الوداع ہدایت اللہ ۔۔۔ صفی سرحدی

پشتو فلموں کے پہلے گلوکار ہدایت اللہ انتقال کرگئے۔

مرحوم سے پہلی ملاقات کوئی اٹھ سال پہلے ایک شادی میں ہوئی جہاں وہ تنہا کھڑے گھر جانے کیلئے فکر مند تھے کہ اب میں گھر کیسے جاؤں گا۔ میں نے انہیں کہا میں اپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنے میں ایک دوست پاس ائے اس نے کہا اپ فکر مت کرو میں خود انہیں چھوڑ دوں گا اجکل ان کا زہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ میں اداس ہوا کہ اتنا بڑا نام اج ایک کونے میں کسی سہارے کیلئے کھڑا ہے۔

1970 میں بنی پشتو کی پہلی فلم یوسف خان شیربانو سے ہدایت اللہ کو شہرت ملی اس فلم میں ان کا مشہور اور دلسوز گیت کو کون بھلا سکتا ہے۔ اردو ترجمہ اب آ بھی اجاؤ میدان خالی ہے میں آخری سانس لینے لگا ہوں میری روح پرواز کررہی ہے۔ کئی سال ہوئے ہدایت اللہ کی یاداشت جاچکی تھی اور اب ایک عرصے سے وہ کومے کی حالت میں داخل ہوکر زندگی کے آخری دن کاٹ رہے تھے اور یوں ان کا خود کا گایا ہوا پہلا گیت خود ان کی روح کی پکار بنا رہا مگر حکومت کو صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکار کی خبر لینے کی فرصت نہیں ملی۔

ہدایت اللہ 1940 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی گائیکی کی ابتدا سکول میں نعت پڑھنے سے کی۔ بعد میں ریڈیو جائن کیا مگر تب وقت ریڈیو میں ریکارڈنگ کا سسٹم نہیں تھا وہ صبح و شام ریڈیو جاتے اور براہ راست گانا گاتے۔ ہدایت اللہ محمد رفیع کو ائیڈیل مانتے تھے۔ گھر والوں سے چوری چھپے فلمیں دیکھا کرتے تھے ایک دن فلم ’’بیجو باورا‘‘ دیکھی اور اس میں محمد رفیع کی آواز سے ایسے متاثر ہوئے کہ پھر عمر بھر ان کی سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ علم موسیقی سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے وہ چند مہینے اس زمانے کے مشہور موسیقار اور ہارمونیم بنانے والے کاریگر استاد عندلیب کے شاگرد بھی رہے، جو ہندوستان کے مشہور گلوکار اور موسیقار جی ایم درانی کے والد تھے۔ مگر استاد عندلیب اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے جلد فوت ہوئے اس لیے ہدایت اللہ کے ساتھی گلوکار خالد ملک حیدر نے ہندوستان سے نامور ماہر موسیقی بھارت کھنڈے کی کتابیں منگوائیں مگر وہ انگریزی اور ہندی میں لکھی گئی تھیں، اس لیے ان کے پلے نہیں پڑیں۔ خالد ملک نے ایک استاد کو معاوضہ دے کر ان سے وہ کتابیں اردو میں ترجمہ کروائیں جس سے وہ موسیقی کے اہم اور بنیادی رموز و اشاروں سے واقف ہوئے۔

1958ء میں ایڈورڈ ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد غربت کی وجہ سے مزید تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور محکمہ زراعت میں بطور کلرک ملازمت اختیار کرلی۔ملازمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے گائیکی کا شوق بھی جاری رکھا۔ اس زمانے میں ’ہیزماسٹرز وائس‘ کمپنی کا ایک گروپ لاہور سے آتا رہتا تھا اور یہاں کے مرد و خواتین گلوکاروں کی آواز میں گراموفون سے گیت ریکارڈ کرتا۔ ایک روز ہدایت اللہ کو پشتو کے گلوکار رحمان گل (جو پشتو زبان کے معروف گلوکار خیال محمد کے ماموں تھے) اس گروپ کے پاس لے گئے مگر اس کے مینجر الطاف نے معذرت کی کہ ہمارا کوٹہ پورا ہوچکا، اس لیے ہم کسی نئے لڑکے کی آواز کو ریکارڈ کرنے کا رسک نہیں لے سکتے مگر رحمان گل کے بار بار اصرار پر وہ بادل نخواستہ صرف ایک گیت ریکارڈ کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور جیسے ہی ہدایت اللہ، فدا مطہر کا لکھا ہوا یہ گیت گانے لگے: ترجمہ بہت رویا ہوں بہت ستایا ہوا ہوں۔ تو مینجر الطاف اپنی چارپائی سے اٹھے اور رحمان گل سے کہا کہ یہ آواز کہاں سے ڈھونڈ لائے ہو؟ پھر ہدایت اللہ کی آواز میں دوسرا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا۔ ’ہیزماسٹرز وائس‘ کمپنی جس گلوکار کی آواز میں بھی گیت ریکارڈ کرتی تو بعد میں اس کی ایک کاپی اس گلوکار کو بھی بجھواتی۔

اس وقت تک ہدایت اللہ کے گھر والوں کو ان کی گائیکی کا علم نہیں تھا، جب کہ وہ سارا دن انہی پروگراموں میں مصروف رہتے۔ اتفاق سے ایک دن ڈاکیا بڑا لفافہ دے گیا تو گھر میں ان کے والد اور چچا بھی موجود تھے جن کے سامنے لفافہ کھولا تو اس میں گراموفون کا ریکارڈ تھا۔ ان کے ہاتھ میں ریکارڈ دیکھ کر والد نے صفائی کا موقع دیئے بغیر مارنا شروع کیا۔ خدا بھلا کرے ان کے چچاؤں کا کہ انہوں نے اپنے بھائی اور ہدایت اللہ کے والد کو سمجھایا کہ اس سے نہ تو ان کی ذات نسل تبدیل ہو جائے گی اور نہ اس سے کوئی میراثی بنتا ہے۔ ہاں اگر اس نے سرعام کہیں اپنے کندھے میں ہارمونیم ڈال کر گانے کی کوشش کی تو پھر دیکھا جائے گا۔ ان کی آواز میں وہ ریکارڈ جب مارکیٹ میں آیا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گھر والوں سے وعدہ کرنے کے بعد انہوں نے اخر تک پرائیوٹ محفل میں گانا نہیں گیا البتہ یار دوست جب مجبور کرتے تو بلامعاوضہ بخوشی گا لیتے۔

انہوں نے صرف ریڈیو ٹی وی اور فلم کی حد تک اپنا شوق جاری رکھا۔ ان کے مداحوں میں افغانستان کے صدر ظاہر اللہ بھی شامل تھے جنہوں نے انہیں جشن کابل میں مہمان خصوصی کے طور سے بلایا تھا۔ ہدایت اللہ کی مادری زبان چونکہ ہندکو تھی اس لیے انہوں نے ہندکو زبان میں بہت گیت گائے ہیں۔ اج بھی اندرون شہر بزرگ پشاوری ان کا یہ مشہور گیت فلم قصہ خوانی کا ’’قصہ خوانی دی وچ کار عجب لیر ہوندی اے‘‘ گنگناتے رہتے ہیں۔

2014 میں استاد محترم ابراہیم ضیاء کی کتاب پشاور کے فنکار کی تقریب رونمائی میں ہدایت اللہ کو مہمان خصوصی بلایا گیا تھا ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا مگر ہاتھ سے پکڑ کر چلنے لائق تھے تب انہوں نے “قصہ خوانی دی وچ کار عجب لیر ہوندی اے” گایا تو سب کی انکھیں نم ہوئیں۔ اس کے علاوہ اس وقت پشتو کے علاوہ فارسی، ہندکو، اردو اور بنگالی زبان میں بھی بے شمار گیت گا چکے ہیں۔ اصف خان اور بدرمنیر کی فلم ’’اوربل‘‘ میں ان کے گائے گیت ’’یمہ د ٹرک ڈرائیور‘‘ میں ہوں ٹرک ڈرائیور یہ گیت اتنا مشہور ہوا کہ ٹرک ڈرائیوران فخریہ ان کا یہ گیت گنگناتے تھے۔

ہدایت اللہ کو اب تک صدارتی ایوارڈ، تاترہ، رفیق شنواری، گندھارا، پولیس، یوم تکبیر، خیبر، الشیخ اور سرحد ایوارڈز دیے گئے۔ ہدایت اللہ ناروے، سویڈن اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ امریکا میں بھی میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ ہدایت اللہ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی 1962ء میں اپنی والدہ کی مرضی سے کی جس سے ان کے پانچ بچے، تین بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے جبکہ 2000 دوسری شادی انہوں نے اپنے دوست کے معذور بہن سے کی جس کا علاج کرکے انہیں چلنے لائق بنایا مگر اس سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ دوسری شادی کے بعد انہیں اب تک شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ بیوی اور بچے ان سے ناراض ہوئے تو وہ اپنا گھر اپنے بیٹوں کے نام کرکے گھر، بیوی بچے چھوڑ کر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ شہر میں کرائے کے مکان میں زندگی گزارنے لگے۔ علالت میں دوست احباب انہیں ملنے جاتے مگر اب کوما کی وجہ سے وہ کسی دوست عزیز کو پہچاننے لائق نہیں تھے۔

اپریل میں ملالہ کے والد ضیاء الدین جو ان کے بڑے مداح ہیں جب انہیں اپنے محبوب گلوکار ہدایت اللہ کی علالت کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے ہمارے دوست شکیل وحید اللہ کو چھ لاکھ روپے بھجوائے اور آخری بار ہدایت اللہ سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی جب اپنے دوست شکیل وحید اللہ کے ساتھ ہدایت اللہ کو دیکھنے اور ان کی بیوی کو چھ لاکھ روپے کی امداد پہنچائی۔ وہ ایک زندہ لاش کی صورت اختیار کرچکے تھے تب میں نے محسوس کیا کہ اب کافی دیر ہوچکی ہے۔ ہدایت اللہ چلے گئے میں گاؤں میں ہوں۔ انہیں کندھا دینے سے محروم رہ گیا۔ مگر اتنے بڑے گلوکار کو کندھا دینے اور جنازے میں شرکت کرنے چند فقط چند لوگ ہی شریک ہوئے۔ وہی چند لوگ جن کے ہزار گنا زیادہ انہیں دیکھنے سننے کیلئے بے تاب رہتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الوداع ہدایت اللہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply