مچھلی منڈی سے پارلیمنٹ۔۔۔رانا علی زوہیب

ایک عورت کی شادی ایک ایسی بستی میں ہوجاتی ہے جہاں مچھلی کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ مچھلی کے کاروبار کی وجہ سے اس بستی میں ہر وقت مچھلی کی بدبو پھیلی رہتی تھی۔ پہلے دنوں میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، چند دن ہی گزرے تھے کہ اسے بدبو آنا ختم ہوگئی اور وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہشاش بشاش زندگی گزارنے لگی۔ ایک دن اسکی ایک سہیلی اسے ملنے آتی ہے تو وہ عورت اسے کہتی ہے کہ ”دیکھا اس بستی میں جتنی بدبو تھی وہ کسی سے بھی ختم نہیں ہوئی لیکن میں نے یہاں آکر سب ختم کردی“۔ درحقیقت وہ اس بدبو کی عادی ہوجاتی ہے اور اسے محسوس نہیں ہوتا۔۔۔

ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک کے ہینڈسم وزیراعظم کا ہے کہ جو یہ خواب لیکر اقتدار میں آئے کہ وہ اس سسٹم سے بدبو کو ختم کردیں گے لیکن چند مہینوں بعد جب وہ خود اسی سسٹم کا حصہ بن گئے تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ میں نے اس سسٹم کو بدل دیا ہے اور جو فیصلہ میں کرتا ہوں وہ بدلے ہوئے سسٹم کا فیصلہ ہے لیکن حقیقت میں فیصلہ اسی بدبودار سسٹم کا ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب وزیراعظم کو وہ بدبو آتی نہیں ہے کیونکہ وہ خود اسکا حصہ بن گئے ہیں۔ یاد ماضی عذاب ہے یارب! یہ فقرہ ہر زبان زد خاص و عام اس وقت ہوتا ہے جب ماضی کی کوئی ایسی تلخ حقیقت سامنے آجائے۔ سونے پہ سہاگہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کے اپنے کہے ہوئے الفاظ ہی آپ کے گلے پڑجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمیشہ سے اپنے فیصلوں پر ”یوٹرن“ لینے والے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی ہوا۔

پاکستان عالمی طاقتوں کو اپنے شکنجے میں کرنے، جموں کشمیر کو فتح کرنے، پاکستان کی اکانومی کو اوپر لیجانے، ڈالر کو واپس 100 پر لانے، عدالتی نظام میں بہتری لانے، غریب کو سستا انصاف فراہم کرنے، اداروں سے کرپشن ختم کرنے، اپوزیشن سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے، کے پی کے نیب کو ایکٹو کرنے، بی آر ٹی منصوبہ مکمل کرنے، انڈیا کو تگنی کا ناچ نچانے کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا کہ باجوہ صاحب کی مدت ملازمت ختم ہوگئی۔

پاکستان کے سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو میڈیا میں اِن رہنے کی وجہ سے پاکستانی عوام میں بہت مقبولیت حاصل تھی جسکی وجہ انکا تعلق شہید میجر عزیز بھٹی اور شہید شبیر شریف کے خاندان سے تھا۔ اخبارات کی ہیڈلائن بننے والے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے کا جب وقت قریب آیا تو حکومتی ایوانوں کے علاوہ عام عوام میں یہ تشویش پائی جانے لگی کہ راحیل شریف ایکسٹینشن لے گا اور اسے لینی چاہیے کیونکہ ملک کے حالات کو جس طرح انہوں نے کنٹرول کیا تھا لگتا یوں تھا کہ پاک فوج میں ان جیسا جنرل کوئی اور نہیں ہے۔ آخری وقت پر قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جنرل صاحب کو بالآخر یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع کے خواہاں نہیں ہیں لہذا وہ ایکسٹینشن کو قبول نہیں کریں گے۔ اس وقت کے اپوزیشن کے ہٹلر یعنی عمران خان نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے جنرل راحیل شریف کے ایکسٹینشن نہ لینے کے فیصلے کو سراہا اور انکی تعریف کی۔

معروف ٹی وی پروگرام میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ راحیل شریف کو اگر ایک سال کی ایکسٹینشن دی جائے تو آپکا رد عمل کیا ہوگا؟ جواب میں سیٹ پر سیدھا ہوکر بیٹھ کر جناب عمران خان نے مغرب کی مثال کچھ یوں دی ”مغرب کے اندر آپ انکی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں، جنگ کے اندر بھی فرسٹ ورلڈوار ہورہی ہو یا سیکنڈ ورلڈوار ہورہی ہو انہوں نے کسی کو کبھی ایکسٹینشن نہیں دی“۔

آج پرائم منسٹر ہاؤس سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اگلے تین سال کے لیے انکی مدت ملازمت میں توسیع کردی۔ حکومت میں آنے کے ایک سال بعد بھی تاثر یہی دیا جارہا ہے کہ فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں، عمران خان فیصلہ کرکے اس پر قائم رہنے کے قابل نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ فیصلے پر قائم رہنے نہیں دیا جاتا اور فوراً  یوٹرن لے لیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مدت ملازمت میں توسیع کا سب سے بڑا دھچکا  ان فوجی افسران کو لگا ہوگا جو اس امید میں تھے کہ اگلا نمبر ان کا ہے۔ جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاک فوج میں انکے بعد کوئی قابل افسر نہیں ہے جو اس منصب کو سنبھال سکے۔ بقول پرائم منسٹر ہاؤس مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا گیا۔ماضی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کو غلط کہنے والے عمران خان نے آج موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے یہ ٹھپہ لگایا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن جمہوری حکومت پر بھاری ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے جو تاثر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان اور اسکی کابینہ میں اتنا دم نہیں کہ ملک کو سیاسی اور جمہوری طریقے سے چلا سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply