بسلسلہ کھوتا و ڈڈو شریف ۔۔۔ معاذ بن محمود

خدا بھلا کرے۔۔ کوئی پانچ سال پہلے یعنی ۲۰۱۴ کا قصہ ہے۔ ناچیز دفتری کام سے امریکہ شریف کی ریاست فلوریڈا شریف کے شریف الزماں شہر میامی شریف میں تھا۔ یہ شہر اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے اور احقر انباکس میں پوری تفصیلات کے ساتھ اس وجہ تسمیہ کی حقیقت کی گواہی دینےکی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ میرے ساتھ میرا باس اور اس کی باس بھی تھی جو دراصل عراقی بھائی بہن تھے۔ اللہ کے فضل سے دونوں پانچ وقت کے نمازی اور فجر سے دن کا آغاز کرنے والے لوگوں میں سے تھے۔ دوسری جانب میری فجر ہمیشہ سے ہی کم از کم ۹ بجے ہوتی تھی، ہے اور امکان ہے کہ آئیندہ بھی رہے گی۔ اسی طرح ان کی رات ۸ بجے ہوجاتی جبکہ میں صبح ۳-۴ بجے کے درمیان سویا کرتا۔ یعنی زیادہ سے زیادہ ۹ بجے کے بعد میری غیر نصابی سرگرمیوں کا وقت شروع ہوجاتا۔

۹ بجے کے بعد میں باہر نکلتا اور میامی بیچ پر واقع Lummus Park کے سامنے والی ریستورانوں کی پٹی پر گھومتا گھامتا وقت گزاری شروع کر دیتا۔ درمیان میں رک کر کسی جگہ سے بہترین کھانا کھاتا اور پھر واشنگٹن ایوینیو پر واقع ایک غیر نصابی سرگرمیوں کے مرکز پہنچ کر باقی کی وقت گزاری سکون و عافیت کے ساتھ کیا کرتا۔

ایک شام موسم کمال عاشقانہ تھا۔ مزے کی ہوا ساتھ ہلکی ہلکی پھوہار، سیدھے ہاتھ پر میامی بیچ اور الٹے ہاتھ پر طرح طرح کے ریسٹورینٹ جن میں زیادہ تر میں ہسپانوی رقص و موسیقی جاری تھے۔ سب کچھ خوب رومانوی تھا تاہم میامی میں رومان بھی پورن کی کیفیت جگانا شروع کر دیا کرتا ہے۔ میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر طبیعت سے اعلی ریسٹورینٹ چن کر بیٹھا اور مینیو پر نظر دوڑائی۔ ایک سینڈوچ جس کی صورت اچھی لگی، آرڈر کر دیا۔ سینڈوچ کا نام کوئی سا بیکن سینڈوچ تھا۔

سینڈوچ آیا اور میں نے کھانا شروع کیا۔ کھانے کے دوران بیگم صاحبہ سے بات چیت بھی جاری تھی۔ میں نصف سینڈوچ ختم کر چکا تھا اور باقی کا مزا لینے کے راستے پر گامزن تھا۔ اسی دوران بیگم نے سوال کیا کیا کھا رہے ہو۔ میں نے مینیو دیکھا اور بتا دیا۔ بیگم نے دو منٹ توقف کے بعد جواب دیا “میرا خیال ہے یہ پورک ہے”۔ میرا رومانوی پورنوی موڈ اب خطرے میں تھا۔ سب کچھ خوبصورت اور سینڈوچ کمال ذائقے دار تھا۔ ماحول، موسم، ایمبیینس، کھانا، ذائقہ سبھی کچھ کمال تھا۔ مگر پورک؟ سب کرکرا ہونے کے قریب۔ میرا کسی ایک چیز کو بھی spoil کرنے کا دل نہیں تھا۔ خیر میں نے دل مضبوط کر کے بیگم سے ایک بار پھر پوچھا بس “کہ کنفرم پورک ہے یا خیال ہے؟” جواب آیا “کنفرم نہیں لیکن شاید پورک ہی ہے”۔ اب مجبوراً میں نے پلین بی پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیگم کو جواب دیا اچھا رکو تھوڑی دیر میں بات کرتا ہوں۔

اس کے بعد میں نے موبائل ایک جانب رکھا۔ سینڈوچ اٹھایا۔ باقی کا آدھا حصہ خوب مزے لے کر ختم کیا۔ اس کے بعد موبائل واپس اٹھایا۔ بیگم کے ساتھ چیٹ ڈیلیٹ کی۔ پھر اس کی چیٹ ڈیلیٹ کروائی۔ اب تک بارش تیز ہوچکی تھی۔ میں نے بل ادا کیا، ٹیکسی پکڑی اور گھر پہنچ کر سوگیا۔ سینڈوچ انتہائی لذیذ تھا۔ پورک تھا یا نہیں واللہ عالم۔ میں نے آرڈر کیا تو تب تک کم از کم میرے لیے پورک نہیں تھا۔ باقی کا شک میں نے یقین میں بدلنے کے ثبوت مٹا دیے۔ ایک بار پھر یاد دہانی کراتا چلوں، سینڈوچ تھا بہت مزے کا۔

تو میرے لاہوری بھائیوں، اور ان کی بہنوں۔ لا تحزن۔ حزن مت کرو۔ بس اپنے دانتوں اور مسوڑوں میں پھنسے گوشت کے ان ذرات کو یاد کرو جن کا ذائقہ تم نے خوب مزے لے کر اگلے سوٹے یا چائے تک دل سے یاد رکھا تھا۔ ایک آخری بار یہ کام ضرور کرو کہ اس گوشت کا ہاضمہ ناحق نہ جائے۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے فیس بک پر گدھوں اور مینڈک کے ثابت شدہ پکوان پر کیے گئے چیک ان مٹا ڈالو۔ پھر واٹس ایپ، میسنجر میں ان کا ذکر سرچ کر کے ہر وہ چیٹ اڑا ڈالو جہاں تم نے کھوتا خوری یا ڈڈو خوری کی غلطی کا اعتراف کیا ہو۔ اور سب کچھ کر چکو تو خود کو یہ تسلی دے کر کہ تمہارے آرڈر دینے تک دستیاب معلومات کے تحت خوراک نہ کھوتے کا گوشت تھی نہ مینڈک کا۔ غم بھلانے اور تشکیک مٹانے کی بہترین اور آزمودہ حکمت عملی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply