مکالمہ کی تیسری سالگرہ۔۔۔۔محمد حسنین اشرف

فیس بک کی اردو دان دنیا میں جب قدم رکھا تو گوشہ نشین سا ہو رہا کیونکہ اس میدان میں قلم اٹھانے والوں میں فرنود اور حسنین جمال ایسے نام شامل تھے۔ فرنود کی تحاریر تھیں جس نے اردو زبان کا ایسا چسکا منہ کو لگایا کہ بس اللہ اللہ۔

شروع میں رد ِالحاد کی ہوا راس آئی اور پھر اس کوچے سے بہت بے آبرو ہوکر نکالے گئے۔ وجہ استاد محترم کی طرف قلبی میلان تھا۔ طبیعت آج تک اس پر راضی نہ ہوئی کہ جو سوچا اور سمجھا اس کے برعکس کچھ لکھا جائے اس لیے چپ کرکے اپنی ہی دیوار کی منڈیر بیٹھ لیے اور آتے جاتے خلق خدا کو تکنے لگے۔ پھر یہ ہوا کہ ویب سائٹس بننا شروع ہوئیں، ہر کونے کھدرے سے لکھنے والے پل پڑے۔ گھسمان کے اس رن میں، رن اور رن مرید ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔

خدا بھلا کرے ان ویب سائٹس کا جنہوں نے لکھاری کے  قلم کو عزت بخشی اور زبان بیان کا یہ عمل ہمارے ہاں بھی جاری ہوا۔ اس سب کے دوران اپنے انعام بھائی نے بھی ٹھانی کہ  قوم کو مار دھاڑ کی دانشوری سے نکال کر مکالماتی اسلوب گفتگو کی طرف مائل کیا جائے۔ وہ قوم جو پہلے خاموش تھی اب اچانک سے زباں ملتے ہی ابے تبے پر اترتی  آ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنا ہے مکالمہ کا پودا جو تین سال قبل لگایا تھا اب اس کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں ۔ مجھ خاکسار کے پلے لفظ ہیں، بس یہ سمجھو کہ فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کی گردان یاد نہیں، کیا افاعیل اور کیا اوزان۔ بس بے ڈھنگے، پھیکے سے لفظ۔ اس کار خیر کے لیے بطور نذرانہ وہی بھجوا رہا ہوں۔ دعا ہے کہ خداوند کریم انعام بھائی کے اس پودے کو شجر بنائیں کہ ہمیں بھی مکالمہ کی شرینی اسی توسط سے ہماری قوم میں محسوس ہو۔ جہاں مجھے سکون ہو کہ محض سوچنے کے جرم میں میری زبان و ذہن کی طاقتیں صلب نہیں ہوجائیں گی۔

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply