• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بائیں بازو کی پارٹیاں اور نظریاتی، سیاسی و عملی سمت کا تعین۔۔۔خرم علی

بائیں بازو کی پارٹیاں اور نظریاتی، سیاسی و عملی سمت کا تعین۔۔۔خرم علی

مجھے عوامی ورکرز پارٹی کا حصہ بنے قریب ایک سال ہو چکا ہے مگر اس سے قبل ناچیز 2007 سے 2009 تک کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کے ساتھ وابستہ رہا ہے جس دوران وکلا تحریک کا بھی حصہ رہا، کراچی کے سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دینے کا موقع ملا اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بھی دوبارہ بنیاد رکھی۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں آرگنائزر کراچی پھر آرگنائزر سندھ اور مرکزی آرگنائزر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کے بعد عوامی جمہوری محاذ کومنظم کرنے کی کوشش کی اور ستمبر 2018 میں عوامی ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس ایک سال کے عرصہ میں مختلف یونٹس اور کمیٹیوں میں کام کرنے کا موقع ملا اور پارٹی میں مختلف پرتوں پر کام کرنے والے کارکنان و لیڈروں سے ملاقات ہوئی۔ پارٹی کے خواتین ونگ اور طلبہ ونگ کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ،خاص کر جب سے ہم نے کراچی بچاؤ تحریک کا آغاز کیا ہے۔ ان بارہ سالوں میں جو کچھ دیکھا اور سمجھا اس کی روشنی میں ایک تعمیری تجزیہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں یہ لیفٹ کے اندر اس حوالے سے ایک صحت مند بحث و مباحثہ کا آغاز کرے گا۔
سب سے پہلے تو بائیں بازو کی پارٹیاں اس حوالے سے مبارکباد کی مستحق ہیں کہ 2006-2007 سے مستقل نئے نوجوان اس نظریہ کے ساتھ جڑ رہے ہیں جو اس بات کی نشانی ہے کہ مارکسی نظریہ نا صرف زندہ ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے اور اس کے خلاف جدوجہد کے خد و خال کا تعین کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی درست نظریاتی و سیاسی تربیت کریں اور ان کی توانائیوں کو درست سمت میں لگا کر ان کی قابلیت اور انقلابی ولولے سے استفادہ حاصل کریں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب پارٹیاں خود نظریاتی و سیاسی حوالے سے کسی پختہ مقام پر کھڑی ہوں اور ان کے پاس ایک واضح حکمت عملی موجود ہو۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارٹیاں  اپنے اندر موجود مختلف رجحانات کو جوڑے رکھنے کے لئے اکثر مصالحت پسندی کا شکار ہو جاتی ہیں اور کسی بھی سوال پر ٹھوس پوزیشن لینے سے کتراتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارٹیاں نا صرف مختلف گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہیں بلکہ پیٹی بورژوا موقع پرستی اور انفرادیت کا شکار بھی ہو رہی ہیں۔ یہ وہ رویے ہیں جو آہستہ آہستہ پارٹیوں کے نظریے اور نتیجتاَ سیاست کو کھا رہے ہیں اور اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو جلد پارٹیاں فقط مباحثہ کلبز اور پریشر گروپس بن کر رہ جائیں گی۔
یوں تو ڈسپلن کا شدید فقدان، فرنٹس اور پارٹیوں کے مابین خلا، پارٹیوں کے کارکنان میں خودنمائی کی روش کا اجاگر ہونا، سوشل میڈیا پر اپنے ناموں کے پیج بنانے کا فیشن، ذاتی پروفائلز پر فالوورز بڑھانے کی تگ و دو، ذاتی جان پہچان کی وجہ سے مختلف این جی اوز و نیولبرل نظریات سے جڑے لوگوں کی تشہیر اور ان کا دفاع اور ایسے کئی رجحانات پریشان کرنے والے ہیں لیکن ان سب رجحانات کا سبب ایک ایسا رجحان ہے جو سمجھتا ہے کہ اب محنت کش طبقے  میں کام نہیں ہو سکتا اور پارٹیوں کو اپنی توجہات متوسط طبقے  کی طرف مرکوز کرنی چاہئیں۔ کسی بھی مارکسی پارٹی کے اندر ایسا رجحان پیدا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے اور ایک اشارہ ہے کہ اس پارٹی کی نظریاتی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور اس کے کارکنان تذبذب کا شکار ہیں۔ ممکن ہے کہ دانستہ طور پر کوئی ایسے رجحان کو جنم نہ دے رہا ہو لیکن لیفٹ میں موجود نظریاتی کنفیوژن اور کھلے ڈلے ڈھانچوں کی وجہ سے بہرحال ایسے رجحانات جنم تو لے رہے ہیں اور اگر فوری طور پر ان کا سدِباب نہ کیا گیا تو یہ لیفٹ کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیں گے۔
80 کی دہائی سے جس انداز میں نیولبرلزم نے ٹریڈ یونینز کو کمزور کیا ہے یہ رجحان اس کو جواز بنا کر یہ کہتا ہے کہ محنت کشوں میں کام کرنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب نیولبرلزم ہی کے تحت 80 کی دہائی سے تیزی سے پروان چڑھنے والے این جی او اور سول سوسائیٹی ماڈل میں پیٹی بورژوا طبقے  کی شرکت و شمولیت سے شاید بائیں بازو کے ان چند مفکروں نے یہ نتیجہ اخذ  کیا ہے کہ محنت کشوں کی جگہ انقلاب کو متوسط طبقے کے مستقل تھرکتے شانوں پر رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹریڈ یونینز کی پسپائی کو جواز بنا کر محنت کش طبقے سے آنکھیں چرانے والے نہ جانے کیوں یہی منطق متوسط طبقے  پر لاگو نہیں کرتے۔ متوسط طبقے میں سب سے اہم پرت طلبہ کی ہے لیکن ہمارے ان نئے مفکروں کو ٹریڈ یونینز تو کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہیں لیکن طلبہ یونینز ناپید ہوتی نہیں دکھائی دیتیں۔ ساتھ ہی ساتھ اگر کسی نے محنت کش طبقے اور طلبہ میں جا کر واقعی کام کیا ہو تو اس کو اندازہ ہو گا کہ کوئی بھی مزدور ٹریڈ یونینز کی افادیت سے انکار نہیں کرتا یعنی اس میں کسی درجہ ٹریڈ یونین شعور موجود ہے جبکہ طلبہ خود طلبہ یونینز کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نیولبرلزم کے پیداکردہ این جی او اور سول سوسائیٹی ماڈل نے لینن کے نکتہ ‘with out’ پر (لینن کو پڑھے بغیر) زیادہ موثر انداز میں عمل درآمد کیا ہے جو ‘کیا کیا جائے؟’ کا بنیادی سبق ہے۔ لینن لکھتا ہے کہ
We have said that there could not have been Social-Democratic consciousness among the workers. It would have to be brought to them from without. The history of all countries shows that the working class, exclusively by its own effort, is able to develop only trade union consciousness, i.e., the conviction that it is necessary to combine in unions, fight the employers, and strive to compel the government to pass necessary labour legislation, etc.
جیسے محنت کشوں کو ٹریڈ یونین شعور سے آگے کی جانب لے کر جانے کے لئے انقلابی شعور مارکسی پارٹیوں، دانشوروں اور طلبہ کو ‘ان میں باہر’ سے پیدا کرنا پڑتا ہے اسی طرح ٹریڈ یونین شعور کو پیچھے کی جانب دھکیلنے کے لئے بھی پسپائی کا رجحان بورژوا اور نیولبرل دانشوروں نے این جی اوز اور سول سوسائیٹی کے ذریعہ ان میں باہر سے پیدا کیا ہے۔ میں یہ بات کسی سنے سنائے مفروضے یا صرف کسی کتاب کے مشاہدے کے نتیجہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ میں نے خود ٹریڈیونینز کے ساتھ کام کر کے اور ان میں موجود رویوں کو سمجھنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
میں ٹھیکیداری نظام کے کردار کو ہر گز نظر انداز نہیں کر رہا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹریڈ یونینز میں جب سے این جی اوز اور بورژوا پارٹیوں نے کام کرنا شروع کیا ہے تب سے محنت کش طبقے نے اپنی قوت کے بجائے ان این جی اوز اور بورژوا پارٹیوں پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے اور پیڈ ایکٹوزم کا ایک ایسا کلچر پیدا ہوا ہے کہ اکثر ٹریڈ یونین لیڈران پیدا ہونے سے پہلے ہی کسی ایسے ادارے کے ہاتھوں بک کر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر انقلابی سیاست تو کجا ٹریڈ یونین سیاست کا بھی سودا کر چکے ہوتے ہیں۔ آج کی ٹریڈ یونینز کسی بھی بڑے معرکہ سے پہلے تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں اور مقتدر طبقات یا این جی اوز کی تلاش میں ہوتی ہیں اور یہ رجحان ان میں ایک دن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ سالوں نیولبرلزم کی فکر، این جی اوز اور مقتدر طبقات کی پارٹیوں نے اس رجحان کی پرورش کی ہے۔
دوسری جانب یہ این جی اوز اور سول سوسائیٹی ماڈل چونکہ امدادی انداز میں کام کر رہا ہوتا ہے تو وہ طبقاتی سوال کو مدھم کر کے اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنا دیتا ہے اور یوں ایک طرف مصالحت کا وہ کام کر کے جو یونینز کیا کرتی تھیں تضاد کو نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہونے سے روک دیتا ہے اور دوسری جانب یونینز کی بدولت محنت کش طبقے میں اپنے مسائل حل کرنے کے لئے جو طبقاتی شعور اور طبقاتی جڑت پیدا ہوا کرتی تھی اس کے برخلاف ان مسائل کی بارگیننگ ان کے طبقے  سے باہرانجام دے کر اس طبقاتی جڑت اور شعور کو ابھرنے سے روک دیتا ہے جس کی زندہ مثال بلدیہ فیکٹری کی negotiations میں این جی اوز کا کلیدی کردارہے۔
اس این جی او اور سول سوسائیٹی ماڈل سے نوجوان مڈل کلاس اسی طرح متاثر نظر آتی ہے جس طرح 1970 کے عشرے میں نیو لیفٹ کے ماڈل سے متاثر نظر آتی تھی۔ کیونکہ یہ دونوں ماڈل طبقاتی شعور کی جگہ بلا ارادیت پیدا ہونے والی تحریکوں پر زور دیتے ہیں جس کے لئے نہ کسی اصول و ضوابط پر کاربند ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی ڈسپلن کی۔ یوں یہ دونوں ماڈل متوسط طبقہ میں موجود آزادخیالی اور انفرادیت کو ختم کیے بغیر یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو انقلابی تصور کر سکیں۔ ان ہی بلاارادی تحریکوں کا سر بننے کے بجائے دُم بن کر ایک عرصہ تک کام کرنے کی وجہ سے لیفٹ کے اندر یہ رجحان پیدا ہوا ہے کہ وہ اس پیٹی بورژوا طبقہ اور سول سوسائیٹی کے ماڈل کو تبدیلی کا ہراول دستہ تصور کرنے لگا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیولبرلزم کے تئیں پیدا ہونے والے اس سول سوسائیٹی اور این جی او ماڈل کے پیچھے چلنے والی تحریکیں اگر اپنی دانست میں اینٹی نیولبرل بھی ہو تو وہ نادانستہ طور پر اس ہی نیولبرلزم کو مضبوط کرتی ہیں جب تک کہ اس کا رخ مارکسی لیننی اصولوں اور سمت کی طرف نہ موڑا جائے جس کے لئے بائیں بازو کو تحریکوں کی دُم کے بجائے ان کا سر بننا پڑے گا۔
یہ اتنا سادہ مسئلہ نہیں کہ ہم اسے کسی فرد یا گروہ کا مسئلہ کہہ کر نظرانداز کر دیں بلکہ یہ ایک روش ہے جس کے تحت یورپ و امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کردہ اکیمیڈیشنز ایک ملغوبہ سا بنا رہے ہیں جس میں ویسٹرن مارکسزم و نیو لیفٹ کی فکر کے تحت ایک طرف مارکسزم لیننزم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب گرامشی کے سول سوسائیٹی کے خیال کو توڑ مروڑ کر آج کے نیولبرل زمانہ میں موجود سول سوسائیٹی کی سیاست سے جوڑ کر ایک ایسا سیاسی ماڈل تیار کیا جا رہا ہے جس میں طبقاتی سوال مدھم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور شناخت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے۔ مارکسی دانشوروں کی ایک نئی پود جنم لے رہی ہے جو مارکسزم سے زیادہ پوسٹ مارکسی اور پوسٹ ماڈرنسٹ فلسفیوں سے متاثر نظر آتی ہے اور مارکسی فکر کے ارتقا کا سوال سامنے رکھا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ لینن کے ‘کیا کیا جائے’ کے فلسفہ کو سر کے بل کھڑا کر کے یہ خیال پیش کیا جا رہا ہے کہ تحریکیں پارٹیوں کو جنم دیتی ہیں نہ کہ پارٹیاں تحریکوں کو لہٰذا ہمیں اس وقت پارٹیوں سے زیادہ تحریکیں تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جبکہ حقیقت میں دونوں عوامل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں کو علیحدہ کر کے سوائے  ناکامی کچھ ہاتھ نہیں آ سکتا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ تاریخ کے مختلف مراحل پر بائیں بازو کے اندر ایسے آزاد خیال ٹولے جنم لیتے رہے ہیں۔ لینن کے زمانے  میں اکانومزم نے بھی ایسے ہی جنم لیا تھا اور اس وقت بھی بحث کا نکتہ بلاارادی تحریکیں اور شعور ہی بنا ہوا تھا۔ اس وقت بھی ایسے ٹولے موجود تھے جو کہتا تھا کہ محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا کام کرنے دیں اور سیاسی جدجہد کا کام مارکسی انٹیلی  جینسیاپر چھوڑ دیا جائے جو وہ لبرلز کے ساتھ مل کر کرے۔ اس وقت بھی ایسی فکر چاہتی تھی کہ مختلف فرنٹس پارٹی کے ماتحت نہ ہوں اور بھانت بھانت کے اسٹڈی گروپس اپنی مرضی سے چل رہے ہوں۔ اس وقت بھی بائیں بازو اورمحنت کشوں کو تحریکوں میں دوسری پارٹیوں کی دم بنایا جا رہا تھا اور آج بھی بائیں بازو کو تحریکوں میں این جی او اور سول سوسائیٹی کی دم بنایا جا رہا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر اس وقت بھی بائیاں بازو کسی ٹھوس حکمت عملی کے بغیر کام کئے جا رہا تھا اور آج بھی وہ اسی انداز میں کام کررہا ہے اور اپنی ناکامیوں کو یہ کہہ کر چھپا رہا ہے کہ محنت کش طبقے  میں کام کرنا ہی ممکن نہیں۔
مگر یہ خیال کہ ٹریڈ یونینز کی کمزوری کی وجہ سے محنت کش طبقہ میں کام کرنے کے دروازے بند ہو گئے ہیں یہ سراسر بے بنیاد خیال ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ کل تک ٹریڈ یونینز کے مضبوط ہونے سے محنت کش طبقہ اکھٹا ایک پلیٹ فارم پر میسر ہوا کرتا تھا لیکن آج جب این جی اوز اور سول سوسائیٹی نے ان اداروں کی جگہ لے لی تو ہم ٹریڈ یونین کی محنت کشوں کو آرگنائز کرنے کی اس افادیت سے محروم ہو گئے۔ پہلے کے مقابلے میں بس ہمارا کام مزید بڑھ گیا ہے کہ پہلے ہمیں آرگنائزڈ مزدوروں کو چار آنے آٹھ آنے کی لڑائی سے بالا ہو کر مجموعی نظام کے خلاف سیاسی شعور فراہم کرنا تھا مگر آج ہمیں محنت کش طبقہ کو ان این جی اوز اور سول سوسائیٹی کے جھانسوں سے نجات دلا کر اس کو اس کی اپنی طاقت کا بھی یقین دلانا ہے اور اسے منظم کر کے سیاسی شعور سے بھی لیس کرنا ہے تاکہ وہ باقی تمام پسے ہوئے طبقات کی رہنمائی کر کے مجموعی نظام کے خلاف جدوجہد کر سکے۔ کراچی بچاؤ تحریک کے دوران جس طرح عوامی ورکرز پارٹی، اس کے فرنٹس اور اتحادیوں نے این جی اوز سے لڑائی لڑی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیولبرلزم کے اس ماڈل سے لڑنا ایک مشکل عمل ضرور ہے لیکن اگر بائیں بازو کی پارٹیاں این جی اوز اور سول سوسائیٹی کو ٹھیک طرح سمجھیں اور ان کے حوالے سے غیر مصالحتی رویہ اختیار کریں تو یہ جنگ جیتنا ناممکن نہیں۔ اس وقت ہمیں این جی اوز اور سول سوسائیٹی کے پیٹی بورژا سوشل ایکٹوزم سے متاثر ہو کر متوسط طبقہ کی سیاست کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مارکسی نظریہ سے لیس ہو کر اس رویہ کے خلاف لڑ کر محنت کش طبقہ کو سیاسی شعور فراہم کرنے اور اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
مگر یہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک بائیں بازو کی پارٹیاں نظریاتی طور پر پختہ اور تنظیمی طور پر منظم نہ ہوں۔ ان پارٹیوں کے کاڈر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مارکسزم لیننزم کیا ہے اور کیوں وہ ان پارٹیوں کی نظریاتی اساس ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دور حاضر کے لٹریچر(خاص کر جو مارکسزم لیننزم کی فکر سے متصادم ہے) پر مبنی اسٹدی سرکلز رکھنے سے قبل مارکسزم لیننزم کے بنیادی کاموں پر اسٹڈی سرکلز کا اہتمام کرنا چاہیے۔ موجودہ ملکی و عالمی سطح پر موجود مختلف مخاصمانہ و غیر مخاصمانہ تضادات کا گہرائی سے جائزہ لے کر اس کا تعین کرنا چاہیے کہ کون سے تضادات اس وقت سب سے زیادہ اہم ہیں اور غیر مخاصمانہ تضادات کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ ان تضادات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد ایک واضح حکمت عملی مرتب دینے اور پارٹی، اس کی کمیٹیوں اور اس کے تمام فرنٹس اور ونگز کو پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مکمل جڑت کے ساتھ اس حکمت عملی پر کام کریں۔ بائیں بازو کی تنظیمیں اس وقت ایک اہم موڑ پر کھڑی ہیں اور اگر اس وقت انہوں نے اپنی نظریاتی، سیاسی اور عملی سمت کا صحیح انداز میں تعین نہ کیا تو شاید بہت دیر ہو جائے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply