قلندر کی ہیر۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط2

کوہستان نمک کی گود میں پھیلی وادیوں پر مشتمل سطح مرتفع پوٹھوہار کا علاقہ اتنا خوبصورت ہے کہ بابر بادشاہ نے اسے کشمیر کا بچہ کہا تھا۔ آب و ہوا رومانس سے بھرپور ہے، روحانیت کا یہ عالم کہ ہر گاؤں، قصبہ آبادی ،کسی نہ کسی زیارت مزار ۔دربار یا خانقاہ سے منسوب ہے، پہاڑیوں سے پھوٹتے چشمے ،ان سے بنتی ندی ،بارشی نالے اس کے حسن کی آتش کو ٹھنڈا رکھتے ہیں، درمیانے قد کے درخت ، پھلدار اور پھول دار جھاڑیاں، سبزہ، ہریالی، فضا میں پنپتے پیار کو معطر بناتے ہیں، گلاں کا گاؤں تو حسین مناظر کا مرقع تھا۔۔۔۔اس کی ماں نے سائیں غلام اور گلاں بیچ پھوٹتی کشش محسوس تو کر لی تھی، لیکن وہ اس کے تدارک سے عاری تھی۔۔۔گاؤں میں لڑکیوں کا مڈل سکول بھی تھا ،گلاں اس میں پڑھتی تھی، وہ خود صحت مرکز میں ملازم تھی، غلام جیسا بھی تھا ان کے گھر کے مرد جیسا تھا، وہ بھی درویش منش۔

گاؤں سے ملتا جلتا منظر

غلام کا چچا فوت ہوا تو اس کی میراث طبلوں کی جوڑی غلام کو مل گئی ۔ خاندان میں نہ اور کوئی   طبلہ بجانا جانتا تھا، نہ کسی نے سیکھنے کی کوشش کی، نئی نسل شہر جا کے مزدوری کرنے لگی، یا گاؤں میں متمول گھروں میں نوکر بن گئی۔غلام کے گھر تو نہ جگہ تھی نہ اس کی سوتیلی ماں گھر میں رکھنے دیتی، سو طبلے غلام نے گلاں کے گھر میں رکھوائے۔۔گلاں کبھی کبھی شغل میں بجانے کی کوشش کرتی۔گاؤں کے اکثر مرد فوج میں ملازم تھے یا ریٹائر فوجی تھے، گاؤں بڑا تھا بازار بھی تھا ۔ ملازمت کے علاوہ ذریعہ آمدن چھوٹے موٹے کاروبار اور زیادہ کھیتی باڑی تھے، مال مویشی پالنا آسان تھا چرنے کے لئے وسیع رقبہ تھا۔باوا وڈے شاہ کی زیارت والی پہاڑی سے متصل گاؤں کی جانب تو کھیت تھے، اس کے عقب میں ہزاروں کنال زمین  شاملات تھی، جسے بنجر یا کُھدر کہتے۔ جہاں لوگ مویشی چراتے اور جلانے کے لئے لکڑی بھی وہیں سے جمع کرتے،غلام شاہ بھی فارغ وقت دربار پہ  گزارتا یا گلاں سکول اور اس کی ماں مرکز جاتی تو ان کا گھر اور بکریاں سنبھالتا،گلاں سکول سے واپس آتی تو دونوں مل کے کچھ کھانا کھاتے، کھیلتے اور گلاں اسے پڑھانے کی کوشش بھی کرتی  ۔۔جوانی کب آتی ہے یہ کسی نے نہیں  جانا، گلاں کو بھی پتہ نہیں  لگا۔

گلاں کی فرضی فوٹو۔

ایک روز بیری کے نیچے غلام کے ساتھ چارپائی  پہ  بیٹھے اسے کتاب پڑھنا سکھاتے اس نے پاؤں غلام کے پاؤں پر رکھ دیا۔ غلام نے جھرجھری تو لی پر پاؤں نہ ہٹایا، گلاں نے ہولے ہولے پاؤں پہ  پاؤں رگڑا۔ گھٹنے بھی جڑ گئے،یہ مبارزت بڑھتی گئی، بدن اتصال سے پہلے سخت ہوئے پھر نرم ۔ بوسہ لینا تو نادانستہ تھا۔۔گلاں آٹھویں کلاس میں پہنچ گئی۔گاؤں کے دو بھائی  فوج سے ریٹائر ہوئے تو دونوں نے گاؤں میں ہی رہنے کا سوچا ۔ویسے دونوں نے راولپنڈی میں اڈیالہ روڈ پر بھی گھر بنا لئے تھے، فیملیز وہیں تھیں، بڑے بھائی  صوبیدار تھے ،بچےملازم اور شادی شدہ تھے، چھوٹے نائب صوبیدار ریٹائر ہوئے ،ان کے بھی بیٹے تو شادی شدہ تھے چھوٹی دو بیٹیاں پڑھ رہی تھیں۔ انکی ملازمت کے دوران انکے والدین انتقال کر گئے، گاؤں کی زمین نہ تقسیم ہوئی  اور نہ برادری کے دیگر حصہ داران سے واگزار ہوئی ، پرانی حویلی تھی جہاں وہ چھٹی گزارنے کے لیے  آ کر  رہتے، تو انکے رشتہ دار کیا سارا گاؤں ان کی بہت خاطر کرتا، ان کی ملکیت زمین دیگر سب سے زائد تھی،دونوں بھائیوں کے مزاج میں بہت فرق تھا۔ بڑے بھائی  درویش ٹائپ اور نرم خُو تھے جب کہ چھوٹے سخت مزاج اور پکے ڈسپلن والے فوجی تھے۔
ان کا پنڈی سے آنا جانا شروع ہوا تو گاؤں میں بھی ہلچل مچنے  لگی۔۔۔۔۔

پہلا اچھا کام یہ ہوا کہ صحت مرکز، پٹوار خانہ باقائدہ  فعال ہو گئے، لڑکیوں کا سکول بھی ہائی  سکول لیول پہ  اپ گریڈ ہو گیا۔ لڑکوں کے سکول گراؤنڈ بھی حد بندی کے بعد آباد ہو گئے،صوبیدار صاحب نے باوا وڈے شاہ کے مزار کی مرمت کرائی  اور پتھروں کی چار دیواری بھی ٹھیک کرا دی۔۔۔گاؤں سے دربار تک پگڈنڈی چوڑی کرا دی، یوں دربار پر آمد و رفت بھی بڑھ گئی،
جمعرات کے دن تو خاصا رش ہونے لگا۔۔۔چڑھاوے اور نذر نیاز لینے کی ڈیوٹی بدستور سائیں غلام کی رہی۔
وہ اب پیسے تو صوبیدار صاحب کو دینے لگا اور لنگر نیاز گاؤں کے احتیاج مند لے آتے۔۔نائب صوبیدار صاحب کو یہ سب پسند نہیں  تھا اور سائیں غلام تو انہیں ایک آنکھ نہیں  بھاتا تھا۔وہ گلاں کی ماں سے بھی ناخوش تھے۔ لیکن ان کا گاؤں آنا ہفتے  دو ہفتے  بعد ایک دن ہوتا ،اس لئے معمولات چلتے رہے۔
سائیں غلام کا لاری اڈے پہ  پانی بیچنا بند ہو گیا۔ اب وہ گلاں کے گھر کی راکھی ،اسکی اور مزار کی دیکھ بھال کرتا۔۔۔۔رات کو گھر جا کے سو جاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors
سائیں غلام ، خیالی تصور

گلاں میٹرک میں چلی گئی ۔ سکول سے واپسی کے بعد اور ماں کے مرکز سے واپس آنے کے دوران البتہ دونوں کو تنہائی  میسر ہوتی۔ جوانی کی مشکل ترین منزل شروع ہو گئی۔ نہ کسی نے دل مانگا اور نہ کسی نے دل دینے کا اقرار کیا۔۔۔لیکن پیار کا بندھن بس بندھتا گیا۔ گلاں سکول سے بہت سرعت سے چلتی گھر آتی، غلام بھی رات کو گھر بہت بوجھل قدموں سے جاتا۔
دونوں بغیر کچھ کہے ایک دوجے کو قبول کر بیٹھے تھے۔ ہاں مل بیٹھ کے بنا نام لئے شادی، دلہن بننا، بچے ہونا گھر بنانا،ان پر باتیں کرتے۔ گلاں اکثر کہتی میری گڑیا ہوتی تو اس کی شادی کرتی۔ اسے تو بچپن میں گڑیا نصیب ہی نہیں  ہوئی  تھی۔ روہانسی  ہوتی تو غلام اسے چپکا کے پیار کرتا ۔ کہتا گلاں میں جب اب شہر گیا ناں تو بڑی سی گڑیا لے کے آؤں گا ۔ گلاں لڑ پڑتی یہ کہتی پھر تم اس کو ہیر سناؤ گے، کئی بار طبلہ رکھ کے غلام اسے دھیمے  سُر میں ہیر سناتا ۔ وہ اس کی گودی میں سر رکھ دیتی۔
غلام اسے دربار کی کمائی  بارے روز بتاتا۔۔ کہ صوبیدار صاحب یہ پیسے امانت رکھتے ہیں، جب بہت سے جمع ہو جائیں گے ناں تو دربار کے ساتھ نیچے والی ہموار جگہ پہ  وہ مجھے ڈیرہ بنا کے دیں گے ۔
گلاں روٹھ جاتی۔ میں تو اماں سے کہوں گے مجھے اسی جگہ نیا گھر بنا دے ۔ پھر دونوں کچے فرش پہ  کانی سے لائنیں لگا کے گھر بناتے۔۔اس موقع پر یا اماں آ جاتی یا کوئی  بکری شور مچا دیتی۔
یہ مرحلہ غلام کے دل پہ  کندہ اور چہرے سے  ساری عمر عیاں رہا۔
جاری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply