہم اکیلے ہی ہیں ، ہاں انتظامیہ کےدواہم افراد میاں ارشد اور حافظ صفوان صاحب تشریف فرما ہیں۔میاں ارشد صاحب کی کرم نوازی دیکھیے کہ وہ مجھے پہچان کر گیٹ پر پہنچ گئے ، بڑی محبت سے ساتھ لے کرہال کی طرف لائے، وہاں حافظ صفوان صاحب موجود تھے، وہ تو پہلے ہی مٹھائی سے زیادہ میٹھے مشہورہیں۔ ان سے ملاقات کئی دفعہ طے ہوئی، لیکن ہونی یہاں منظور تھی۔ان سے کچھ دیر گپ شپ رہی، انھوں نے اپنے ایک کولیگ اور دوست جناب عاصم صاحب اور اپنے بیٹے عکرمہ کا تعارف کرایا۔ابھی دو بجے میں کافی وقت تھا، حافظ صاحب مہمانوں کا انتظار کرنے لگے اور ہم اندر ہال کی طرف بڑھے ۔ہال خالی تھا، ہمیں دل چسپی ہوئی کہ سٹیج کی سائیڈوں پر موجود کھڑکیوں کے اندر جا کر دیکھا جائے کہ پردے کے پیچھے کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے؟۔۔۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply