نظریہ ارتقاء /انور مختار-قسط1

پاکستان میں لوگوں کی اکثریت نے ڈارون کے نظریہِ ارتقاء کو یا تو پڑھا ہی نہیں اور اگر کسی نے پڑھا ہے تو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں تھا کیونکہ وہ سائنس کے طالبعلم نہیں ہیں میری معلومات کے مطابق شاید ایک فیصد لوگوں نے بھی ارتقاء کے بارے میں اصل کتابوں کا مطالعہ تو دور کی بات ہے شاید یہ کتابیں دیکھی بھی نہیں ہیں ہمارے ہاں نظریہ ارتقاء پہ جب بھی بحث ہوتی ہے تو ہم ایک دلچسپ مسئلہ سے دوچار ہوجاتے ہیں اور وہ ہے الہامی اور سائنسی علم میں بیان کئے گئے واقعات کا ٹکراؤ۔ اس بات پر تقریباً تمام محققین متفق ہیں کہ ہر چند کہ نظریہ ارتقا انواع کے وقوع پذیر ہونے کی بڑی حد تک تشفی بخش توجیہ کرتا ہے، نیز انواع کے تدریجاً وجود میں آنے کے خاطر خواہ شواہد بھی فراہم کرتا ہے، تاہم ایک خاص سطح تک آکر توجیہات میں واضح خلا دکھائی دینے لگتا ہے، مفروضاتی شواہد کا تناسب بڑھنے لگا ہے، اور نئی تحقیقات نئے بیانیے کی متقاضی نظر آتی ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈارون کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک ہمیشہ ایک سائنسی اقلیت ایسی موجود رہی ہے جو نظریہ ارتقا کی جانب داری اور الحاد کے ساتھ اس کی نامسعود نسبت (unholy marriage) کی مخالف رہی ہے۔ اور یہ سائنسی اقلیت محض الہامی کتابوں کے نظریہ تخلیق کے ماننے والے سائنس دانوں ہی پر مشتمل نہیں، بلکہ ان میں ارتقائی سائنس کے بھی بعض بڑے نام جن میں بقول جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) علمِ حیاتیات (biology) اور علمِ حیوانات (zoology) کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse) اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen J. Gold) وغیرہ شامل ہیں جب کہ پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔

کرۂ ارضی پر پائے جانے والے اَدوارِ حیات میں سے اِس وقت ہم مرحلۂ حیاتِ جدید (Cenozoic Era) کے دور میں موجود ہیں، جسے سائنسی اِصطلاح میں ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن کے مطابق نوعِ اِنسانی بھی دُوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ’ممالیہ گروپ‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس نے اِنسان کو جانوروں کے درج ذیل حصے میں شمار کیا ہے :
Phylum…………………………..Chordata
Sub-Phylum…………………….Vertebrata
Class…………………………….Mammalia
Order………………………………Primate
Superfamily………………………Hominoid
Family……………………………Hominoid
Genus………………………………..Homo
Species………………………..Homosapien
جب سے ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقاء نے نوعِ اِنسانی کو بوزنہ (ape) ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے تب سے موجودہ دَور کو ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جانے لگا ہے اور اِس ضمن میں اِنسان کا الگ سے ذِکر نہیں کیا جاتا
لیمارک (Lamarck)، مالتھس (Malthas)، مینڈل (Mandle)، ڈاروِن (Darwin)، اوپرائن (Oparin)، مونوڈ (Monod)، وِلسن (Wilson)، اور دُوسرے بہت سے وہ لوگ جنہوں نے لیمارکزم ()، ڈاروِنزم (Darwinism) اور نیوڈاروِنزم (Neo Darwinism) جیسے اِرتقائی نظریات پیش کئے اُن کے تمام کئے دَھرے کا اِنحصار اِنسان اور دیگر جانوروں کے مابین پائی جانے والی کچھ مماثلتوں پر ہے۔وہ مماثلتیں مندرجہ ذیل ہیں :
حیاتیاتی مماثلتیں (biological similarities)
عضوِی یا ترکیبی مماثلتیں (anatomical similarities)
حیاتی کیمیائی مماثلتیں (biochemical similarities)
جینیاتی مماثلتیں (genetic similarities)
یہ تمام مماثلتیں جو طویل سائنسی تحقیقات کی بدولت دریافت کی گئی ہیں چارلس ڈارون نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنسان کا اِرتقاء ’یک خلوِی جسیمے (unicellular organism) سے ہوا اور وہ بوزنہ (ape) سے پروان چڑھا ہے
ایسوسی ايٹ پروفيسر شعبہ موليکولر بائيولوجی اينڈ جينٹک انجينئرنگ ناگپور يونيورسٹی انڈیا کے پروفیسر ڈاکٹر محمد رضوان اپنے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ڈارون کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک ہمیشہ ایک سائنسی اقلیت ایسی موجود رہی ہے جو نظریہ ارتقا کی جانب داری اور الحاد کے ساتھ اس کی نامسعود نسبت (unholy marriage) کی مخالف رہی ہے۔ اور یہ سائنسی اقلیت محض بائبل کے نظریہ تخلیق کے ماننے والے سائنس دانوں ہی پر مشتمل نہیں، بلکہ ان میں ارتقائی سائنس کے بھی بعض بڑے نام شامل ہیں (جن کا تذکرہ پچھلے مضامین میں آ چکا ہے۔) دوسری طرف سائنسی محققین کی اکثریت نظریہ ارتقا پر کامل ایمان رکھتی ہے، یعنی وہ نظریہ ارتقا میں پائے جانے والے خلا کو ٹکنالوجی اور فہم (comprehension) کا نقص مانتی ہے، اسے نظریہ ارتقا کی خامی نہیں سمجھتی بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو بدء الحیات اور ارتقائے حیات کے لیے کسی مافوق الفطرت ہستی کو ضروری نہیں جانتا اور نہ ہی انسان کی رہ نمائی کے لیے کسی وحی یا نبی یا پیغمبر کے وجود پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقا کو بہت سارے نظریات کی طرح انواع، بشمول انسان کے، وجود میں آنے کی مناسب توجیہ جانتا ہے۔ اس طبقے سے جڑے تمام افراد متبادلات کے لیے ذہن کھلا رکھتے ہیں۔یہ طبقہ عرفِ عام میں deistic کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک قلیل تعداد ان محققین کی بھی ہے جو theistic ہیں۔ یعنی انسانی تخلیق کو ایک ماورائے کائنات ہستی کے ذریعے انجام دیا گیا عظیم الشان کارنامہ مانتے ہیں۔ پیغمبر، وحی اور انسانی رہ نمائی کے لیے خدا یا اللہ کو ضروری جانتے اور مانتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ نظریہ ارتقا چونکہ مغرب میں ایک خاص پس منظر میں پروان چڑھا اور وہ پس منظر اسلامی دنیا کے پس منظر سے بالکل جدا ہے، اس لیے ارتقا کی بحثوں میں ابراہیمی مذہب یعنی یہودیت اور عیسائیت ہی زیرِ بحث آئے۔ اور یہ بالکل طبعی بات تھی۔ مسلم دنیا میں یہ علمی کام جمود کا شکار تھا۔ چنانچہ عرب، ترکی، مشرقی یوروپ اور بر صغیر ہند و پاک میں اسلام اور نظریہ ارتقا یعنی اسلامی تصور خدا اور نظریہ ارتقا پر لٹریچر مفقود نظر آتا ہے۔ اسلامی دنیا میں نظریہ ارتقا کو عیسائی نظر ہی سے دیکھا گیا ہے۔ تخلیق کا عیسائی بیانیہ چونکہ روز اوّل ہی سے نظریہ ارتقا کے مدِ مقابل آ چکا تھا یا لایا جا چکا تھا۔ اسی لیے مسلم دنیا میں بھی اس کی مخالفت بالکل اسی طرز پر کی گئی جس طرح عیسائی دنیا میں۔(ڈارون کو نظریہ ارتقاء کا بانی سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی مسلمان عباسی دور کے سائینٹسٹ کی دریافت ہے أبو عثمان عمرو بن بحر الكناني البصري 776عیسوی بصرہ میں پیدا ہوئے الجاحظ ان کا لقب تھا آپ نے 200 کتب لکھیں سائنس، جغرافیہ، علم الکلام، صرف ونحو پر کام کیا جن میں سائنسی لحاظ سے “کتاب الحیوان” وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے نظریہ ارتقاء پر لکھا اس انسائیکلوپیڈیا کتاب میں الجاحظ نے 350 جانداروں کا احوال بیان کیا ہے اس کتاب میں وہ نظریات پیش کیے گے جو ڈارون کی نظریہ ارتقاء سے ملتے ہیں ارتقاء کے بارے میں مسلمانوں کے یہ تصورات 19ویں صدی کے یورپ میں خاصے عام تھے۔ حتیٰ کہ ڈارون کے ایک ہم عصرجان ولیم ڈریپر نے 1878ء میں نظریۂ ارتقا کو ‘محمڈن تھیوری آف ایوولوشن’ یعنی ‘مسلمانوں کا نظریۂ ارتقاء سے موسوم کیا تھا۔ ڈارون نے جاحظ کے خیالات سے کتنا استفادہ کیا تھا اس پر ابھی شواہد جمع کرنا باقی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ عربی جانتے تھے.۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ارتقا کے نظریے کا موجد ڈارون نہیں ہے لیکن انھوں نے اپنے مشاہدات اور گہرے غور و فکر کے بعد اس نظریے کو ٹھوس عقلی اور استدلالی بنیاد فراہم کر دی جس نے دنیا کا فکری و علمی نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈارون نے شاید مسلمان سائنسدانوں کی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں وہیں سے اس کو آئیڈیا آیا اور پھر مزید تحقیق کے لیے وہ تجربات کرنے نکل گیا اس موضوع پر کچھ عرصہ قبل دو اقساط پر مبنی آرٹیکل شئیر کیا تھا ) یہ ایک بڑی عجیب و غریب صورتِ حال تھی اور آج بھی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مثلاً:
۱۔ اسلامی دنیا میں علمی کاموں کے لیے درکار ندرت و تخلیقیت کی کمی۔ ۲۔ تہذیبی زوال کا لازمی اثر تحقیق و تدوین کے کاموں پر ہونا۔ ۳۔ دینی و دنیاوی علوم کی تقسیم، فلسفہ اور مذہب کا جدا ہونا۔ ۴۔ عیسائیت کی طرز پر سائنس کو مذہب مخالف سمجھنے کا رجحان۔ ۵۔ سائنس کو الحاد کی سیڑھی سمجھنا۔ ۶۔ تحقیقاتی، تجزیاتی اور تنقیدی اداروں کا رو بہ زوال ہونا۔ ہمارے نزدیک مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر اسلامی نظریہ تخلیق یا تخلیق کا قرآنی نقطہ نظر جیسے بیانیے نظریہ ارتقاء اور عیسائیت و یہودیت کے مثلث میں جگہ ہی نہیں بنا سکے۔ چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت کے قائلین اور معتقدین کی تمام تر تحقیقات، نظریہ ارتقا کو رد و قبول کی دوئی (binary) ہی میں دیکھنے لگیں۔ اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ مشرق اور مشرق بعید بشمول چین میں نظریہ ارتقا کے لیے کوئی خاص علمی ہلچل پائی ہی نہیں گئی۔ اس کی وجہ ماہرین یہ مانتے ہیں کہ نظریہ ارتقا جوہری اعتبار سے ساختی مذاہب میں موجود ساختی تصور تخلیق پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ رہے فلسفے، جو اپنی اساس کے اعتبار سے ساختی نہیں ہیں اور تخلیقِ کائنات اور تخلیق انسان کا کوئی خاص ورلڈ ویو نہیں رکھتے وہ نظریہ ارتقا سے بہت کم متاثر ہو پائے۔ جیسے بدھ مت، یا شنتاؤازم یا کنفیوشنزم یا ہندو مت اور اس سے جڑے بہت سارے ویدک، آرین اور سناتن فلسفہ ہاے حیات اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ادھر گذشتہ چند دہائیوں سے عیسائی دنیا کے بعض اہم محققین نے نظریہ ارتقا اور بائبل کے تخلیقی بیانیے میں تطبیق کی کوشش کی ہے۔ یہ تمام محققین بائبل کے تخلیقی بیانیے پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں اور نظریہ ارتقا کو بھی جزوی طور پر یا بعض صورتوں میں مکمل طور پر صحیح مانتے ہیں۔ ایسے محققین خدا آشنا ارتقا پر یقین رکھتے ہیں۔ اور وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ڈارون سے قبل عیسائی دنیا میں ارتقا پر خاطر خواہ لٹریچر موجود ہے۔ اس لیے ڈارون کی تھیوری سے عیسائی نظریہ تخلیق پر کوئی ضرب نہیں پڑتی بلکہ ارتقا خدا کی صناعی کا مظہر ہے۔ مثلاً جان رے کی مشہور کتاب، جو 1692ء میں لکھی گئی، The Wisdom of God Manifested in the Work of Creation [۱]۔ ا سی طرح نباتاتی درجہ بندی کے لیے مشہور محقق کارل لیبنز نے 1735ء میں Systema Naturae لکھی، جس میں انھوں نے لکھا کہ اجناس (genera) ایک ساتھ بیک وقت خدا نے تخلیق کیں اور ان مختصر اجناس کے اختلاط سے پودوں کی نئی انواع کی تخلیق ہوئی۔ مندرجہ بالا دو مثالوں سے خدا آشنا ارتقا کے عیسائی قائلین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ماضی کے جید محققین ایک باعمل عیسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نظریہ ارتقا پر بھی یقین رکھتے تھے، بلکہ انھوں نے ڈارون سے تقریباً سو ڈیڑھ سو سال قبل ہی نظریہ ارتقا پر لکھنا اور بولنا شروع کر دیا تھا۔ یعنی ڈارون کا نظریہ ارتقا یونانی تہذیب سے ہو کر عیسائی دنیا سے گزرتا ہوا اپنی موجود شکل میں ڈارون کے دور تک پہنچا۔ اور یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن عیسائی دنیا میں خدا آشنا ارتقا پر زبردست تنقید ہوئی اور خدا آشنا ارتقا کے حاملین و معتقدین پر کفر و تکفیر کے فتوے جاری ہوئے! اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ در اصل بائبل کا تخلیقی بیانیہ اس کی اصل وجہ بنا۔ بائبل کے مطابق زمین صرف چند ہزار سال پرانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا کو تسلیم کرنے والے جدید عیسائی ارتقا کم از کم بائبل کے عجیب و غریب تخلیقی بیانیے کو قابل قبول بنانے کی ایک کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کو ماننے والے ارتقائی محققین کے مطابق
۱۔ زمین کی عمر کئی بلین سال ہے اور اس کی تخلیق بگ بینگ کے ذریعے ہوئی ہے۔ بائبل کے تخلیقی بیانیے کو نئی نظر اور زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
۲۔ زمین میں موجود تمام مخلوقات بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ تدریجاً وجود میں آئی ہیں۔ نظریہ ارتقا ان کے وجود میں آنے کی بڑی حد تک درست توجیہ ہے۔
۳۔ انسان، بشمول اس کے تمام خصائص کے، خدا کے حکم کے ذریعے بتدریج انسان نما جانداروں سے وجود میں آیا۔
خدا کو ماننے والے ارتقائی محققین بائبل کے بہت سے بیانیے سائنسی تحقیقات کی روشنی میں دوبارہ استنباط و استخراج کے متقاضی ہیں خدا کو تسلیم کرنے والوں میں نظریہ ارتقاء کے محققین میں سب سے اہم ناموں میں سے ایک نام “فرانسس کولنز” کا ہے۔ کولنز ماہر جینیات (geneticist) ہیں۔ ان کی مشہورِ زمانہ کتاب The Language of God: A Scientist Presents Evidence of Belief نے لاکھوں عیسائی متشککین کو دوبارہ عیسائیت کے آغوش میں پناہ لینے کی جرأت نصیب کی۔ گبرسن نامی محقق کے ساتھ لکھی گئی ان کی کتاب کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’اگر ارتقا کو صحیح طریقہ سے سمجھا جاسکے تو یہ خدا کی تخلیق کی بہترین تشریح ہے۔ ‘‘
جاری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply