کل شب جہاں میں تھا۔۔۔۔۔

تو سترہ دسمبر کو لاہور قذافی سٹیڈیم "پلاک"میں مکالمہ کانفرنس تھی۔ وہاں کئی نابغہ روزگار شخصیات تشریف لائیں۔ مہمانوں میں مفتی زاہد صاحب، سید بلال قطب، جناب عامر خاکوانی، ڈاکٹر شہباز منج صاحب، جناب سید طفیل ہاشمی صاحب، لالہ عارف خٹک، حسنین جمال اور موسیو ژاں سارتر، حقیقی زندگی میں ورچوئل یاروں کو قریب لانے والی اس بدعت حسنہ کی بناء ڈالنے والے جناب ثاقب ملک اور حکیم فاروق سومرو شامل ہیں۔ پہلے سیشن میں تقاریر تھیں۔اور دوسرے میں انٹرویوز۔۔۔
سٹیج موسیو ژاں سارتر اور عائشہ اذان صاحبہ کے حوالے تھا۔ انہوں نے نہایت خوبصورتی سے پروگرام کو آگے بڑھایا۔ وقت کی انتہائی پابندی کی گئی اگرچہ اس کیلیے ایک سیشن (ہال ڈسکشن) کو ڈراپ کرنا پڑا۔ تمام مقررین باری باری آتے گئے اور 6 سے 7 منٹ میں کام نمٹا کر فارغ ہوتے گئے۔تلاوت کلام پاک کے بعد مختلف احباب نے گفتگو کی۔ پہلی نشست جناب مفتی زاہد صاحب نے سنبھالی ، انہوں نے مکالمہ کے آداب اور طریقہ کار پر سیر حاصل گفتگو کی انکی گفتگو جامع و مانع تھی۔مفتی زاہد صاحب کے علاوہ معروف اینکر بلال قطب نے بھی گفتکو کی ،یقینا ًانکی گفتگو بھی دل کو چھو لینے والی تھی ۔بلال قطب کے علاوہ مشہور کالم نگار جناب عامر خاکوانی نے بھی گفتگو کی۔ خاکوانی صاحب کا گلہ چونکہ خراب تھا اس لیے وہ زیادہ ردہم نہ پکڑ سکے ۔ ناسازی طبع کے باوجود انہوں غیر حاضری نہیں کی، اور بھی کئی لوگوں نے گفتگو کی مگر چونکہ وہ ساری ریکارڈنگ ہوئی ہے اور آپ لوگ دیکھ ہی لیں گے اس لیے میں صرف اپنی فیلنگز اور جذبات کو ظاہر کر رہا ہوں۔
یہ کانفرنس میرے لیے اس واسطے بھی یاد گار رہی کہ اس میں مجھے اپنی کئی محترم شخصیات سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں جناب سید طفیل ہاشمی صاحب سر فہرست ہیں، گوکہ میں ایک کم علم اور کم فہم انسان ہوں مگر مجھے جناب ہاشمی صاحب کی مختلف معاملات میں اپروچ بہت اپیل کرتی ہے۔ اور ایک عرصے سے خواہش تھی کہ ان سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے مگر ایک تو اپنی کم علمی، دوسرا اپنی کم عمری کی وجہ سے اس دیرینہ خواہش کو کبھی اظہار کا لبادہ نہ اوڑھایا۔ اس لیے میرے خیال میں ایسی مجالس منعقد ہونی چاہیے تاکہ جو ایک احترام کا رشتہ فیس بک کے چوکھٹے میں بنتا ہے اسے ادب کا پانی دے کر فروغ دیا جاسکے۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم کے اداروں کے فرق کے متعلق اٹھائے گئے سوالات کا شافی اور دوٹوک حل بتایا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے اس ملک عزیز میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پلانٹڈ ہے اور آج ہی اس کو پلانٹ کرنے والے وائنڈ اپ کرنے کا میسج دے دیں تو شام سے پہلے پہلے یہاں امن ہو سکتا ہے۔
دوسرے نمبر پہ لالہ عارف خٹک آتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ کانفرنس میں آڈیئنس کی سب سے زیادہ اٹینشن لالہ جی نے حاصل کی تو بے جا نہ ہوگا۔ ان سے انٹرویو جناب انعام رانا صاحب نے خود بہ نفس نفیس کیا۔ عارف خٹک سے انعام رانا نے سوال کیا آپ جب لکھتے ہیں تو قلم کو پہلے شرم آتا ہے یا کاغذ کو ؟ بس یہ سوال پوچھنا تھا کہ لالہ جی خود ہی شرم سے دوہرے ہوگئے۔۔۔۔۔ اور ہال شور سے گونج اٹھا اور لالہ لاجواب ہوگئے۔ لالہ نے کہا یہ پہلی اور آخری بار ہے کہ میں لاجواب ہوا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اگر خود پہ نہ ہنسوں اور لوگوں کو نہ ہنساؤں تو پاگل ہو جاؤں۔۔۔ خیر لالہ جی میرے دوسرے کرش ہیں پہلے کے بارے میں مت پوچھنا۔۔۔ ان سے ملاقات کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔
اب تیسرا نمبر آتا ہے حکیم فاروق سومرو صاحب کا۔۔۔ حکیم صاحب سے ملنے کی خواہش مجھے اس وقت سے ہے جب میں پہلی فیس بکی احباب کو پہلی بار ملنے لاہور گیا۔ جناب غلام محمد آزاد صاحب اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ مگر تب حکیم صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی جانے کیا وجہ تھی کہ ۔۔۔۔ اب یاد نہیں۔ خیر حکیم صاحب کو ایک متواضح انسان پایا اور مجھے معلوم نہیں کہ لوگ اتنا پیار کرنا کہاں سے سیکھتے ہیں۔ حکیم صاحب نے اپنی شاعری پیش کی اور اول اول جو چند اشعار نعت کے سنائے انہوں نے دل موہ لیا۔ اللہ پاک ان کے قلم کو نعت میں اور بھی رواں فرمائے۔ آمین
خیبر پختونخواہ حکومت کو اپنے ایک کالم سے لرزا دینے والے دھان پان وقاص خاں سے بھی ملا۔ انہیں دیکھ کر مجھے لگا کہ اس وطن عزیز کے نوجوانوں کو شعور آگیا ہے او" اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں";۔۔۔ خیر اپنے انٹرویو میں وہ پی ٹی آئی کے خلاف ایک متعصبانہ بات کر بیٹھے جسے ہال میں بیٹھے تحریک انصاف کے ساتھیوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور خدشہ تھا کہ شاید کوئی بدمزگی نہ ہو جائے مگر جناب اذان ملک صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹا لیا۔ ثاقب ملک صاحب سے انٹرویو محترمہ عائشہ اذان نے کیا۔ بلال رشید کے متعلق ایک سوال کے جواب میں جناب ملک صاحب نے کہا کہ وہ سڑیل ہے۔۔ یقین جانیں مجھے تو بہت مزہ آیا اس کمنٹ پہ۔۔۔ واقعی اس نے جس طرح سے ثاقب ملک کے ساتھ دشمنی کے نتیجے میں سیک سیمینار کو نشانہ بنایا مجھے بھی وہ سڑیل ہی لگا تھا۔
آخر پہ جناب انعام رانا صاحب کا ذکر خیر کرنا چاہوں گا۔ ان سے جناب عاصم اللہ بخش صاحب نے انٹرویو کیا۔ اور کیا کیا باتیں ہوئیں وہ تو آپ دیکھ اور سن ہی لیں گے۔ مگر میں تو صرف اتنا بتانا چاہوں گا کہ میں نے رانا صاحب کو کیسا پایا۔۔؟؟ مکالمہ کے ابتدائی ایام میں، میں نے ان سے پوچھا کہ سر کیا مجھے بھی جگہ ملے گی۔۔؟؟ تو نا صرف انہوں نے ویلکم کیا بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ (واضح رہے کہ ان دنوں دلیل پہ میری تحریریں نہیں چھپا کرتی تھیں)۔ رانا صاحب انتہائی پیارے انسان ہیں اور جانتے ہیں کہ کیسے مان اور محبت دینی ہے ۔ مکالمہ کانفرنس سے چند دن پہلے کی بات ہے کہ مجھے انہوں نے فیس بک پہ میسج کیا اور مکالمہ میں شامل ہونے کی ذاتی دعوت دے ڈالی۔۔ یقین کریں مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں بتا نہیں سکتا۔ ان سے بھی ملاقات یاد گار رہی۔
اس کانفرنس میں جن احباب کے ساتھ ملاقات ہوئی ان سب کا تذکرہ تو خاصا مشکل ہے مگر جن سے پہلی ملاقات ہوئی ان کا ذکر خیر کرنا لازمی امر ہے۔ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ تو سب سے پہلے جناب فخر حسین بھٹی صاحب ۔۔۔ بھٹی صاحب ایک لمبا عرصہ دیار غیر میں رہے ہیں اور وہاں رہ کر ان کا قلم خوب چلتا تھا مگر جب سے یہاں آئے ہیں گوشہ گمنامی میں ہی چلے گئے ہیں۔ "سراب" اور "ملوک" جیسی کھڑکی توڑ کہانیوں کے مصنف جناب بھٹی صاحب انتہائی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا اور نام لے کر پکارا تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔۔دوسرے نمبر پہ جناب مولوی انوار حیدر صاحب ہیں۔ ان سے ملا تو پیار اور محبت کی خوشبو محسوس۔۔ عزت دینا، محبت دینا اور مان دینا اگر کوئی سیکھنا چاہے تو مولوی انوار حیدر صاحب سے مل لے۔ انہوں نے کئی مرتبہ اپنے ہاں آنے کی دعوت دی مگر ان کے ساتھ ملاقات یہاں طے تھی سو میں چاہ کر بھی نہ جا سکا۔ انہوں نے مجھے خوشبو کا تحفہ عنایت کیا۔
جناب عامر ہزاروی صاحب۔۔۔ انتہائی ٹیلنٹڈ اور نوجوان کالم نگار، میں تو ان کو کافی بوڑھا یا اڈھیڑ عمر سمجھتا تھا۔ مگر یہ تو انتہائی ینگ نکلے۔ خیر ان سے کافی دفعہ بات ہوئی اور انہیں ہمیشہ رہنمائی کرنے والا اور حوصلہ افزائی کرنے والا پایا۔ ان کی وساطت سے میرے کئی کالم اور فیچرز پرنٹ میڈیا پہ شائع ہوئے اس لیے میں ان کا غائبانہ مرید تھا۔ اور میرے تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یوں ان سے ملاقات ہوجائے گی، اور انہیں یوں اچانک دیکھ کر مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی۔ بحیثیت مجموعی یہ ایونٹ خاصا یاد گار رہا۔ آخر پہ انعام رانا صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو کامیاب ایونٹ آرگنائز کرنے پہ مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ;ہم سب; اور;دلیل; والوں سے گذارش کرتا ہوں کہ اب وہ بھی کوئی اس طرح کا ایونٹ آرگنائز کریں۔ تاکہ ورچوئل انٹیلیجنس کا جو یہ سفر رئیل انٹیلیجنس کی جانب رواں ہوا ہے وہ رکے نہیں بلکہ چلتا رہے۔

Facebook Comments

مبین امجد
انگریزی ادب کا طالب علم، چھوٹا موٹا رائٹر، زیادہ ریڈر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply