دھاتی ڈور سے زندگی کی ڈور تک۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

کل ایک جانکاہ سانحے سے عجب طریق سے جانکاری ہوئی۔ پورے ملک نے یہ سنسنی خیز خبر سنی۔ بادامی باغ کے قریب دھاتی ڈور نے ایک معصوم تین سالہ بچے کی زندگی کی ڈور کاٹ دی۔ بے تعلق خبر دماغ کو ملنے والی محض ایک اطلاع ہوتی ہے، لیکن جہاں تعلق ہو، قلبی تعلق ہو‘ وہاں ایسی خبر دل پر بجلی بن کر گرتی ہے۔ بچے کا والد‘ محمد اویس حیدر‘ دیرینہ شاگردوں میں سے ہے، یہ اپنے بچوں کو اُن کے ننھیال سے واپس گھر لے کر جا رہا تھا، بیٹا موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھا تھا، بڑی بہن اور اُس کی ماں یچھلی سیٹ پر تھے، اچانک بچے کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی، اویس نے گھبرا کر بریک لگائی لیکن اُن کی زندکی میں ایک کبھی نہ بھولنے والا واقعہ رقم ہو چکا تھا۔باپ کو اپنے ہاتھ میں ڈور لگی تو اُس کو اندازہ ہوا کہ یہ قاتل ڈور اُس کے بیٹے کے گلے میں پھر چکی ہے، اُس نے گھبرا کربچے کی گردن پر ہاتھ پھیرا تو خون کا فوارہ اچھل رہا تھا، ، اُس کے کپڑے اپنے ہی خون سے لت پت ہوگئے ۔ راہگیر نوجوانوں نے دم بخود باپ کے ہاتھوں سے ذبح شدہ بچے کو لیا اور قریبی ہسپتال کی طرف دوڑ لگا دی، لیکن جب شہ رگ ہی کٹ جائے تو کوئی کہاں تک دوڑ لگا سکتا ہے۔ آخرکار وہی ہوا‘ جس کے بارے میں کبھی اِس بچے کے ماں اور باپ نے ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہ کیا تھا۔ صرف آدھے گھنٹے کی بے سود دَوڑ دھوپ اور آہ بکا کے درمیان خاندان کی زندگی اندھیر ہو چکی تھی۔ یہ اُن کا اکلوتا بیٹا تھا، بچے تو سب کے پیارے ہوتے ہیں لیکن اویس کے بچے کچھ غیر معمولی حد تک پیارے تھے، جو بھی ملتا، اس کے بچوں کوگود میں لے لیتا، چومتا اور پیار کرتا۔ مزار واصفؒ پر اِن بچوں سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی ، بچے آکر گلے ملتے، تصویریں بناتے۔

مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اِس معصوم جان کے نقصان پرمیں اِس کے ماں باپ کو کن الفاظ میں تسلی دوں ، میرا ذخیرہ الفاظ ختم ہو چکا تھا اور لفظ ساکت ہو چکے تھے، اپنے غم کی ترجمانی کے لیے بھی مجھ ایسے جملہ ساز سے کوئی ایک جملہ بن نہیں پا رہا تھا۔ بچے کی ماں رو رو کر اس کی تصویریں دکھا رہی تھی ، یہ تصویریں اِس نے نانی کے گھر سے روانہ ہونے سے چند منٹ پہلے موبائل سے کھینچی تھیں، کسے معلوم تھا کہ یہ اُس کی زندگی کی آخری تصویریں ہوں گی۔ ماں اور بچے کے درمیان ایک عجب روحانی رشتہ ہوتا ہے، بچے کو تکلیف آنے سے پہلے ماں کو غیبی اشارے مل جاتے ہیں۔ چند روز قبل ماں نے تواتر سے انتہائی ڈراونے خواب دیکھے، اُس نے دیکھا جیسے قیامت برپا ہو چکی ہے، ہیبت ناک منظر ہے، مکان ٹوٹ رہے ہیں، اور وہ اویس کے ہمراہ ڈر اور ہیبت سے بھاگ رہی ہے، کہتی ہے بچوں کوبھی اٹھا لو، اور اویس کہتا ہے‘ نہیں ٗبچوں کو بچوں والے خود ہی سنبھال لیں گے—- اور پھر اور ایسے ہی ہوا، ماں کی زندگی میں قیامت گزر گئی اور بچے کے حقیقی والی وارث نے بچے کو سنبھال لیا ’’ وھو خیر الوارثین‘‘۔ اویس بلکتے ہوئے بتا رہا ہے کہ اِس کا نام خضر مرتضیٰ اِس لیے رکھا تھا کہ اِس کی لمبی عمر ہو، لیکن یہ اتنی مختصر عمر لے کر آیا۔ اسے کیا معلوم، معصومیت کے عالم میں جو اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوتا ہے ٗوہی تو عمرِ خضر پاتا ہے۔

ہمارے بچے، ہمارے والدین اورجملہ احباب اور رشتہ دار پہلے اُس خالق ذات کی ملکیت ہیں اور بعد میں رشتوں کی صورت میں ایک محدود مدت کے لیے عاریتاً ہماری مِلک میں دے دیے جاتے ہیں۔ مخلوق تمام کی تمام ٗ بلاشرکتِ غیرے مالک الملک کی مِلک ہے، ہم خود اس کی مِلک ہیں۔ وہ قادرِ مطلق ہے ، وہ اپنی مِلک میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ وہ اپنے مُلک میں جب چاہے اور جو چاہے فیصلہ صادر کرےٗ ہمیں اُس کا فیصلہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ طوعاً کرھا ًسب نے بالآخراُس کا حکم ماننا ہے، طوعاً مان لینے سے ہم تسلیم کے باب میں داخل کر لیے جاتے ہیں۔ بصورتِ دیگر صفات کی دنیا کا جبر ہمیں خود سے منوا لیتا ہے۔ مجھے اویس حیدر کو بس یہی بتانا ہے کہ ہمیں اُس کے فیصلے تسلیم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، ہم یہی تعلیم یاد رکھیں گے، یہی دہراتے رہے گے، اور یہی ایک دوسرے کو یاد دِلواتے رہیں گے۔

بچے کی ماں پوچھ رہی تھی کہ یہ کیا ہوا ہے؟ یہ ہمارامقدر ہے یا ہماری غفلت؟ کیا یہ حادثہ لکھا ہوا تھا یا ہماری احتیاط اِسے ٹال سکتی تھی؟ کاش میں اَمّی کے گھر رات ٹھہر جاتی ، سب لوگ مجھے روک بھی رہے تھے کہ صبح بچوں کو چھٹی ہے ٗ میں اُس وقت بچوں کو لے کر نہ نکلتی تو میرا بچہ بچ جاتا۔ مقدر کا تصور بھی انسانی شعور کے لیے ایک عجیب آسمانی تحفہ ہے… یہ بے چین دل کے لیے تسکین کا سامان بھی ہے اور پریشان ذہن کے لیے ایک کنج عافیت بھی!! اگر انسانی زندگی میں مقدّر کا تصور نہ ہو‘ تو انسان سبب اور نتیجے کی دنیا میں اسباب سے جھگڑا کرتا ہوا بے کیف ہو جائے۔ دنیائے اسباب میں اسباب‘ مقدر کے محتاج ہیں، مقدر کو اسباب کی احتیاج نہیں۔ ہماری تدبیر ہماری تقدیر کے تابع ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ تدبیر آلہ تقدیر ہے۔ اسباب اور نتائج جس آخری اور حتمی نقطے پر منتج ہوتے ہیںٗ اسے ہی مقدر کہتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان ہمارے ایمان کا جزو ہے، یعنی تقدیر پر ایمان لائے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ جس کا تقدیر پر ایمان ہے‘ اُس کے لیے صبر کرنا آسان ہے۔ صبر کی قوت دینے والا صبر کرنے والے کے ہمراہ ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے ٗمیرے ایک عمر رسیدہ مریض کا جواں سال بیٹا ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گیا، ابھی تین ماہ ہی گزرے کہ دوسرا بیٹا بھی ایک حادثے میں داغِ مفارقت دے گیا۔ مجھے سمجھ میں نہ آئے کہ اب دوسرے حادثے پر اسے کس طرح تسلی دوں۔ تعزیت کے موقع پراُس کے قریب ہو کر کان میں بس یہی کہہ پایا‘ سعید صاحب! ہمارے پیارے نبیؐ کے بھی دو بیٹے اللہ کو پیارے ہوئے تھے، یہ سننا تھا کہ بوڑھے اور بیمار باپ کو جیسے ایک تشفی مل گئی۔ سبحان اللہ! اُسوہ رسولِ کریمؐ ہر حال اور حالت میں ظاہری اور باطنی زندگی کے لیے ایک مثالی چارٹر ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں ایک مرتبہ کالج سے گھر جا رہا، موٹر سائیکل پر ایک بڑے میاں کو لفٹ دی تو معلوم ہوا کہ وہ مفلوک الحال ہیں،اُن کا جوان اور اکلوتا بیٹا اپنی بیوی اور بچوں کا باپ کے سر پر چھوڑ کر اپنے باپ کو غم دے کر غم ِ دنیا سے نکل چکا ہے۔ معلوم ہوا کہ گھر میں فاقہ بھی ہے، میں نے دیکھا کہ وہ خود کلامی کرتا ہوا کہہ رہا تھا ’’باؤ جی! میں سوچیا، کوئی گل نئیں ، جے فاقہ آگیا تے کی ہو گیا ، ساڈے نبیؐ نے وی تے فاقہ کٹیا اے‘‘ اُس کا مکالمہ سن کر میرے رگ و پے میں ایک سنسنی سی دَوڑ گئی، مجھے معلوم ہوا کہ اُسوہ ٔرسولؐ اِس شخص کے لیے بھی عمل ، صبر اور نجات کا باعث ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ‘ ایک مرتبہ مولانا محمد علی جوہر وائسرائے ہند سے گفتگو کر رہے تھے، بات مذاہب ِ عالم کی طرف چل نکلی، وائسرائے نے پوچھا‘ مسٹر جوہر! آپ یہ بتاؤ کہ آپ کے نبیؐ مدینہ کے بادشاہ کیوں بن گئے تھے؟ مولانا محمد علی جوہر نے اُس کے کمرے میں آویزاں کنگ جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ اِس لیے کہ اگر یہ شخص آج یہ پوچھے کہ میرے لیے رسول ؐ کی زندگی میں کیا نمونہ ہےٗ تو اِسے بھی اُسوہ ٔرسولؐ سے بقدرِ طلب اپنا حصہ مل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اویس میاں! تمہارا غم تو بہت بڑا ہے۔ بس یہ یاد رکھو کہ صبر کے میدان میں سارے سبق ہمیں میدانِ کربلا سے ملتے ہیں۔ تپتی ہوئی ریت پر معصوم علی اصغرؑ کی گردن میں اُترتے ہوئے تیر سے اُبلتا ہوا خون اور باپ کے ہاتھ میں چھ ماہ کے بچے کا تڑپتا ہوا لاشہ ہمیں بتاتا ہے کہ غم میں صبر کرنے والوں نے کیسے صبر کیا۔ پرانے غم پر غور کرو ٗ نیا غم شاید کم ہو جائے!!
قانون سازی میں لاپرواہی اور پھر قانون کی عمل درآمد میں کوتاہی ایسے اجتماعی جرم کی جواب دہی اَربابِ اِختیار کے ذمے ہیں۔ ذمہ دار حکومتی محکموں کو دیکھنا چاہیے کہ یہ قاتل دھاتی ڈور کہاں تیار ہوتی ہے، کہاں بکتی ہے اور پھر کہاں پتنگ کے ساتھ ساتھ قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جب تک اَربابِ اختیار خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوتے اور اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ بَرا ہونے کا بیڑہ نہیں اُٹھاتے‘ ہم اپنے موٹر سائیکل سوار نوجوانوں سے یہی کہیں گے کہ وہ اپنی بائیک پر حفاظتی شیشے کی ایک ونڈ اسکرین یا حفاظتی راڈ نصب کروائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply