پنجاب کی لوک تاریخ۔۔۔ڈاکٹر منظور اعجاز/ریویو۔اسد رحمان

پنجاب کی تاریخ سو دو سو یا ہزار نہیں بلکہ سات ہزار سال پرانی ہے۔ آرکیالوجی اور لسانیات کے ماہرین کے مطابق ہڑپہ کی انسانی تہذیب کا دائرہ مہر گڑھ (موجودہ بلوچستان) سے شروع ہو کر پنجاب سندھ، گجرات راجستھان پختون خوا(سوات اور پشاور) اور مہاراشٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ پنجاب اس تہذیب کا مرکز تھا کیونکہ اب تک کے اندازوں کے مطابق اس تہذیب کے سب سے زیادہ شہر پنجاب میں ہی موجود تھے۔

منظور صاحب جو کہ فلسفہ اور معاشیات کے استاد ہیں انکا زیادہ تر تحقیقی کام پنجابی ‘وچار دھارا’ کی بازیافت سے جڑا ہوا ہے۔ انکی نئی کتاب پنجاب کی لوک تاریخ اسی تحقیقی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ اڑھائی سو صفحات پہ مشتمل یہ کتاب پنجابی زبان میں لکھی گئی ہے اور ایسے تمام پنجابی جو کہ اکیسویں صدی کی نظریاتی اور ثقافتی طولانیوں سے پیدا ہونے والے ثقافتی اور شناخت کے پنجابی بحران سے متاثر ہیں ،ان کے لیے یہ کتاب خصوصی طور پہ نہایت موزوں ہے۔یہ کتاب بارہ (۱۲) ابواب پہ مشتمل ہے لیکن منظور صاحب نے انتہائی چابکدستی سے سات ہزار کی تاریخ کو کھول کر بیان کر دیا ہے

بنیادی دلائل

اس کتاب کا تجزیاتی فریم ورک تحقیق کے موجودہ پیمانوں کے عین مطابق ہے۔ انتھروپالوجی، سیاسی معاشیات، جینیٹکس اور تاریخ کو جوڑ کر پنجاب اور ہڑپہ کے وسیب کے بارے میں کچھ نتائج اخذکرنےکی کوشش کی گئی ہے۔ پنجاب پہ ہونے والے تحقیق سے واقف قاری یہ جانتے ہیں کہ پنجاب پہ زیادہ تر تحقیق غیر پنجابیوں نے ہی کی ہے جس کی وجہ سے پنجاب کی قدیم تاریخ کو جانچنے کیلئے پیمانہ سنسکرت زبان میں لکھے گئے ہندو دھرم کے وید اور شاستر ہی ٹھہرے۔ جبکہ پنجابی زبان اور پنجاب کے باسیوں کی رہتل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نیں پنجابی زبان اور اس میں کی گئی شاعری ، لسانیاتی اور جنیاتی تحقیق اور مارکسی سیاسی معاشیات کو جوڑ کر پنجاب کی تہذیبی اور لوک تاریخ سمجھنے کا کٹھن کام کیا ہے۔ انکے بنیادی تھسیز یا نتیجے مندرجہ ذیل ہیں

۱۔ ہڑپی زبان کو ابھی تک جانا نہیں جا سکا لیکن اسکی وجہ یہ ہے کیونکہ ہڑپی زبان کے سکرپٹ کو سمجھنے کیلئے سنسکرت کو مرکز مانا جاتا رہا ہے۔ مولوہی ( ہڑپہ کی زبان) کو پنجابی اور سندھی کی مدد سے زیادہ بہتر طور پہ جانا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ دونوں زبانیں اس علاقے کی قدیم ترین زبانیں ہیں۔ لسانیاتی طور پہ پنجابی Indo-European کی بجائے پیرا۔ منڈا یا Austroasiatic زبانوں کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں اور انکا تعلق سنتھالی اور جنوب مشرقی ایشیا میں بولی جانے والی زبانوں کیساتھ ہے۔ اس نتیجے پہ وہ اپنی ذاتی تحقیق کے نتیجے میں پہنچے لیکن ان کو اس بات کی خوشی ہے کہ مشہور لسانیاتی محقق michael Witzel بھی ایسا ہی نتیجاً پہلے نکال چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس حوالے سے ایک پنجابی اور  پیرا منڈا  زبانوں کے آپسی تعلق کو آشکار کرتی ڈکشنری بھی ترتیب دی ہے۔

۲۔ عام خیال ہے کہ ہڑپہ تہذیب کے اصل باسی دراوڑی نسل کے لوگ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے موجود تحقیق کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ چونکہ دراوڑی زبان کے الفاظ پہلی وید میں نہیں لیکن بعد والی ویدوں میں موجود ہیں اس لیےگمان یہ ہے کہ دراوڑی لوگ آریاوں کے بعد ایران کی سمت سے پنجاب میں داخل ہوئے۔اور ہڑپہ کے پہلے باسی تو آریاوں سے بھی پہلے سے موجود تھے۔

۳۔ پنجاب کی پہلی اور بنیادی وچارہ دھارا یا فلسفہ مادیت پہ مبنی تھا جس کو آج بھی تنتر یوگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ علت اور معلول کے اصولوں کو بنیادی مانتا تھا۔ پنجاب کی تاریخ میں ہمیشہ سے جوگیوں اور سادھوں کو عزت اور تکریم حاصل رہی ہے۔ بدھ مت ، چارواک ، جین مت اور حتی کہ سولہویں اور ستارہوٰیں صدی کے پنجابی مزاحمتی شعرا بھی تنتر یوگ کے فلسفے اور سادھو و یوگی کی روایت سے جڑے رہے۔ منظور صاحب کے نزدیک یہ مادیت پہ مبنی نظام آریاوں کے لائے ہوئے برہمن واد سے مختلف تھا اور اسی وجہ سے یوگی فکر کے اثرات کی وجہ سے پنجاب کی ثقافتی بنتر اور سماجی ڈھانچہ برہمن واد کے مکمل قابو میں نہیں آ سکا۔

۴۔ پنجاب کا ہندوستانی موسیقی اور فنونِ لطیفہ میں جو اپنے جثے سے زائد حصہ ہے اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ موسیقی کا زیادہ تر کام ہڑپی لوگوں کے ہاتھ میں رہا۔ بشریات اور تاریخ کے علوم کو آپس میں میں جوڑ کر وہ یہ تھسیز پیش کرتے ہیں کہ پنجاب کے رہنے والے میراثی اصل میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے موسیقی کے فن کو دوام بخشا اور ہڑپہ کی روایت کو ٹوٹنے نہ دیا۔

جائزہ

میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب کئی حوالوں سے ایک اہم کتاب ہے۔ پنجاب کی رہتل ، ثقافت اور زبان کو جس طرح سے پنجابی اشرافیہ نے ریاستی امداد اور سہولت سے محروم کیا ہے اس نے پنجابی معاشرے کو کئی حوالوں سے انتہائی منفی انداز میں متاثر کیا ہے۔ پنجاب کی تاریخ کو عربی اور افغانی حوالوں سے پیش کر کے پنجاب کی قومی شناخت کو مجروح کیا گیا ۔ یہ کتاب اس تاریخ کو سامنے لانی کی ایک کوشش ہے جو کہ اس خطے کے لوگوں کی عملی جدوجہد اور ثقافتی تعاملات کی کہانی ہے۔ یہ کسی بادشاہ کو تاریخ کا ہیرو نہیں بناتی، نہ ہی کسی سلطنت کو اصل اور حقیقی سلطنت کے طور پہ پیش کرتی ہے۔ بلکہ اس تاریخ کا موضوع عام مرد اور عورتیں ہیں جو کہ اس دھرتی کو ہزاروں سال سے آباد کیے آ رہے ہیں۔ اس کتاب میں کئی نئے تھسیز پیش کیے گئے ہیں جو کہ مزید تحقیق طلب ہیں اور جن پہ یقیناًنئے مزید لوگ قلم اٹھائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کو پنجابی میں لکھ کر اپنی ماں بولی کیساتھ اپنے قلبی تعلق اور پنجابی زبان کی اہمیت کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اسکا اب اردو ایڈیشن بھی شائع ہو نے کے قریب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ جو پنجابی نہیں پڑھ سکتے وہ بھی اس تحقیق سے مستفید ہو سکیں گے ۔

ڈاکٹر منظور اعجاز ، پبلشر ترنجن لاہور کتاب کی قیمت ۵۵۰ روپے، صفحات ۲۲۰

Advertisements
julia rana solicitors london

فون نمبر 03334332300

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply