موت کے سوداگر۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی/قسط4

دس اقساط کی چوتھی قسط

سکندر کا سانس جیسے رکا ہوا تھا وہ اتنا ڈرپوک یا کمزور دل کا مالک نہیں تھا مگر اُسے یہ پریشانی ہو رہی تھی کہ اگر آنے والے اُسے دیکھ لیں تو لازمی بات ہے کہ پولیس کے حوالے کردیں گے کیونکہ وہ رات کے اندھیرے میں اِس جگہ چوری چھپے داخل ہوا تھا وہ بھی دیوار پھلانگ کر، کوئی بھی یہی سوچتا کہ وہ چوری کرنے کی خاطر اِس جگہ میں داخل ہوا ہے، وہ اِنہی سوچوں میں تھا کہ باہر سے اُن لوگوں کی باتوں نے اِسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

مائکل کیوں نہیں آیا ابھی تک؟
یہ آواز ظفر کی تھی جو آج اپنے باس دلاور کے کہنے پر یہاں آیا تھا۔۔۔!
اطلاع تو کردی تھی اُسے شاید ٹریفک میں پھنس گیا ہوگا، ساتھ کھڑے ایک گارڈ نے کہا
کچھ روشنی کرو اور گاڑیاں بند کردو، ظفر نے حکم دیا اور ٹہلتے ہوئے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا
ایک شخص اِسی طرف آنے لگا جہاں سکندر کمرے میں موجود تھا سکندر کے جسم میں جیسے خون منجمد ہوگیا وہ دروازے سے ہٹ آیا اور اندھیرے میں لڑکھڑتا ہوا کمرے کے آخرے سرے تک آپہنچا
اچانک دروازہ کھلا اور وہ شخص کمرے میں داخل ہوا، اُس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ٹارچ تھا، جیسے ہی اُس نے ٹارچ کا رخ اِس طرف کیا جہاں سکندر موجود تھا تو اُس کے منہ سے ایک چیخ نما صدا بلند ہوئی، اُس نے اپنے کسی ساتھی کا نام لیا تھا، ٹارچ والے کا ایک ہاتھ تیزی سے کوٹ کے اندر کی طرف گیا اور ایک پستول لے کر نمودار ہوا۔

گولی مت مارنا گولی مت مارنا!
سکندر نے انتہائی تیز آواز میں اُس آدمی سے کہا اور دونوں ہاتھ اٹھا دیئے، اتنے میں وہ دوسرا آدمی بھی کمرے تک پہنچ چکا تھا اُس کے ہاتھ میں بھی ایک ٹارچ تھی

کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟ پستول والے شخص نے سکندر سے پوچھا۔۔
مسافر ہوں راستہ بھٹک گیا تھا گاوں سے آیا ہوں نوکری ڈھونڈنے ۔جیب خالی تھی اِس لئے یہاں رات گزارنے دیوار پھلانگ کر آیا ہوں، سکندر نے ایک ہی سانس میں پستول کے خوف سے سب کچھ کہہ دیا
اِسے پکڑ کر باہر لاو، پہلے شخص نے دوسرے سے کہا
اور وہ شخص آگے آیا اور سکندر کو کالر سے پکڑ کر باہر کی جانب لے جانے لگا
باس!
یہ شخص اندر چھپا بیٹھا تھا اور بول رہا ہے کہ کوئی گاوں سے آیا ہے، اُس شخص نے سکندر کو باہر لانے کے بعد ظفر کو مخاطب کرکے کہا
کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟
ظفر نے سکندر کو گاڑی کے جلتے ہوئے لائٹس میں دیکھ کر پوچھا
جناب میں گاوں سے آج ہی آیا تھا اور سارا دن شہر میں آوارہ گردی کرتا ہوا یہاں تک آیا ہوں میں کوئی چور نہیں ہوں کام کاج کے لئے ہی اپنا گاوں چھوڑا ہے، سکندر نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔
یہاں تو دروازے پر تالہ لگا تھا پھر کیسے آئے اندر؟
دیوار پھلانگ کر آیا تھا!
اتنی بلند دیوار پر کیسے چڑھے تم؟
بس جی دو تین بار کوشش کی اور آخر کامیاب ہوگیا”
نام کیا ہے تمھارا؟
سکندر جناب!
کیا کام کرتے ہو؟
کچھ بھی سرکار جو بھی کام ہو کرلوں گا!
پستول چلانا جانتے ہو؟ ظفر نے سخت لہجے میں پوچھا۔
سرکار کبھی بندوق دیکھی نہیں نہ ہی کبھی گولی چلائی ہے مگر سیکھ سکتا ہوں کوئی سکھائے تو، سکندر کے لہجے میں کچھ اعتدال آیا
ہمارے ساتھ کام کرو گے؟
کام کے لئے ہی تو اپنا گاوں چھوڑا ہے ضرور کروں گا، سکندر نے جواب دیا
ظفر نے مسکرا کر اُس کے کندھے پر ہاتھ مارا اور کہا!
پہلے تمھاری جانچ ہوگی کہیں پولیس کا خبری تو نہیں پھر یہ کہ ہمارے دھندے میں زندگی چھوٹی اور دولت موٹی ہوتی ہے سوچ لو ایک بار آئے واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔

سرکار بڑی دولت میں خطرے نہ ہوں تو پھر دولت نہ ہوئی، سکندر نے جوشیلے انداز میں جواب دیا

بندہ جی دار معلوم ہوتا ہے سرکار دھندے میں کام آئے گا، ظفر کے ساتھ آئے ایک شخص نے کہا
یہ تو تب معلوم ہوگا جب گھوڑا اِس کے ہاتھ میں پکڑا دیں گے اور اکاونٹ کھولے گا، ظفر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
اِسی دوران ایک اور گاڑی کے آنے کی آواز سنائی دی اور دروازے سے گاڑی اندر آئی وہ ایک سیاہ رنگ کی پجیرو تھی جو کچھ لمحے بعد رکی اور اُس کا انجن بند ہوگیا اُس کے دروازے کھلے اور آگے اور پیچھے دونوں سیٹوں سے بیک وقت دو آدمی اُتر آئے، آگے والا آدمی کافی موٹا تھا اور اُس نے سفید رنگ کی پینٹ اور شرٹ پہنی ہوئی تھی گلے میں ایک پتلی سی چین بھی تھی وہ آگے بڑھا اور ظفر کی طرف ہاتھ بڑھایا
مل کر اچھا لگا مائیکل، ظفر نے اُس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
کام کی بات کریں، آنے والے نے جس کا نام مائکل تھا کہا۔

ضرور، ظفر مسکرایا

دلاور صاحب نے تمھارے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور یہ بھی کہ تم اُس کے بھروسے کے آدمی ہو!
دلاور صاحب کے لئے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں اُس کے بہت سے احسانات ہیں مجھ پر، ظفر نے کہا
ایک بڑا کام ہے جس میں خطرہ اور مال دونوں زیادہ ہیں۔۔ کر سکو گے؟
خطرے کی پرواہ مت کرو کام بتاو مائکل۔
ایک گاڑی مال ہے دو کھوکے ملیں گے اگر مال صحیح سلامت پہنچا تو!
پہنچانا کہاں ہے اور مال کیا ہے؟ ظفر نے پوچھا
مال کے بارے میں دلاور کو معلوم ہے تم صرف جگہ کے بارے میں سوال کرو اور یہ بھی جان لو کہ مال کروڑوں کا ہے، نقصان کی صورت میں کوئی بہانہ نہیں سنا جائے گا، مائکل نے خوفناک لہجے میں کہا
مائکل، اِس دھندے میں ہم بہت سوں کو اپنے قدموں کے نیچے روند کر آگے آئے ہیں اِس لئے فکر کی ضرورت نہیں، ظفر نے کچھ ناگواری سے جواب دیا۔

ظفر ایسا کچا کھلاڑی نہیں تھا کہ وہ مائیکل کی باتوں کا اثر لیتا وہ تو دلاور صاحب کے کہنے پر یہاں تک آیا تھا ورنہ اِسی وقت وہ مائیکل کو بتا دیتا کہ وہ جرم کی دنیا کا کیسا کھلاڑی ہے۔

دیکھو ظفر میں یہاں بحث کرنے نہیں آیا کام دیا ہے اور تم نے کرنے کی حامی بھر لی، اب ڈیل پکی اور مال کہاں اور کس جگہ پہنچانا ہے کل تمھیں اطلاع کر دی جائی گی اور جس جگہ سے مال اُٹھانا ہے وہ بھی بتا دیا جائے گا، مائیکل نے کہا
منظور ہے میں انتظار کروں گا، ظفر نے کہا اور مائیکل کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
مائیکل نے ظفر کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔

سکندر اِس سب واقعے پر غور کرتا رہا وہ ظفر اور مائیکل دونوں کی گفتگو کو غور سے سن رہا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لوگ کوئی قانونی کام نہیں کر رہے تھے ضرور دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے، اُس نے سوچا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے مگر اب وہ جاتا بھی تو کہاں نہ تو اُس کا کوئی جاننے والا تھا اور نہ ہی اُس کے پاس کام دھندا آخر کار اُس نے ایک فیصلہ کیا کہ جو بھی ہو دیکھا جائے گا اگر کام اُس کی پسند کا ہوا تو وہ کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرے گا اُسے پیسہ چاہئے تھا بہت سارا جو کہ اتنا آسان نہ تھا کہ کہیں چھوٹی موٹی نوکری کر کے مل جاتا انہی سوچوں میں وہ گم تھا کہ اُس کو کسی نے کندھے سے جھنجھوڑا اور وہ خوابوں کی دنیا سے نکال  لایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا سوچ رہا ہے، معلوم ہوا ہم کیا دھندا کرتے ہیں؟ وہ ظفر تھا
جی نہیں سرکار بس اتنا معلوم ہوگیا کہ آپ کام کے آدمی ہو ورنہ کوئی کیوں آتا آپ کے پاس اور مجھے خوشی ہوگی آپ کے ساتھ رہ کر، سکندر نے کہا
تمھارے جگر کی آزمائش کریں گے تب فیصلہ ہوگا کہ کام پر رکھیں یا نہیں کل تمھارا امتحان ہوگا، ظفر نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا اور اپنے آدمیوں کو واپس جانے کا کہہ دیا
سکندر بھی اُن کے ساتھ جانے لگا مگر عین اِسی وقت اُس کی آنکھوں پر کوئی کپڑا باندھا جانے لگا جس کا حکم ظفر نے دیا تھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply