دھوبی کا کتا

دستک
روبینہ فیصل
rubyfaisal@hotmail.com
ایک ہے دھو بی کا کتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غدار کسے کہتے ہیں ؟ جو اپنی مٹی سے وفا نہیں کر تا ۔ بے وفا ہونا تو شائد قابلِ معافی ہو لیکن میں حیران ہو ں اس انسان پر جو اپنی جنم بھومی کو طوائف ،سانپ یا کینسر کہتا ہے ۔ یہ شائد انسان کی سب سے رذیل قسم ہے ۔ اپنا نام عربی ہے ، پیدا ئش کراچی پاکستان کی ہے ، بیٹی کا نام ہندوانہ ہے ، ہندوں کو خوش کر نے کا کو ئی موقع نہیں جا نے دیتا مگرہر دفعہ منہ کی کھاتا ہے کیوں کہ برہمن کم ذاتوں کو منہ نہیں لگاتے ۔باپ نے ( اس میں شک ہے مجھے ) ماں نے ہی طارق نام رکھ دیا ہو گا ، ساتھ کہیں سے پکڑ پکڑا کر فتح لگا دیا ہو گا ۔ کیونکہ پکڑن پکڑائی والی خصلت اس کے جینز میں ہے، اسی لئے تو بچارا انڈین شہریت پکڑنے کے لئے مسلسل ناچ رہا ہے،گانا بھی گا سکتا ہے کیونکہ ایک پاکستانی گلوکار کو انڈین شہریت مل گئی ہے ۔ کینیڈین ہے ، مگر ہارپر کے جاتے ہی شائد یتیم ہو گیا ہے ۔ اس لئے کینیڈین شہریت کے بدلے انڈین شہریت حاصل کر نے کے لئے منہ سے جھاگ اڑاتا پھر رہا ے ۔
پاکستانیوں کو جناح کا یتیم کہتا ہے ۔۔۔۔ یتیم بھی وہ ہی ہو سکتا ہے جس کا باپ ہو ،مگر یہ ایسی کسی بھی نعمت سے محروم ہی لگتا ہے ورنہ یوں ملک ملک شناخت کی تلاش میں نہ پھرتا ۔ پاکستان کو طوائف کہتا ہے۔۔ ظاہر ہے اس سے بہتر طوائف کی تعریف اور خصلت سے کو ن واقف ہو گا؟
بچارا کہتا ہے کہ مودوی نے کبھبی غلط کام نہیں کیا ، ایسی بے بسی دیکھ کر مجھے ترس آتا ہے کیونکہ ایسی بے شرمی سے تو مودی کے ا پنے طلبہ نواز یہ راگ نہیں الاپ سکتے ۔ ہر جگہ یہ کہتا نظر آتا ہے کہ "مسلمانوں اور پا کستانیوں میں بر داشت نہیں ہے مگر انڈیا اس وقت دنیا میں سب سے ذیادہ بر داشت کا مظاہرہ کر نے والی قوم ہے" ۔ اب بھی اسے انڈیا شہریت نہ دے تو کیا کہا جاسکتا ہے سوائے اس کے کہ پتھروں کو پوجتے پوجتے شائد پتھرا گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی خاص کر کے بلو چستان کے لئے سینے میں بہت درد دکھتا ہے مگر جب بات مقبوضہ کشمیر کے اندر ہونے والی کھلم کھلا ہندو ستانی جا رحیت کی آئے گی تو اس کے منہ میں چھالے اور آنکھوں کے آگے پردے پڑ جاتے ہیں ۔پاک فوج اور حکومتوں کے خلاف تاریخ کو مسخ کر نے کے الزامات لگاتا رہتا ہے ، مگر اسے اندازہ نہیں کہ اس معاملے میں وہ اس کے سامنے بچے ہیں ۔
جناح کو چور اور برٹش کا ایجنٹ کہتا ہے۔ کبھی کسی ملک کے بے غیرت سے بے غیرت انسان کو بھی اپنی تاریخ کے ہیروز کو گالیاں دیتے سنا ہے ؟ ہم تو انڈیا کے گاندھی کے اندر بھی اچھائیاں ڈھونڈ کر اسے مہاتما کہہ دیتے ہیں اور ساتھ جی لگا دیتے ہیں ، اس لئے نہیں کہ ہم بھی لازمی انہیں بڑا لیڈر یا بڑ اانسان مانتے ہیں نہیں بلکہ باعزت لوگ دوسروں کے ہیروز کو بھی اسلئے عزت دیتے ہیں تاکہ ان کے اپنے ہیروز کی عزت ہو ۔ مگر شان ہے پاک سر زمین کی جس نے ایسے ایسے بچھو دنیا بھر میں چھوڑ رکھے ہیں جو دوسروں کے ہیروز کو تو اپناتے ہیں مگر اپنے ہیرو ز کو دانش مندی کے نام پر نہ صرف بگاڑ کر پیش کر تے ہیں بلکہ گالیاں بکتے ہیں ۔
محترم خود کو بہت پڑھا لکھا کہتا ہے ، مگرکیسی کتابیں پڑھی ہیں جن کے اندر صرف اپنے مطلب کی تاریخ نکال لیتا ہے ۔ ایک طرف پاکستانیوں کو ہندوستان توڑنے والا غدار کہتا ہے اور دوسری طرف پاکستان توڑنے والوں کو جنگِ آزادی کے مجاہد کہتا ہے ۔ اسے1971کے پاکستان کے غدار اور آج بلوچستان ، سندھ میں بیٹھے غدار تو آزادی کے ہیرو لگتے ہیں ۔ لیکن ہندوستان کی شہ رگ سے پاکستانیوں کو اپنا ملک دلوانے والے کو چور کہتا ہے ۔خالصتان کی مانگ کر نے والوں اور مقبوضہ کشمیر کے آذادی کے متوالوں کو دہشت گرد کہتا ہے ۔ بندہ پوچھے تم ایسے القابات دینے والے ہو کون ؟ اپنی شناخت کو درپیش مسئلہ تو پہلے حل کر لو ۔۔۔ہندوستانی ہو یا پاکستانی ؟
مسلمانوں کے فرقوں پر خوب تنقید کر تا نظر آتا ہے ، مگر ہندوستان میں رائج چھوت چھات کے نظام پر ، ذات برادری کے گندے سسٹم پرکہتا ہے۔۔" ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی تہذیب!!"
ہند و مہاسبھا کا ایک اجلاس یکم جنوری 1944کو ہو تا ہے ، اخبار میں کاروائی میں پتہ ہے کیا چھپتا ہے ؟
دانشورسنو :
"پاکستان کے زہر کا تریاق یہ ہے کہ ہر نو مسلم کو دوبارہ ہندو بنا لیا جائے اور باقی مسلمانوں کی شدھی کر لی جائے ۔اگر یہ کام ہو گیا تو پاکستان کا مطا لبہ کر نے والا کو ئی نہیں رہے گا ۔۔ "
اور آج بھی اس سیکولر انڈیا میں گھر واپسی ( سب کو ہندو بنا لو ) جیسی تحریکیں چل رہی ہیں ۔
انڈین شہریت تو شائد اتنے ناچ،گانے کے بعد مل ہی جائے مگر اتنے جھوٹوں کے بعد کیا اپنا چہرہ خود دیکھ پائے گا؟
جب1936-37 کے الیکشن کے نتیجے میں کانگریس کو حکومت کر نے کا موقعہ ملا تھا ، تو اردو زبان پر حملے ہو ئے کہ نہیں ؟ تجارت اور ملازمتوں اور وازرتوں میں مسلمانوں کے ساتھ ذیادتیاں ہو ئیں یا نہیں ؟ مدرسوں میں سب کو زبردستی بندے ماترم گانے کا کہا جا تا یا نہیں ؟ترنگے کو سلام کر نے پر مجبور کیا جانے لگا یا نہیں ؟ واہ رے انڈیا کا کھلا دل اور اس کے ایسے رکھوالوں کا حال ۔۔۔۔۔
یہ دانشور انڈیا کو وہاں جا جا کر اکساتا ہے کہ " انڈس ٹریٹی ختم کر دو ، پاکستان کا پانی بند کر دو ، ویسے تو وہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتے" ۔ اس کو یہ نہیں پتہ کہ "ہندو پانی اور مسلمان پانی" کا وطیرہ کن لوگوں کا تھا ؟ جو شخص یہ نہیں جا نتا کہ چھوت چھات کن کے مذہب کا حصہ ہے ، جو یہ بک نہیں سکتا کہ دلیت اور دوسری چھوٹی ذاتوں کے ساتھ ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے ۔ ہندوستان کی شہریت پر س سے ذیادہ حق اس بچارے کا ہے ۔
اپنا ملک اچھا نہیں لگتا تھا چھوڑ دیا،کچھ برا نہیں کیا ، سب معاشی مسائل اور وسائل کے لئے ہجرت کر تے ہیں ، مگر اسی ملک کو گالیاں بکنا جس نے ایسے سانپ کو دودھ پلایا ہو ، بے غیرتی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اور ایسے انسانوں کو کوئی حق نہیں کہ اس ملک کا یا اس قوم کا نام بھی اپنی گندی زبان سے لیں جسے وہ بار بار اس لئے بیچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ گھر کا بھیدی جب لنکا ڈھاتا ہے تو دشمنوں کو بہت مزا آتا ہے ، اور اس کے دام بہت ذیادہ دیتے ہیں ۔
مگر یہ دھوبی کا کتا انڈیا جا کر خوب جوتے کھا کے آیا ہے ،مجھے تو بڑی ہنسی آئی اس یکطرفہ محبت کا ایسا بھیانک انجام دیکھ کر ۔ پنجاب یو نیورسٹی انڈیا کے طالب علموں میں اتنی عقل اور ہمت تھی کہ اپنی زمین سے ایسے نفرت کے بیوپاری کو مار بھگاتے ، مگر یہاں کینیڈا میں جعلی انسانیت پر ست اسے اپنے پروگراموں میں بٹھا کر اپنی ہی مٹی کو گالیاں نکلواتے ہیں ۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا ؟ یہ بچارہ مسلمانوں یا پاکستان سے دوستی کر ے گا تو کھائے گا کیا ؟
میرے نزدیک ایسی بکاؤ دانشوری دو کوڑی کی اس لئے ہے کہ جو لوگ اپنے ملک کا ، اپنے لوگوں کا درد رکھتے ہیں اور انہیں ٹھیک کر نا چاہتے ہیں ، وہ انہیں گالیاں نہیں دیتے ۔ ۔ اگر یہ ٹھیک بات بھی کر ے تو میرے نزدیک ایک چور ہی ہے کیونکہ خیر خواہ اپنوں کو صرف گالی ہی نہیں دیتے رہتے بلکہ انہیں ، سدھارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
یہ تو آستین کا وہ سانپ ہو جو صرف ڈنگ مارتا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان نے ایسے بچھو پیدا کر کے ، ان کو اعلی تعلیم دے کر دنیا بھر میں ڈنگ مارنے کو چھوڑ دیا ہے ۔دوسروں کو identity crises کا سبق دیتا ہے مگر خود اس کی شناخت کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ اسے چاہیئے ہم سے بھی ایک سبق لے لے اور وہ یہ کہ اسے کراچی یو نیورسٹی کی ڈگری جو مودی سرکار نے نہیں، حکومتِ پاکستان نے دی ہے،اور جاب کا تجربہ سعودی حکومت سے لیا ہے ۔۔دونوں واپس لٹا دینا چاہیے اس طرح سے پاکستانی اور عربی شناخت دونوں ختم ہو جائیں گی اور پھر تسلی سے جا کر عظیم تہذیب ہندوستان کا باسی بن جائے۔۔ اور ہم بھی مل کے کہیں گے ۔۔ خس کم جہاں پاک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply