“عکس” (2،آخری حصہ)۔۔نیّر عامر

اعجاز آج خاصے خوشگوار موڈ میں تھا۔ وہ سعد کے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اس کے گھر آیا تھا اور ساتھ میں بہت سے پھل، جوس کے ڈبے اور کھانے پینے کا کافی سامان بھی لے آیا تھا۔ “اس سب کی کیا ضرورت تھی، گھر میں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں۔۔۔” ثمینہ کا انداز بدلا بدلا سا تھا۔ “یہ تم کب سے اتنے تکلفات میں پڑنے لگیں۔۔۔؟” اعجاز نے اس کے گریز کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ “ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی، میرا دھیان اسی طرف لگا ہوا تھا۔” اس نے صفائی دی۔ اعجاز کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ اس نے روکھے لہجے میں کہا، “کون سی بات؟” “آپ جانتے ہیں کہ ڈاکٹرز نے سعد کو جواب دے دیا ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ صرف دعا ہی اس کے کام آ سکتی ہے۔ آپ بتائیں میں گناہگار کس منہ سے خدا کے حضور دست سوال بلند کروں۔ ؟ مجھے اس سے مانگتے ہوئے بہت شرم آتی ہے، اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے آپ کو اس غلاظت سے نکال کر سب سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کروں۔  آپ شادی شدہ ہیں۔ بیوی، بچے، گھر بار اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے،آپ بھی اپنے گھر، اپنی دنیا میں لوٹ جائیے۔۔۔ ہمارے درمیان جو یہ گناہ کا تعلق ہے، آئیں اسے توڑ کر ایک نئی، ایک صاف ستھری زندگی شروع کریں۔۔۔ شاید اللّٰہ ہمیں معاف کر دے۔ ”

اس کی بات سن کر وہ فوراً کھڑا ہو گیا اور طنزیہ ہنس کر بولا، “نو سو چوہے کھا کر بی بلی حج کو چلی۔۔۔ بات سنو! میرے سامنے یہ پارسائی کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  سعد کی بیماری تو ایک بہانہ ہے۔ کیا مجھے نہیں معلوم کہ میرے پیچھے یہاں کون آتا ہے؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ جس لونڈے کو تو سودے کے بہانے بلا لیتی ہے، اس پر دل آ گیا ہے تیرا۔  ایک بات بتا دوں میں تجھے ثمینہ! تو نے مجھے ڈبل کراس کرنے کی کوشش کی ناں تو تیرا جینا حرام کر دوں گا”۔ “آپ بلاوجہ اس کو کیوں بیچ میں لا رہے ہیں؟ وہ بچہ ہے، معصوم ہے۔ اس کا اس معاملے سے کیا تعلق۔  میں نے واقعی سچے دل سے اللہ سے عہد کیا ہے کہ کبھی گناہ کے راستے پر نہیں چلوں گی ۔ آپ میری مدد کر سکتے ہیں تو یہ آپ کی مہربانی اور بہت بڑی نیکی ہو گی، جس کا اجر آپ کو خدا دے گا اور اگر آپ نہیں کر سکتے تب بھی کوئی بات نہیں میں اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں وہ مجھے ہمت دے گا، تنہا اپنے مسائل کا سامنا کرنے کی۔ ” ثمینہ کا لہجہ اٹل تھا۔ اعجاز کچھ بھی کہے بغیر باہر نکل گیا۔
————————————————-

مہینے کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں اور اسے جلد از جلد ابا کی پینشن بک پر معمول کی دفتری کارروائی مکمل کروانی تھی۔ اعجاز یہ کام کرواتا تھا تو اسے دفتروں کے دھکے کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ مگر اب جبکہ اسے اعجاز کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ ٹکا سا جواب دے کر چلا گیا تھا۔  پڑوسن اچھی تھی، زیادہ سوال جواب کیے بغیر اس کے آنے تک سعد کے پاس ٹھہرنے کے لیے آمادہ ہو گئی۔ دفتر والوں نے اسے بتایا کہ اس کے ابا کے کاغذات میں کچھ پیچیدگیاں ہیں لہذا وہ ایک دو دن بعد دوبارہ چکر لگائے۔ اگلی بار پھر بات دو دن بعد پر ٹال دی گئی۔  اسی طرح پہلی تو کیا پانچ تاریخ گزر گئی لیکن کاغذات کا مسئلہ حل ہو کے نہیں دے رہا تھا۔ ایک ایک لمحہ اس پر قیامت بن کر گزر رہا تھا۔ گھر کا راشن، سعد کی دوا۔۔۔ سب ختم ہو گیا تھا۔ اس پر سعد کے معائنے کی تاریخ بھی سر پہ آگئی تھی۔ اس کی مامتا سسک کر رہ گئی۔

اب کی بار جب وہ دفتر گئی تو اکاؤنٹس کلرک کے لہجے میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی چاشنی گھلی ہوئی تھی۔ گزشتہ دو چار ملاقاتوں میں اسے علم ہو چکا تھا کہ ثمینہ بالکل اکیلی اور مجبور عورت ہے۔  وہ میز پر، سامنے بیٹھی ثمینہ کی جانب جھکتے ہوئے، ایک آنکھ دبا کر بولا، “آپ چاہیں تو آپ کا کام جلدی بھی ہو سکتا ہے۔ ” ثمینہ اس کے مدعا کو سمجھتے ہوئے بولی، “کیا مطلب ہے آپ کا ۔؟” “میرا مطلب اگر آپ ہماری خوشی کا خیال رکھیں تو ہم بھی آپ کی خوشی کا سامان کر سکتے ہیں۔” اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دباتے ہوئے کہا تو ثمینہ فوراً  اٹھ کھڑی ہوئی اور کچھ بھی کہے بغیر تیزی سے دفتر کے دروازے کو عبور کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ کاغذی معاملات میں یہ الجھاؤ اعجاز کا ہی پیدا کردہ ہے لیکن باہر کی دنیا میں نجانے کتنے اعجاز اس کو بھنبھوڑنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ ان حالات میں اسے اعجاز سے شکست تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی راہ سجھائی نہیں دی۔۔۔
————————————————-
کئی کوششوں کے بعد بالآخر اعجاز نے اس کا فون اٹھا لیا، “جلدی بولو! کیا بات ہے؟ میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔” اس نے تیور دکھائے تو ایک لمحے کو ثمینہ کا دل چاہا، فون بند کر دے مگر وہ مجبور تھی، اپنے لیے نہیں، اپنے مرتے ہوئے بیٹے کے لیے۔  اس نے پینشن کے سلسلے میں درپیش مشکل اس سے کہہ ڈالی۔ اعجاز پھر سے جتانے والے انداز میں گویا ہوا، “میں نے تو پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ میرے بغیر تم مشکل میں پڑ جاؤ گی، دیکھا ناں اب ۔” ثمینہ نے اس کی بات کو قطع کرتے ہو ئے کہا، “آپ نے ٹھیک کہا تھا، مجھے احساس ہو گیا ہے کہ یہ دنیا اکیلی عورت کا جینا محال کر دیتی ہے ۔ آپ کے ساتھ میرا جیسا بھی تعلق تھا، ایک فرضی سا سہارا تو تھا ۔”، “مطلب ؟! اب تم اس تعلق پر راضی ہو۔۔۔؟” اس نے معنی خیز انداز میں پوچھا۔ “آپ آج گھر آ جائیں، آپ کو پینشن کے کاغذات تیار ملیں گے۔  (ذرا توقف کے بعد) اور میں بھی۔۔۔” ثمینہ نے یہ کہہ کر بے بسی سے فون بند کردیا۔ یوں پھر سے ثمینہ کے گھر اعجاز کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے وہ ہوس پرستی کے اس کھیل کی شریک تھی اور اب شکار۔  اب اسے “لقمۂ حلال” اور حرام کا فرق دکھائی دینے لگا تھا۔ کبھی کبھی اسے شدت سے طاہر کا خیال آ جاتا تھا کہ جس کی معصومیت کو خود اس کی ہوس کے جبر نے نگل لیا تھا۔ اس وقت اسے خود سے نفرت سی ہونے لگتی، اپنے وجود سے گھن محسوس ہوتی۔۔۔ اور وہ سوچتی شاید اس کے گناہ کی یہی سزا ہے کہ اعجاز جیسا درندہ ہر روز اس کی بوٹیاں نوچتا رہے۔
————————————————-
اس دن سعد کی طبیعت بہت بہتر معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے ثمینہ سے ڈھیر ساری باتیں بھی کیں اور نوڈلز بنانے کی فرمائش بھی کی۔ اسے نوڈلز کھلا کر وہ خود بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ  گئی۔ سعد تھک کر سو چکا تھا۔ اسے بھی تھوڑی دیر کو اونگھ آ گئی۔۔۔ اچانک اسے لگا، جیسے کسی نے اسے جھٹکے سے، گہری نیند سے جگا دیا ہو۔ وقت دیکھا تو شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔ پتہ نہیں کیسے وہ اتنی دیر سوتی رہ گئی تھی۔ سعد کو ہاتھ لگایا تو وہ بخار میں پھنک رہا تھا۔ سوچا آج اعجاز کا ہاف ڈے ہو گا، جلدی سے اسے فون کرکے بلایا اور بچے کو ہسپتال لے گئی۔ ڈاکٹر زاہد بولے، “بچے کی حالت اچھی نہیں ہے، ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، آپ دعا کریں۔ ”

اعجاز رات آٹھ بجے تک اس کے پاس ٹھہرا لیکن اسے گھر بھی جانا تھا۔ وہ صبح آنے کا کہہ کر تو چلا گیا مگر صبح سے پہلے ہی سعد کی زندگی کی شام ہو گئی۔  رات تین بجے ثمینہ نے اسے فون کر کے اطلاع دی کہ وہ اپنا آخری سرمایہ بھی کھو چکی ہے ۔ بیوی سے دوست کے بیٹے کے انتقال کا بہانہ کر کے اعجاز وہاں پہنچا۔ یوں اعجاز اور چند محلے داروں نے مل کر اس کے بیٹے کو سپرد خاک کیا ۔ کچھ دن تک محلے کی کچھ عورتیں ہمدردی کرنے آ جاتی تھیں، مگر آہستہ آہستہ سب اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔۔۔ رہ گیا تھا، بس اس کا دکھ۔۔۔ اور ایک چھلنی سا وجود۔۔۔
————————————————–
طاہر ظہر کی نماز ادا کر کے دسترخوان پر آ گیا۔ آج کل دوپہر کے کھانے پر بھی دسترخوان پُررونق ہوا کرتا تھا۔ اس کی پھپھو ملتان سے آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کی چھٹیاں تھیں، لہٰذا انہوں نے کراچی آنے کا پروگرام بنا لیا۔ ان کی بیٹی فاریہ دس سال کی تھی اور بیٹا تابش چھ سال کا۔ دونوں سارا دن ادھم مچائے رکھتے۔ فاریہ میں چلبلا پن کچھ زیادہ ہی تھا۔ دس سال کی ہو گئی تھی مگر اچھل پھاند چار سال کی بچیوں والی تھی۔۔۔
کھانا کھانے کے بعد اس کی پھپھو اور امی بچوں کو لے کر قیلولہ  کرنے  چلی گئیں۔ طاہر بھی بچوں سے نظر بچا کر اپنے کمرے میں آیا اور دروازہ بھیڑنے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ لے کر، بستر پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کا کوئی خوفناک اور سنسنی خیز فلم دیکھنے کا موڈ ہو رہا تھا۔ ابھی فلم کا سسپنس عین عروج پر پہنچا ہی تھا کہ کوئی دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو فاریہ صاحبہ وارد ہو چکی تھیں۔ فلم روک کر اس نے پوچھا، “تم کیوں آئی ہو یہاں؟ جاؤ جا کے پھپھو کے پاس سو جاؤ!” مگر وہ کہاں سننے والی تھی، بستر پر چڑھ کر اس کے برابر میں بیٹھ گئی، “طاہر بھائی میں نہیں جاؤں گی، میں نے بھی مووی دیکھنی ہے آپ کے ساتھ۔۔۔” طاہر نے منع کیا، “نہیں بالکل نہیں۔۔۔ رات کو تمھیں ڈر لگے گا تو امی اور پھپھو سے میری شکایت کرو گی کہ طاہر بھائی نے مجھے ڈراؤنی فلم دکھائی تھی۔۔۔ چلو بھاگو۔۔۔!” “نہیں ناں نہیں کروں گی آپ کی شکایت۔۔۔ اور ویسے بھی اب مجھے ڈر نہیں لگتا، میں بڑی ہو گئی ہوں۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ضد کرنے لگی۔ طاہر نے اس کا ہاتھ جھٹک کر کہا، “چلو اگر مووی دیکھنی ہے تو دور ہٹ کے خاموشی سے دیکھو! مجھے ڈسٹرب کیا تو تمھیں باہر نکال کر اور خود روم لاک کر کے دیکھوں گا۔” اس نے اثبات میں سر ہلایا اور فلم دیکھنے لگی۔۔۔ فلم کے منظر میں نہایت حسین لڑکی نظر آ رہی تھی۔ فاریہ محویت سے اسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک وہ حسین چہرہ نہایت بھیانک چہرے میں بدل کر کیمرے کی جانب جھپٹ پڑتا ہے۔۔۔ اسے ایسا لگا جیسے یہ بھیانک چڑیل اس پر حملہ آور ہو گئی ہو۔ وہ سٹپٹا کر طاہر سے جا لپٹی۔ طاہر کے پورے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی۔۔۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی ہائی ٹینشن تار نے اسے جکڑ لیا ہو۔۔۔ وہ خوف سے بری طرح کانپ رہی تھی۔ طاہر اپنی جگہ ساکت کا ساکت رہ گیا۔۔۔ اندر سے وہ بھی لرز رہا تھا مگر فلم کے منظر کی وجہ سے نہیں بلکہ یکایک اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کے سبب۔۔۔ جیسے شیطان اپنے پنجے اس کے نفس میں پیوست کیے بیٹھا ہو اور اس کے ارادے کی مضبوطی اپنی پوری شدت سے اسے آزاد کرانے پر ڈٹی ہوئی ہو۔۔۔ اچانک اس کے دل میں ایک خیال کوندا اور اس نے جھٹکے سے فاریہ کو خود سے الگ کیا۔ اس کا دھکا اتنا شدید تھا کہ فاریہ نے بمشکل خود کو بیڈ سے نیچے گرنے سے بچایا۔۔۔ اسے پرے دھکیل کر طاہر اس تیزی سے دوڑتا ہوا گھر سے نکلا کہ اسے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ اس کے پیر میں چپل نہیں ہے۔۔۔
————————————————-

Advertisements
julia rana solicitors

اس نے دستک دینے کے لیے دروازے پر ہاتھ مارا ہی تھا کہ وہ کھلتا چلا گیا۔ شاید جلدبازی میں دروازے کی زنجیر ٹھیک سے نہیں لگائی جا سکی تھی۔ وہ اندر داخل ہوا تو کمرے کا دروازہ بھی نیم وا ملا۔ اندر سے کسی کی سسکیوں کے درمیان گفتگو کی آواز آ رہی تھی۔ وہ کان لگا کر پوری توجہ سے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ “ثمینہ جی میری مدد کریں پلیز۔۔۔ آج اگر مجھے آپ کی کہی ہوئی بات یاد نہ آتی تو شیطان مجھ پر حاوی ہو جاتا۔۔۔ اور۔۔۔ فاریہ کے ساتھ ساتھ میں خود بھی تباہی کے اس گڑھے میں گر جاتا جس میں سے شاید پوری زندگی باہر نہیں نکل پاتا۔۔۔” وہ نہ جانے کیا کیا کہتا چلا جا رہا تھا اور اس کا ایک ایک لفظ اس کے کانوں میں سیسہ انڈیل رہا تھا۔  اس آواز اور اس کی بیان کردہ تلخ حقیقت نے اسے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔ یہ طاہر تھا۔۔۔؟ !! اس کا اپنا بیٹا۔۔۔! اس عورت کی آغوش میں سر رکھے اپنی بے بسی کی داستان کہہ رہا تھا جو خود اس کی “غیر شرعی بیوی” کی، جبری زندگی گزار رہی تھی۔  اعجاز کے قدم زمین میں جم کر رہ گئے ۔ ایک ایک قدم منوں بھاری لگ رہا تھا۔  اس کی ہمت جواب دے چکی تھی کہ وہ دروازہ کھول کر ان دونوں کا سامنا ہی کر سکے ۔ ہر طرف طاہر کی زبانی، ثمینہ کے کہے ہوئے الفاظ گونج رہے تھے، “یاد رکھو! انسان کا گناہ مجسم ہو کر، کبھی نہ کبھی اس کے سامنے ضرور آتا ہے۔ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply