احمقوں کی بستی کے مکین۔۔۔ولائیت حسین اعوان

میری یہ تحریر کوئی باقاعدہ جامع مضمون نہیں۔کوئی کالم کوئی بلاگ نہیں۔شاید کوئی ربط آپ اس میں نہ پائیں گے۔نہ ہی الفاظ کی خوبصورتی۔نہ گرائمر کا درست استعمال آپ کو ملے۔اسکی نہ تمہید متاثر کُن ہو گی نہ اسکا اختتام نتیجہ خیز۔شاید میں اس تحریر کے مقاصد بھی حاصل کرنے میں ناکام ہوں، لیکن پھر بھی دل کے پھپھولے کسی کے سامنے رکھ کر کم از کم اس کا احساس تو جگایا جا سکتا ہے۔
بس یوں سمجھیں یہ تحریر ایک دکھی پیغام ہے، ایک حسرت ہے۔۔آنسو ہیں اور شرمندگی ہے۔

“معاشرہ خراب ہے ۔۔۔زمانہ بُرا ہے۔بندوں میں شرم ،حیا، لحاظ، خلوص ،ایمانداری، وفاداری، فرمانبرداری کچھ بھی نہیں رہا”۔یہ الفاظ میں بھی دہائیوں سے سن رہا ہوں اور آپ بھی یقیناً سنتے ہوں گے۔

معاشرے  کا ہر وہ فرد جو یہ بات کرتا ہے کیا وہ خود ہر برائی سے پاک ہے؟۔۔اگر خوش قسمتی سے جواب ہاں میں ہے تو آپ ایسے شخص کی صحبت حاصل کریں۔اسکے کندھے اور  پاؤں دبائیں۔اور اس جیسا بن کر معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
لیکن اگر جواب نہیں ہے تو پھر کبھی اکیلے میں بیٹھ کر اپنا محاسبہ کریں۔

آپ اپنی بیوی بہن بیٹی حتی کہ ماں تک کا برداشت نہیں کر سکتے کہ کسی غیر یا انجان کے سامنے جائے۔اس سے ہنس ہنس کر بات کرے۔اور اس بات پر تو آپ مرنے مارنے پر آ جائیں گے کہ اگر انکی طرف کوئی غلط سوچ سے دیکھے یا ان کے بارے میں کوئی بیہودہ بات کرے۔لیکن میرا مشاہدہ ہے اکثر کہ ہم میں سے بے شمار بازار میں یا دفاتر میں یا پبلک ٹرانسپورٹ میں غیر عورت کو گھورتے ہیں اپنے دوستوں سے گفتگو میں اسکے متعلق گھٹیا تبصرے کرتے ہیں۔ اس سے بات کی ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں یا اس کی توجہ چاہتے ہیں۔لڑکیوں کے فون نمبر مانگتے، دیتے ہیں اور گھنٹوں ایک غیر لڑکی سے باتیں کرتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے گھر والوں کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ اسکے بعد اگر اب آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپکی بیٹی بہن بیوی ماں دوسروں سے محفوظ رہ جائیں یا وہ بازار جائیں تو انکے لباس چال ڈھال پر کوئی تبصرہ نہ کرے یا جب آپ والدین بنیں تو آپکے بیٹے بیٹیاں نیک سیرت ہوں اور محلے میں  آپ کا گھرانہ پاک باز گھرانہ کہلائے، بچیاں پاک دامن سمجھی جائیں اور بیٹے نیک سیرت پکارے جائیں تو آپ احمقوں کی بستی میں رہتے ہیں۔

آپ اپنی دکان پر لوگوں کی کھال اتاریں۔چائنا مال یورپی جاپانی کر کے بیچیں۔دگنا منافع کمائیں۔ٹیکس چوری کریں ،ناقص چیز بیچیں ،جو نہیں بِک رہا آپ گاہک سے کہیں کہ یہ میں اپنے گھر استعمال کر رہا ہوں، بہت اعلی ہے۔اگر وہ خریدا ہوا مال واپس کرنے آ گیا تو آپ انکاری ہو جائیں۔اور پھر آپ گھر آ کر بیوی سے مہنگی سبزی دوائی ناقص پٹرول اور نااہل حکومت کے شکوے کریں ،اپنی کمائی میں برکت نہ ہونے کا واویلہ کریں اور الزام مہنگائی زمانے معاشرے اور حکومت ِ وقت کو دیں تو آپ پھر احمقوں کی بستی کے مکین ٹھہرے۔

آپ نے اپنی جاب حاصل کرتے ہوئے اپنی  سی وی میں اپنی استعداد، علم سے بڑھ کے لکھ کر صفحے کے صفحے کالے کر دیے ہوں، انٹرویو جھوٹ اور بناوٹ کا شاہکار ہو۔ سفارش آپ کی تگڑی ہو اور رشوت کی رقم آپ نے ایڈوانس دی ہو۔جاب کے دوران آپ زیادہ وقت گپیں لگاتے رہیں ،اپنا کام مستعدی سے نہ کریں اور بعد میں اپنی تنخواہ مہینے  کے اختتام سے پہلے ختم ہونے کا دکھڑا بیان کریں۔بچوں کی بیماریوں کا رونا روئیں، مختلف دفاتر میں اپنے ذاتی کام کے لیے مشکلات اور رشوت سفارش کا ماتم کریں تو آپ دوبارہ احمقوں کی بستی میں جگہ کے حقدار ٹھہریں گے۔

آپ بجلی گیس پانی چوری کر کے حکومتی املاک کو نقصان پہنچا کر ، یا کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی کا نقصان کر کے اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھروں پارکوں سڑکوں پر پھینک کر آپ یہ سوچیں کہ آپکی کوئی چیز چوری نہ ہو، خراب نہ ہو، آپکے گھر کے سامنے کوئی گندگی نہ پھیلائے اور نہ کوئی چرسی آپ کے  گھر کے باہر سے بلب اور گٹر کا ڈھکنا اٹھا کے لے جائے اور آپ محلے والوں کو ،پولیس نشے کے بیوپاریوں اور چوری کا مال خریدنے والوں کو گالیاں بد دعائیں دے رہے ہوں تو آپ بلا جھجک اپنے آپکو پہلے جو برادری بیان ہوئی اس میں شامل فرما لیں۔

آپ دوستوں رشتہ داروں کی برائیاں کریں۔انکے برے وقت میں کام نہ آئیں ان کی کامیابیوں پر حسد کریں ان پر اپنے احسانات جتائیں ان کو دھوکہ دیں اور بدلہ میں آپ وفا عزت احترام خلوص محبت کی امید رکھیں تو آپ پھر۔۔۔۔۔۔

آپ کو طالب علم ہو کر اپنے استاد کی عزت کرنی نصیب نہ ہو آپ ان کی بات نہ مانیں اور مستقبل میں جب آپ پریکٹیکل فیلڈ میں یہی کام یا کسی اور شعبہ میں کام کر رہے ہوں اور اس میں آپکی قدر عزت احترام نہ ہو حتی کہ آپ کو اپنی محنت اور کام پر عبور کا بھی اجر نہ ملے اور آپ زمانے کو برا کہیں تو آپ کو پھر احمقوں کی بستی کا رخ کرنا چاہیے۔

آپ بیٹے ہو کر ماں باپ کی خدمت فرمانبرداری سے محروم ہوں اور بعد میں خود باپ بن کر دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کہ نالائقی نافرمانی پر آنسو بہا رہے ہوں تو آپ کو یہ کرنے کے بجائے احمقوں کی بستی چلے جانا چاہیے۔

انسانی ضمیر ناجائز اور غلط معاملات پر سرخ بتی ضرورجلاتا ہے تاہم یہ اس انسان پرمنحصر ہے کہ وہ اس کا اثر قبول کرتا ہے یا نہیں بالکل اس لاپرواہ شخص کی طرح جو سڑک پر سرخ اشارہ دیکھ کر بھی گزر جاتا ہے یا اس زمہ دار کی طرح جو جتنا بھی تیزی میں ہو سرخ اشارہ پر رک جاتا ہے۔

آپ میں سے ہر ایک کو خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا ہر مقام اور ہر عہدے پر۔اپنی موجودہ غلطیوں گناہوں کا خود احتساب کرنا ہو گا ضمیر کی سرخ بتی پر فوری رکنا ہو گا۔
کسی کو روند کر دھوکا دے کر جھوٹ بول کر خیانت کر کے یا کسی کا حق مار کر کامیابی حاصل کرنے کو گناہ سمجھنا ہو گا۔ تبھی معاشرہ اچھا کہلائے گا۔ورنہ آخرت کا احتساب کڑا ہو گا کھرا ہو گا اور حتمی ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی خرابیوں کو پسِ پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے!

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply