• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • “صلح الخیر” سعودی قطر مفاہمت پر میرے ذاتی تاثرات۔۔منصور ندیم

“صلح الخیر” سعودی قطر مفاہمت پر میرے ذاتی تاثرات۔۔منصور ندیم

کل سعودی اور قطر مفاہمت پرایک پوسٹ  لکھی تو سوچا قطر کے حوالے سے اپنے ذاتی تاثرات بھی لکھوں، میری زندگی میں قطر سے وابستہ کچھ اچھی یادیں ہیں، میں سنہء ۲۰۰۹ میں سعودی عرب آیا ، وہی سلسلہ روزگار مقصود تھا، حالات اتنے ہی برے تھے کہ جتنے برے سمجھیں کہ ہمیشہ پاکستان کے رہتے ہیں، تعلیمی سرٹیفکیٹ بھی ایسے نہ تھے، لے دے کر نوکری کا تجربہ بھی ایسا خاص نہ تھا، بس آخری دنوں پاکستان میں ایک نوکری کررہا تھا، انگریزی بولنے میں بھی خاصی جھجھک ہوتی تھی، خیر پہلا سال ہمت بھی جتنی تھی رب تعالی نے آزمائشوں کا بوجھ بھی اتنا ہی ڈالا، 6 ماہ فراغت میں اقامہ ،ڈرائیونگ لائسنس اور نوکری کے حصول میں لگ گئے، ویزہ بھی آزاد ( پیسے دے کر خریدا جانے والا) تھا، جو کہ مرحوم چچا ( اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے) کی مہربانی اور پھر یہاں کے چھ ماہ کی بیروزگاری میں ان کا خاصا سہارا رہا، (ان چھ ماہ میں کچھ چھوٹے چھوٹے کئی کام کیے، چھوٹے اس لئے کہ ہمارے ہاں ان کاموں کو  نیچ کام سمجھا جاتا ہے, اس کی تفصیل پھر کبھی سہی) خیر بمشکل کیمیکل ٹریڈنگ کمپنی میں نوکری ملی، تنخواہ انتہائی معمولی طے ہوئی جتنی اس کمپنی کے ڈرائیوروں کی تنخواہ تھی، کسی کلرک یا ڈاکیومنٹ سپورٹر کی نوکری پر بہرحال سیلز اور مارکیٹنگ کی نوکری کو اسی لئے ترجیح دی کہ اس میں آگے بڑھنے اور لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر تھے، ورنہ آفس جاب کی شاید کچھ بہتر تنخواہ تو مل جاتی، مگر ساری پردیس کی زندگی بند کمروں میں اس تنخواہ کے 30 دن گنتے گزرجاتی، ایک پرانی کار بھی کمپنی نے سیلز کے لئے دے دی، میرے لئے تو یہ کار ایک نعمت سے کم نہ تھی، خیر سے اللہ اللہ کرکے نوکری شروع کی ، ( نوکری کے ابتدائی دن، رہائش اور اس محدود تنخواہ میں گزارے دنوں کی کئی ہوشربا یادیں کبھی وقت ملا تو ضرور لکھوں گا) خیر سے نوکری شروع ہوگئی۔

شروع شروع کے ایام میں بھائی کا دیا گیا ایک لیب ٹاپ اپنے ساتھ لایا تھا، سارا سارا دن پہلے دو ماہ تو آفس میں بیٹھ کر صرف نیٹ پر ہی گزار دئیے، نہ پروڈکٹ کی سمجھ آتی تھی،نہ مارکیٹ کی ، نہ ہی یہاں کے راستے اور عربی بلکہ انگریزی بھی بولنے میں خاصی پریشانی رہتی تھی، جب کمپنیوں میں اپنے پروڈکٹ کے لئے ملاقات کے لئے جانا ہوتا تو اکثر بہت کنفیوز میٹنگز ہوتیں، مگر یہاں ایک اچھی بات یہ رہی کہ کوئی آپ کے لباس اور انگریزی کی غلطیاں نہیں پکڑتا بلکہ متعلقہ موضوع کی انڈرسٹینڈنگ تک معاملات طے ہوہی جاتے۔ مجھے اس ادارے نے یہ موقع ہی ایک چانس پر دیا کہ ان کے سینئرز سیلز کے افراد یکے بعد دیگرے انہی دنوں کمپنی چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انہیں وقتی طور پر کچھ افراد کی ضرورت تھی، مجھے یہاں کا ماحول سمجھتے، پروڈکٹ، سیلز ، کیمیکل کے مختلف پیکنگ کی قیمت اور میزان کی کیلکولیشن سمجھنے  میں تقریباً  سال لگ گیا ، اور ایک سال میں کمپنی اتنے خسارے میں آگئی کہ ایک ماہ میں تو پورے مہینے کا بزنس اتنا ہوا ، کہ اس سے زیادہ بزنس تو اب ایک دن کا ہوتا ہے۔ ایک دن صبح کمپنی کے مالک نے میٹنگ بلائی ،بزنس کی صورتحال کو دیکھ کر عندیہ دے دیا کہ اگر یہی حالات رہے تو نہ تنخواہ ملے گی بلکہ ممکن ہے کمپنی بند کردی جائے اور کمپنی کے کیمیکل ترسیل کے ٹینکر پچھلے ایک سال سے کھڑے ہیں، وہ بیچ دئیے جائیں گے، میرے لئے یہ تکلیف دہ بات تو تھی مگر یہ ایک نئی خبر بھی تھی کہ کمپنی کے پاس کیمیکل لاجسٹک کے ٹینکرز کی سروسز بھی ہے، میں نے ان دنوں پرانے سیلز کی فائلز کا مطالعہ شروع کیا ، مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے لئے میٹنگز رکھیں اور اتفاق سے مجھے کچھ قطر اور دبئی کے بڑے کیمیکل ٹریڈرز کے کانٹیکٹ بھی ملے، میں نے رینڈم ہر کانٹیکٹ پر ای میلز اور فون کالز شروع کردیں۔

عرب اور اونٹ۔۔منصور ندیم

سنہء ۲۰۱۱ کے دنوں میں قطر کی نیشنل پیٹرولیم کمپنی نے شیل کمپنی کو 2 سال کا کانٹریکٹ دیا، ایک نجی پرائیوٹ قطری کمپنی جو انڈیا نیشنل کے بزنس پارٹنرز کا ایک لمیٹڈ گروپ تھا، انہوں نے شیل Shell سے سمندر میں پیٹرول کے کنویں کھودنے میں ہونے والی digging میں استعمال ہونے والے ہائیڈرو کلورک ایسڈ Hydrochloride Acid, کی ترسیل کا معاہدہ کیا، مقامی قطری ھیڈرو کلورک ایسڈ کی پروڈکشن انتہائی ناکافی ہونے کی وجہ سے انہوں نے سعودی عرب کے مینوفیکچر فیکٹری تک رسائی حاصل کی، لیکن ترسیل کے لئے انہیں کیمیکل کے خصوصی Rubber liner tankers درکار تھے، قسمت کی یاوری کہ وہی ٹینکرز ہماری کمپنی کے پاس موجود تھے اور کوئی دو سال سے ہمارے پاس کوئی کام نہ تھا، اس کمپنی سے ایک دن مجھے کال موصول ہوئی، میٹنگ طے ہوئی پہلی ابتدائی میٹنگ، کچھ بنیادی چیزوں کی ڈسکشن رہی، اگلے ہی ہفتے اس کمپنی کے مالکان خصوصا ً کانٹریکٹ سائن کرنے ہمارے آفس موجود تھے، پہلا کانٹریکٹ ایک سال کا سائن ہوا، آج کے ماہانہ کانٹریکٹ کی قیمت کے مقابل سنہء ۲۰۱۱ میں ہم نے آج کی موجودہ قیمت سے دوگنا قیمت پر وہ کانٹریکٹ کیا، لوکل ٹریڈنگ بھی بہترین ہوگئی ، میری تنخواہ بڑھنے لگی ، کام کا پریشر بھی بڑھا، کمپنی کی حالت بھی بدلی ، سنہء ۲۰۱۲ کے وسط میں جاکر میری تنخواہ تین گنا ہوگئی ، کمیشن بھی بننے لگا، لیکن ڈرائیورز کی movement، کو کنٹرول کرنے کے لئے میں نے اس وقت پہلا ای موبائیل خریدا ، جس کی مدد سے کہیں بھی اپنی ایمیل چیک کرسکوں ، back to back followup کرنا ہوتا تھا، ڈرائیورز کو، فیکٹریز کو، شیڈول کو مینج کرنا ، ڈرائیورز کے ٹینکرز کے بریک ڈاؤن کو مینج کرنا، یہ سب تقریبا ً 24 گھنٹے کی الرٹ جاب ہوگئی، کہاں مجھے 100 ریال موبائیل فون کے لئے ملتا تھا اور پھر میرا موبائیل فون کا بل انٹرنشنل کالز کیوجہ سے 1600 سے 1800 ریال تک پہنچ گیا، اس وقت ریال کے مقابل روپے کی قیمت 23 روپے تھی، یعنی 36 ہزار سے 40 ہزار روپے پاکستانی تک میرا ماہانہ موبائیل فون کا بل آرہا ٹھا۔ میری پوزیشن آفس میں مستحکم ہونے لگی ، کمپنی کا مالک میری بات کو اہمیت دینے لگا، سنہء 2012 گزشتہ چند سالوں کے مقابلے میں کمپنی کے لئے انتہائی منافع بخش رہا اور میرے لئے اس کام کے بعد ایک کے بعد ایک نئے پروجیکٹ کا آغاز کا سال بن گیا۔

سال کے اختتام پر میں نے کمپنی کے مالک کے سامنے ایک انوکھی تجویز رکھی، کمپنی کے مالک سے کہا کہ اس سال کمپنی گذشتہ کئی سالوں کے نقصان کے بعد بہترین منافع میں آئی ہے، کیا وہ ایک بہت چھوٹا سا حصہ اس کمپنی کے تمام ملازمین کو اس احساس کے ساتھ دے، کہ ایک گیٹ  ٹو گیدر رکھی جائے، اس کمپنی کے ایک ایک ملازم کو ایک ہدیہ دیا جائے اور ہر ہر ملازم کو ایک لفافے میں چاہے تھوڑی سی ہی رقم دی جائے۔ ملازمین جو خواہ لیبر ہوں، لوڈر ہوں، ڈرائیورز ہوں، آفس سٹاف ہوں ان سب کو فرداً فرداً  گفٹ کچھ رقم دینے کے ساتھ ان کو سراہا جائے۔ ایک سال بعد اور اس کمپنی میں پہلی بار اگر یہ کام کیا جائے تو ملازمین اگلے سال کے لئے بہت محنت کریں گے اور دل سے آپ کے شکر گزار رہیں گے۔ پورا ایک ماہ لگا کمپنی کے مالک کو اس بات پر قائل کرنے میں آخر کار وہ دن آگیا، ہماری کمپنی کے تمام ملازمین اس کا سہرا مجھے دیتے ہیں، اور یہ بونس پارٹی اب ہرسال ہوتی ہے، اور اس میں گئے سالوں میں رنگا رنگ ایونٹس بھی ہوئے اور ایک بار دو دو تولے کے سونے  کے سکے بھی بونس کی  رقم کے ساتھ ملے، اور یہ سلسلہ اب خود کمپنی کے مالک نے تواتر کے ساتھ ہر  سال  شروع کردیا ہے۔

اس سارے قصے کا مقصد کیا ہے؟

حاصل کلام فقط یہی ہے کہ میرے جیسا عام شخص پتہ نہیں کیسے ماں کی دعاؤں ، اللہ کی مہربانی ، یا ضرورتوں کے گرداب سے نکلنے کے لئے فطرت کے دئیے گئے اس نظام سے راستہ بنانے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا اہل بن گیا، ورنہ نہ تعلیمی قابلیت ہے اور نہ ہی کوئی ہنر جانتا ہوں ۔ میں تو دو ملکوں کی سرحدوں کے بیچ رکاوٹوں سے پیدا ہونے والی بابت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ، قطر سعودی عرب کا ہمسایہ خلیجی ملک ہے، قطر اور سعودی عرب کے درمیان جب اختلافات ہوئے تو لاکھوں لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے، سعودی عرب میں ہزاروں لاجسٹک کمپنیاں ، روزمرہ معمولات کیا اشیاء حتی کہ طابوق (اینٹیں) تک سعودی عرب سے قطر جاتی تھیں، قطرائیر ویز دنیا کی چند بہترین ائیر لائنز میں سے ایک ہے، اکثر ٹرانزٹ فلائیٹ میں سب سے سستے ہوائی ٹکٹ بھی قطر ائیر ویز ہی آفر کرتی تھی، ہزاروں لاکھوں ایشین جو خلیج میں کاروبار کرتے ہیں، ان کا کاروبار ان دو ملکوں کے اچھے تعلقات سے وابسطہ تھا۔ قطر سعودی اختلافات کے 4 ماہ بعد میں ایک دن یہاں ایک تندور پر روٹیاں لے رہا تھا تو وہاں ایک پاکستانی پختون بھی روٹیاں لے رہا تھا،انتظار کرتے کچھ بات چیت شروع ہوئی تو اس نے کہا کہ اسے 4 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، وہ بڑی گاڑی کا ڈرائیور تھا اور وہ سعودی اور قطر کے درمیان گاڑی چلاتا تھا،کمپنی کا کام بند ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی 4 ماہ تک تنخواہ نہ ملی ۔

جو بائیڈن کے دور صدارت میں پاک امریکہ تعلقات کا خاکہ۔۔ غیور شاہ ترمذی

مجھے بہت شدید افسوس ہوا، ہماری کمپنی کے کان پر بھی اثر پڑا، لیکن اتنا نہیں مگر لاکھوں لوگوں کے کاروبار نوکریوں کو اس ایک اختلاف نے کھالیا تھا، ہمیشہ سرحدوں کے دونوں اطراف رشتے داریاں بھی ہوتی ہیں ، کاروبار بھی ، سخت فیصلوں کے گرداب میں میرے اور اس پختون بھائیوں جیسے لوگوں کی قسمتوں کے سخت فیصلے ہوتے ہیں۔ خلیجی ممالک کے مقامی شہری بغیر ویزہ ایک دوسرے ممالک میں داخل ہوجاتے ہیں، اور غیر ملکیوں کے لئے بہت ہی معمولی رقم پر ویزہ مل جاتا ہے۔ میرے گھر سے صرف 45 منٹ کے فاصلے پر بحرین کے  پل پر بحرین کی چیک پوسٹ ہے، 4 گھنٹے کے فاصلے پر دبئی اور 5 گھنٹے کے فاصلے پر قطر کی سرحد ہے۔ سرحدی راستے کھلیں ہو تو ہزاروں لوگ روزانہ ان ممالک میں کاروبار ،رشتے داریاں،سیر وسیاحت کے لئے سفر کرتے ہیں ۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں آسان ہوتی ہیں۔ کل جب قریب 4 سالوں بعد سعودی عرب کے تاریخی شہر العلاء میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان مصالحت کے بعد سعودی عرب میں پہلی قطری فلائٹ 11 جنوری کو اتری تو ان خلیجی ممالک کے درمیان بسنے والے خاندانوں کے لوگ اتنے برسوں بعد جب ملے تو وہ جذباتی مناظر یقینا ً ہر آنکھ کو اشکبار کرنے کے لئے کافی تھے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دنیاکی ہر سرحد پر کئے جانے والے “صلح الخیر” جیسے فیصلوں کے لئے نیک خواہشات رکھتا ہوں ، اور ’الصلح الخیر‘ (صلح اچھی چیز ہے) کے فیصلوں کا دل سے خیر مقدم کرتا ہوں ۔کیونکہ اس سے میرے جیسے عام لوگوں کی روٹی   کا وسیلہ  بنتا ہے جس سے ہماری زندگیاں آسان ہوتی ہیں۔

 

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply