سیلن زدہ تاریخوں کا جال۔۔۔رمشا تبسم

کچھ تاریخیں زندگی میں بہت اہم ہوا کرتی ہیں۔ کیلنڈر بدل جاتے ہیں , ماہ و سال بدل جاتے ہیں, موسم بھی بدل جاتے ہیں۔ مگر وہ تاریخ ہمارے دل میں اس قدر گہری اور نمایاں رہتی ہے کہ  ہم اس تاریخ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔۔ہم اس تاریخ کو دل ودماغ سے نکال نہیں سکتے۔۔کیلنڈروں کے بدلنے کے باوجود وہ تاریخ دل میں موجود رہتی ہے۔اپنی سیلن سے ہمارے وجود کو بھی سیلن زدہ کرتی رہتی ہے۔۔ حالات کچھ بھی ہوں, موسم کچھ بھی ہو, چاہے ٹھنڈی ہوا ہو یا صحرا کی تپش , خشک پتے جھڑنے کا موسم ہو یا ہریالی کا , بارش کی بوندیں رقص کناں ہوں یا خشک سالی کا سماں ہو ,مگر وہ تاریخ کالی گٹھا کی مانند ہی رہتی ہے۔ہماری خوشیوں میں بھی اس تاریخ کی طوفان برپا کر دینے والی حیثیت برقرار رہتی ہے۔

کبھی یہ تاریخ خوشحالی میں خوشیوں کے ہجوم میں لمحہ بھر کو اپنی سیلن کا ایسا اثر کرتی ہے کہ ایسے محسوس ہوتا ہے  جیسے  ہم گرم صحرا میں ننگے پاؤں دور تک چل رہے ہیں, پاؤں میں آبلے پڑ گئے ہیں مگر رکنے کی اجازت نہیں۔۔ خود ہی درد سہنا ہے۔۔ خود ہی مرہم رکھنا ہے۔۔خود ہی تڑپنا ہے۔۔مگر سہنا ہے۔۔برداشت کرنا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی کبھی یہ تاریخیں روشنی میں بھی ایسے محسوس ہوتیں ہیں کہ  ہم قبر کی سی اندھیری جگہ میں اکیلے ہیں۔۔ ہم چیخنا چاہتے ہیں ,چیخ نہیں سکتے۔۔ ہم بھاگنا چاہتے ہیں اپنی حالت سے مگر بھاگ نہیں سکتے۔۔ ہم روشنی میں بھی خود کو اندھا محسوس کرتے ہیں۔۔آس پاس کی چیزیں دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔آنکھوں میں نمی زیادہ ہونے لگتی ہے۔۔حلق میں آواز کا دب جانا پل بھر کو تو موت کی تکلیف بھی اس تکلیف سے کم لگتی ہے۔۔ ایسی ہی کچھ تاریخیں ہوتی ہیں ان پر واقع ہونیوالا   حادثہ یا ان پر ہم سے بچھڑا ہوا کوئی شخص تا عمر ہمیں انہی تاریخوں میں الجھائے رکھتا  ہے۔۔آنکھ  کی پتلیوں پر یہ تاریخیں انگارے لئے لٹکتی رہتی ہیں۔ ہمیں تمام عمر جب بھی لمحہ بھر  کو یہ تاریخیں یاد آتیں ہیں تو ہم سانس لینے کی بجائے سانس روکنے میں عافیت جانتے ہیں کہ  کہیں سانس لیا تو جسم میں خون کی گردش, سانسوں کی حرارت , دل کی بے ترتیب سی دھڑکن اورماغ میں برپا طوفان سے آنکھیں چھلک نہ پڑیں۔ اور ہم کمزور نہ  دکھائی  دینے لگیں ۔ ہمارے اپنوں سے جدائی کی تاریخیں ہمیں ہمیشہ اپنے اثر میں رکھتی ہیں۔۔ کیلنڈر کی وہ تاریخ جس پر قدرت نے ہم سے ہمارا کوئی  اپنا چھین لیا ہو یا دور کر دیا ہو , ایسی تاریخیں کیلنڈروں پر بدل جاتی ہیں مگر ہماری زندگیوں میں یہ تاریخیں کبھی نہیں بدلتیں ۔۔ یہ تاریخیں ہمیں اپنے اثر میں قید لیتی ہیں۔۔ ان تاریخوں کی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے کہ  انسان کوئلوں پر بھی چلے, روئے بھی نہ, سانس بھی نہ لے سکے , جی بھی نہ سکے اور مر بھی نہ سکے۔۔ مگر جینا اسی کا نام ہے۔۔ زندگی کسی کے لئے رکتی  ہے نہ کسی کے جانے سے۔۔ہاں! پر گھٹن بھری ضرور ہو سکتی ہے۔۔سیلن زدہ ضرور ہوتی جاتی ہے۔۔اور اس سیلن میں اضافہ کرنے میں بھی یہی تاریخیں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔زندگی کی گھٹن اور دل پر موجود سیلن میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔۔ہم جتنے بھی کیلنڈروں کے  پنّے بدل لیں, جتنے بھی کیلنڈر دیواروں سے نوچ کر پھینک کیوں نہ دیں پھر بھی یہ تاریخیں دل و دماغ میں پیوستہ رہتی ہیں اور گھٹن میں اضافہ کرتی رہتی ہیں اس وقت تک جب تک ہم خود ایک تاریخ نہ بن جائیں۔۔اس وقت تک جب تک ہم خود کسی کے لئے ایک یاد نہ بن جائیں۔۔بالآخر ہمیں بھی کیلنڈر کی ایک تاریخ ہی تو بن جانا ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سیلن زدہ تاریخوں کا جال۔۔۔رمشا تبسم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم !
    رمشا جی ۔۔۔ !بلا شبہ درد کی اک نہایت بہترین عکاسی کی ہے آپ نے ۔۔۔۔۔ وہ دن۔۔۔۔۔۔ وہ لمحہ ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ وہ تاریخ ۔۔۔۔ ہر بار جس کے آتے ہی جسم و جاں اتنی ہی اذیت محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ . جتنی پہلی بار محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ آنکھیں پہلی بار کی طرح چھلک پڑتی ہیں ۔۔۔دل میں ان دیکھا دکھ کا جو تیراس تاریخ ۔۔۔۔اس دن۔۔۔۔ اس لمحے پیوست ہو جاتا ہے ۔۔۔۔وہ ہر بار اس تاریخ کو اذیت دیتا ہوا گڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔ بالکل سچ کہا آپ نے ۔۔۔اس تاریخ کی سیلن سے چھٹکارا صرف تب ہی ممکن ہے جب ہم خود تاریخ بن جائیں ۔۔۔۔
    اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو . . آمین

Leave a Reply to Uzma A G Cancel reply