ہم وحشی درندے ہیں۔۔۔رمشا تبسم

سوچ کیا ہے؟ سوچ اگر اچھی ہو تو یہ روشنی ہے.اور اگر بری ہو تو انسان اندھیروں میں کھوجاتا ہے۔سوچ کو اندھیرا یا اجالا قارئین خود تحریر پڑھ کہ اخذ کریں گے۔

ہر روز ہمارے معاشرے میں دل کو دہلا دینے والے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ہمارا معاشرہ پنجابی, سندھی, بلوچی, پٹھان, مہاجر, شیعہ, سنی,اہل حدیث ,دیو بندی,قادیانی وغیرہ کے مسائل میں الجھ کر تباہ ہوتا جارہا ہے۔یہ سب ہمیشہ سے انہی مسائل میں الجھے رہے ہیں اور سب کی سوچ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پروان چڑھتی رہی اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر آکر  کھڑا ہو گیا۔اب یہاں نہ قومیت کی بنیاد پہچان بنے گی نہ مذہب۔اب صرف ایک ہی پہچان قائم رہے گی اور وہ ہے قاتل اور مقتول کی۔اب اس ملک میں صرف دو شناخت ہیں ایک قاتل اور دوسرا مقتول۔اب دیکھنا ہےکتنے قاتل بنتے ہیں اور کتنے مقتول ۔ میں فی الحال اس معاشرے میں قاتلوں کی تعداد نہیں بتا سکتی نہ ہی مقتولوں کی کیونکہ قاتل اکثر کوئی ایک فرد نہیں بلکہ پورا بے حس معاشرہ , بے حس سوچ اور ناکام سسٹم ہوتا ہے اسی طرح مقتول بھی کوئی ایک شخص نہیں بلکہ پورا لاچار, بے بس معاشرہ اور ظلم کو دل سے محسوس کر کے آنسو بہانے والے سبھی ہوتے ہیں۔

بچپن میں 1999میں جب ایک جاوید اقبال نامی سیریل کلر نے سو سے زیادہ بچوں کا بہیمانہ قتل کیا۔اس وقت پہلی بار زندگی میں خوف محسوس ہوا تھا۔ بچپن کا وہ خوف اتنا گہرا دل میں تھا کہ کئی  دن تک گلی محلوں میں نکل کر کھیلنا تو دور گھروں کی چھتوں پر چڑھتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا کہ   کہیں انسان نما کوئی بھوت,شیطان, آدم خور وحشی درندہ حملہ آور نہ ہو جائے۔بچپن تھا کھیل کود میں مصروف ہو گئے ،یہ واقعہ  دل میں کہیں چھپ سا گیا۔اور پھر سے محسوس ہوا کہ  انسانوں کی دنیا خوبصورت ہے اور اتنی بھیانک بھی نہیں ہے ۔تھوڑا سا بڑے ہوئے تو 2010 میں سیالکوٹ میں منیب اور مغیث کا ایک ہجوم کے ہاتھوں پُرتشدد قتل دیکھ کر ایک بار پھر دل کو محسوس ہوا کہ  بچپن کے وہ وحشی درندے اب بھی زندہ ہیں۔اب یہ ڈر دل کے کسی کونے میں چھپ نہ سکا بلکہ ہر روز کسی نہ کسی قتل کی صورت میں سامنے آتا گیا۔پھر ہماری آنکھوں نے کبھی معصوم بچوں کا ریپ دیکھا تو کبھی کسی ہجوم کے ہاتھوں تشدد سہتے زندگی کی بھیک مانگتے خون میں لت پت تڑپتے سسکتے انسان دیکھے۔ اور اب یہ معمول بن گیا ہے آئے دن ہماری سڑکوں ,کالجوں ,سکولوں, یونیورسٹیوں, مدرسوں ,کوڑے کے ڈھیروں ,فصلوں, میدانوں, گھروں , ہوٹلوں , ہسپتالوں, تالابوں ,جھیلوں ,نہروں, سمندروں, گٹر وں گویا کہ  ہر جگہ سے لاشیں ہی لاشیں ملتی ہیں۔کبھی معصوم زندگیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر ان کا جسم نوچ کھاتے ہیں۔کہیں ذاتی دشمنی پر تشدد کر کر کے زندگی کو تڑپا تڑپا کر ختم کرتے ہیں۔لوٹ مار کی ہوس کے پجاری نہ صرف دولت لوٹنے میں مصروف ہیں بلکہ عزت اور زندگی بھی لوٹ لے جاتے ہیں۔

کہیں دینی اور دنیاوی تعلیم مہیا کرنے والے عزتوں پر داغ لگاتے اور موت بانٹتے نظر آتے ہیں تو کہیں ڈاکٹر, وکیل , پولیس اور جج جیسے محافظ اور مسیحا اپنے وحشی ہونے کا ثبوت دیتے نظر آتے ہیں۔کہیں باپ اپنی بیٹی کو چند پیسوں پر جسم فروشی کے لئے پیش کرتا نظر آتا ہے تو کہیں بھائی کی جان بچانے کی خاطر بہنیں بیٹیاں ونی ہوتی اور عزتیں گنواتی پائی جاتی ہیں۔کہیں باپ دوسرس شادی کی خاطر بیوی بچوں کو موت کے گھات اتار رہا ہے تو کہیں بیٹا جائیداد کی خاطر گھر والوں کا قتل عام کرتا نظر آتا ہے.کہیں عورتیں قتل و غارت اور عزتوں کا سودا کرتی نظر آتیں ہیں۔کہیں کوئی کسی کو توہین رسالت کا مجرم بنا کر قتل کر رہا ہے تو کوئی عورتوں کو برہنہ کر کے بازاروں میں گھما رہا ہے۔ کوئی سڑک پر گرا پٹرول اٹھانے کے لئے گھروں سے برتن لئے نکل پڑتا ہے اور آگ لگنے سے پورے کا پورا گاؤں جھلس جاتا ہے۔کہیں محافظ معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔کہیں ہجوم کسی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور سینکڑوں لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں اور سینکڑوں   تماشائی بنے کھڑے  دیکھتے ہیں۔ابھی حال ہی میں معصوم بچے ریحان اور مسکین خان کا واقعہ  دیکھ لیں۔یہاں وحشت کا اب راج ہے یہاں اب شیطانی وحشی درندے بسنے لگ گئے ہیں۔ہم ایک وحشی قوم بن گئے ہیں۔ہم میں سے کچھ مکمل وحشی درندے بن چکے ہیں۔کچھ ان درندوں کا ساتھ والے ہیں۔کچھ ابھی ان درندوں کو برا کہنے والے قائم ہیں مگر کب تک؟صرف اس وقت تک جب تک ہم ان وحشی درندوں کا شکار ہو کر مقتول نہیں بن جاتے یا انہی وحشی درندوں کی مانند وحشی نہیں بن جاتے۔

ان مرنے والوں,تشدد سہنے والوں, جنسی ہوس کا نشانہ بننے والوں اور جلنے والوں میں صرف وہ لاشیں نہیں ہیں جو موقع پر ملتی ہیں۔ بلکہ مرنے والوں میں اور بھی بہت لوگ ہیں جن کے جسم شاید اس تشدد ,درندگی,آگ, اور ظلم و ستم سے محفوظ رہ جاتے ہیں مگر روح جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں بیٹھے اس طرح کے واقعات پہ افسردہ ہوتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں ۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ضمیر جن کی سوچ اس طرح کے حادثات نے اب بھی نہیں بدلی اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس طرح کے حادثات دیکھ کر خوف زدہ ہیں دلبرداشتہ ہیں ،جن میں آپ اور میں بھی شامل ہیں اور ہم سب اس طرح کے حادثات میں مرنے والوں کے ساتھ فوراً مرتے نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ذہنی اذیت سہتے ہیں مگر ہمارے دل اور روح اس طرح کی درندگی دیکھ دیکھ کر اب مرتے  جا رہے  ہیں  ۔وہ تشدد سہتے اور کسی آفت کا شکار ہوتے لوگ فوراًمر جاتے ہیں وہ لاشیں ایک دم دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں اور ہمیں ابھی مزید اپنی روحوں کی جلن کو سہنا ہے اور اس گھٹن میں جینا ہے۔

کچھ لوگوں کے مطابق اس طرح کے حادثات کسی لالچ یا لاپرواہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

کچھ ایسے سیاسی بیمار جنہیں گھر میں نکلنے والے کاکروچ کی ذمہ داری بھی حکومت پہ ڈالنی ہوتی ہے ایسے سیاسی بیمار فوراً پلک جھپکتے سارا ملبہ موجودہ حکومت پہ ڈال دیتے ہیں۔۔کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سرسری سی نگاہ خبر پر ڈالتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے چینل بدل دیتے ہیں کہ یہ قوم ہے ہی وحشی جاہل ،کبھی نہیں سدھرے گی۔۔

بہت کم ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس طرح کے واقعات کو واقعی ایک المناک سانحہ جانتے اور سوچنے کی زحمت کرتے ہیں کے ان واقعات کی اصل وجہ کیا بنتی ہے؟۔ کیا غربت وجہ ہوتی ہے؟جہالت وجہ ہے؟اپنی انا کی تسکین؟تشدد پسند سوچ؟ موجودہ حکومت کی نا اہلی؟ یا مثبت سوچ کی کمی؟
اور اگر مان لیں کہ  یہ قوم اب وحشی درندہ ہے تو اس قوم کو سدھارنے میں آپ کا میرا کردار کیا ہے؟
ہم میں سے کبھی کسی شخص نے اس طرف سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ہمیں اپنا حصہ کہاں اور کیسے ڈالنا ہے تاکہ قوم کی بہتری کی طرف ہم ایک قدم بڑھا سکیں۔

ہمیں کم سے کم اب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ بحیثیت قوم ہماری تربیت ہماری سوچ میں بہت خامیاں ہیں۔ ہم اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیں گم شدہ چیز ملنے پہ اس کے مالک تک پہنچانے پہ اجر دیتا ہے۔ ایسا مذہب جہاں اپنی کوشش سے لوگوں کو  بہتری کی طرف قدم بڑھانا سکھایا جاتا ہے۔ایسے مذہب سے تعلق ہے جہاں ہمسائے کا مال و دولت اور عزت دوسرے پر حرام ہے۔جہاں انسانیت کا درس ملتا ہے۔ اور افسوس آج بھی ہم بحیثیت انسان، بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم انتہائی کم تر سوچ رکھتے،اور پنجابی کے اس جملے پہ عمل کرتے ہیں کہ “لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی”۔ ہم حکمرانوں کی کرپشن اور ظلم کا رونا روتے ہیں مگر ہم میں سے ہر شخص کرپٹ اور ظالم ہے۔ جس کو جتنا موقع ملتا ہے اپنے لئے کرپشن اور ظلم کرتا ہے، مزدور مزدوری کے اوقات میں۔ طالب علم امتحانات اور پڑھائی میں،افسر دفتری کاموں میں اور اس کے علاوہ بھی اپنے آپ کو سہولت پہنچانے اور دقت سے پچانے کے  لئے ہر شخص اپنی سہولت کے  طور پہ کرپشن کرتا ہے۔ جس کی جتنی طاقت ہوتی ہے وہ اتنی استعمال کرتا ہے۔افسر جس حد تک ماتحت پر حکم چلا سکتا ہے چلاتا ہے۔مالک جس حد تک نوکر اور غلام پر جبر کر سکتا ہے کرتا ہے۔

کیا ہم خود کو کبھی اس کرپشن سے پاک کرسکتے ہیں؟کیا ہم اختیارات ہونے کے باوجود بھی ظلم کرنے سے خود کو روک سکتے ہیں؟ مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں، مگر  افسوس! ہم  وہ پہلا قدم ہی نہیں اٹھا سکتے جو تبدیلی کی طرف ہو۔ ہمیں اب خود کو چھوٹی بڑی بے ایمانیوں سے چھوٹے بڑے ظلم و ستم اور زیادتیوں سے روک کر اپنی نسل کی تربیت کرنی ہے کہ کسی کی چیز لینا بری بات ہے ،کسی کے ساتھ ظلم کرنا غلط ہے، کسی کو مارنا پیٹنا غلط ہے، برداشت کا اجر زیادہ ہے، برداشت میں سکون ہے۔ہمیں اب نفرت پسند سوچ کا خاتمہ محبت سے کرنا ہے۔ہمیں دِلوں میں محبت جگانی ہے۔آنے والی نسلوں کی تربیت اس طرح کرنی ہے کہ  تشدد پسند سوچ کا ایک بیج بھی  ان کے دل و دماغ میں پروان نہ چڑھ سکے۔ہمیں ظلم و ستم سے نفرت کرنی ہے تاکہ ہماری نسلوں تک یہ واضح پیغام پہنچے کہ  انکا تشدد پسند رویہ قابل ستائش نہیں بلکہ قابل نفرت ہے۔ ہمیں اب سوچ میں مثبت تبدیلی اور تربیت کی بدولت آئندہ اپنی قوم کو وحشی بننے سے روکنا ہے۔پھر ہی ہم خود کو نا صرف دنیاوی تشدد اور آگ سے محفوظ کر سکتے ہیں بلکہ جہنم کی آگ سے بھی بچانے کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔اساتذہ اور والدین دونوں کے کندھوں پر بھی آنے والی نسل کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اور یہاں سے ہی مثبت سوچ پروان چڑھنا شروع ہو گی۔۔

اب بات آتی ہے حکومت کی ،تو حکومت ِ وقت چاہے بلواسطہ  یا بلاواسطہ کسی بھی واقعہ کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ ہاں مگر پاکستان میں آنے والی اب تک تمام حکومتیں ہر طرح کے واقعات کی ذمہ دار ضرور   ہیں ،کیونکہ اب تک کسی بھی حکومت یا کسی بھی حکمران نے کبھی بحیثیت قوم ہماری اصلاح اور تربیت پہ توجہ نہیں دی۔ کسی بھی دور میں کسی بھی حکمران نے ہماری سوچ کو مثبت اور صحیح راہ کی طرف گامزن نہیں کیا۔ سیاسی سطح پہ ہمیشہ ایک جنگ کی صورت  حال رہی اور صرف اقتدار کی جنگ رہی ۔ اور اس اقتدار کی جنگ میں حکمران قوم کی تربیت پسِ  پشت ڈال کر  آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ہر سیاسی راہنما صرف خود کا پرچار کرنے اور دوسروں کا دامن داغدار کرنے میں مصروف رہا، اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔کسی نے قوم کو وحشی درندہ ہونے سے روکنے کی خاطر کچھ نہ کیا۔کسی نے اس بھٹکتی قوم کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی۔ اور قوم کسی بھیڑ بکریوں کے  ریوڑ کی طرح بس گھاس چرتی کبھی کسی کے  کھیت میں گھستی ہے تو کبھی کسی کے اور اسی سلسلے میں اکثر چرنے میں ناکامی کی صورت میں یہ انسان نما بھیڑ بکریاں کبھی کسی آفت کے ہاتھوں شکار ہو رہی ہیں اور کبھی آپس میں ہی لڑتے لڑتے ایک دوسرے کے سینگوں کا شکار ہو کر زخمی ہو رہی ہیں۔حکومتوں کو اب عوام میں بنے وحشی درندوں سے لے کر مزید درندے بنتے اور ظلم سہتے تمام لوگوں کی تربیت کرنے کے لئے اقدام اٹھانے ہونگے ۔عوام اور حکومت مل کر اس وحشی قوم کو درست راہ پر گامزن کر سکتی ہے ۔

اور کبھی شکار  ہونے والے اجسام جھلس کر رہ جاتے ہیں اور کبھی عزتیں گنواتے تشدد سہتے نظر آتے ہیں۔اور ہماری سوچ کو اب ہر روز  جُھلسنا ہے۔ ہمیں اب یہ سوچنا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو روشن بنا کر آئندہ کے  لئے خود کو اور آنے والی نسلوں کو جھلسنے سے بچانا ہے یا اپنی سوچ کو اندھیرا بنا کو ہمیشہ ایسے ہی جلتے رہنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

واقعات  بہت درد ناک ہوتے ہیں، اس طرح کے واقعات سے سوچ بدلیں ،خود کو بدلیں، معاشرہ بدلیں۔۔ اس طرح کے واقعات  کو لالچ یا جہالت کا نام دے کر نظریں نہ چرائیں۔ بیشک بہت سے گھر اجڑ چکے ہیں۔بہت آنسو بہائے جا چکے ہیں۔بہت لوگ تشدد سہہ چکے ہیں، بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اس طرح کے واقعات کو کوئی نام نہ دیں بلکہ وحشی قوم کو اب راہ راست پر لانے کی خاطر اپنا حصہ ڈالنا شروع کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply