یہ مٹن تمہارا ہے۔۔۔گل نوخیز اختر

چھوٹی عید پر میرا درزی یکم رمضان ہی کو دوکان پر لکھ کر لگا دیتا ہے’عید کی بکنگ بند ہے‘۔ اور ’’ لارج عید ‘‘ یعنی بڑی عید پریہ حال ہوتاہے کہ پچھلے ہفتے میں نے شرٹ سلنے کے لیے دی تو اگلے ہی دِن اُس کا فون آگیا کہ شرٹ کافی دیر سے تیارپڑی ہے۔بڑی عید پر لوگ نئے کپڑوں کے چکروں میں کم ہی پڑتے ہیں۔شاپنگ اور کپڑوں کا خرچہ تو جانور کی خریداری میں نکل جاتاہے۔ویسے بھی سارا دن تو قصائی کے ساتھ گوشت بنوانا ہوتاہے ‘ نئے کپڑے کون پہنے ‘ بلکہ آج تو ممکن ہے کہ کئی لوگ بیویوں پر برس رہے ہوں کہ میرے پھٹے ہوئے کپڑے کدھر ہیں؟یہی فائدہ ہے بڑی عید کا۔ چھوٹی عید پر سخت گرمی کے باوجود نئے کپڑے نہ پہننے کا کوئی جواز نہیں ہوتا جبکہ بڑی عید پر نماز سے فارغ ہوکر بندہ کچھا بنیان پہن کر اطمینان سے گلی میں بھی پھر سکتا ہے کہ اِس عید پر یہی لباس جچتا ہے۔آج کے دن جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوں سمجھ جائیے کہ صاحب حیثیت بندہ ہے ۔آج نماز عید کے بعد پورا دن ایسے ہی کپڑے پہننا پڑیں گے‘ شام کو تھک ہار کر لوگ سو جائیں گے۔ اصل عید کل شروع ہوگی جب گیراج دھل چکے ہوں گے‘ صفائی ہوچکی ہوگی اور باربی کیو پارٹیوں کے میسجز موصول ہوچکے ہوں گے ۔کئی میرے جیسے بھی ہوں گے جنہیں چھوٹے اور بڑے گوشت کی بجائے چکن سے رغبت ہے‘ سو ایسے تمام لوگوں کے ہاتھ میں پُٹھ کی بوٹی کی بجائے لیگ پیس نظر آئیں گے۔

آپ قربانی کر رہے ہیں تو خیال رکھئے گا کہ ران اور پائے وغیرہ پہلے ہی سائیڈ پر رکھ لیجئے گا‘ ایسی چیزیں باہر جاتی اچھی نہیں لگتیں۔ہاں سری بے شک کسی نہایت مستحق کے حصے میں آجائے ‘پرواہ نہیں۔ میرے ہمسائے میں ایک صاحب نے پچھلی دفعہ دو بکرے ذبع کیے۔ ان کے ہاں دو بہن بھائی کام کرتے ہیں‘ انہوں نے بھائی کو بلایا اور سریوں والے دونوں شاپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے’’پُتر اے لے پھڑ!اِک تیری سری‘ اِک تیری پین دی سری‘‘۔یہ وہی صاحب ہیں جن کے بارے میں اہل محلہ کا اجماع ہے کہ لوگوں کے کام آتے تو ہیں لیکن انتہائی بددلی سے۔شائدیہی وجہ ہے کہ قبلہ کے ہاں قربانی ہو تو گوشت سے زیادہ مینگنیاں سنبھال کر رکھتے ہیں۔

کوشش کیجئے گا کہ عزیز و اقارب کے حصے کا گوشت صرف وہاں وہاں جائے جہاں سے تقریباً اتنا ہی گوشت آنے کی اُمید ہو۔جن رشتہ داروں نے قربانی نہیں کی اُن کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں‘ کہیں نہ کہیں سے اُنہیں گوشت آہی جائے گا‘ آخر آج عید ہے۔اگر آپ نے میری ہدایت پر عمل کیا تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر آپ نے بیس کلو کے بکرے کی قربانی کی ہے تو سارا گوشت بانٹ کر شام تک آپ کے فریج میں تیس کلو گوشت آچکا ہوگا۔یہ خالص منافع تصورکیجئے اور کچھ اس طرح سے فریز کیجئے کہ پوری سردیاں اسی میں گذر جائیں۔یاد رہے کہ اگر آپ نے بکرے کی قربانی دی ہے اور آپ کو مسلسل اونٹ‘ گائے اوربیل کا گوشت موصول ہورہا ہے تواپنا مٹن سنبھال کر رکھئے اور ادل بدل کرکے بڑا گوشت ہی آگے چلاتے جائیے اور دل کی تسلی کے لیے بار بار خود کو تنبیہ کرتے رہیے کہ ’’یہ مٹن تمہارا ہے ‘ تم ہو پاسباں اس کے‘‘۔

قربانی کے جانور کی کھال دیتے وقت آپ نے خاص احتیاط کرنی ہے کہ کہیں آپ کی ’کھال‘ دہشت گردی میں نہ استعمال ہوجائے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گھر میں جو ملازم یا ملازمہ کام کرتی ہے اس سے اس کا تصدیق شدہ شناختی کارڈ مانگیں‘ ساتھ ایک حلف نامہ سائن کروائیں‘ دو پاسپورٹ سائز تصویریں ڈیمانڈ کریں اورہوسکے تو کھال دیتے وقت موبائل سے تصویر بھی بنوا لیں ‘ پھر بھی تسلی نہ ہو تو دو معتبر لوگوں کی گارنٹیاں بھی مانگ لیں۔ لیکن اگر آپ کسی خیراتی ادارے کو کھال دینا چاہتے ہیں تو مزید احتیاط کریں ‘ کہیں میرے والا حال نہ ہوجائے۔۔۔!!

آج سے تین چار سال پہلے یہی دن تھے‘ قربانی کی عید تھی۔ بکرے کی آوازیں سن کر دروازے پر بیل ہوئی‘ میں نے دروازہ کھولا تو ایک صاحب ہاتھ میں رسید بک پکڑے کھڑے تھے۔ سلام دُعا کے بعد فرمانے لگے کہ میں ’کھال فار آل‘ کی جانب سے آیا ہوں اور گذارش کرنی ہے کہ کل جب آپ بکرے کی قربانی دیں تو کھال ہماری تنظیم کو دیجئے گا۔ میں نے سرکھجایا اور کہا’محترم! صبح سے پندرہ بیس لوگ اسی طرح آچکے ہیں‘ سب کہتے ہیں کہ کھال انہی کی تنظیم کو دوں‘ ایک انار سو بیمار والا حال ہے‘ آپ ہی فرمائیے‘ ایک بکرا ہے‘ ایک کھال ہے‘ کس کس کودوں؟

جلدی سے بولے’دیکھئے ہماری تنظیم کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہم معذوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں‘‘۔ میں نے شکی نظروں سے دیکھا’کیا ثبوت ہے اس بات کا؟‘۔ انہوں نے رسید بک آگے بڑھا دی جس پر ان کی تنظیم کا نام اور کام لکھا ہوا تھا۔ میں نے بحث شروع کردی۔ ’’دیکھئے! فلاحی کاموں کا دعویٰ تو ہر کوئی کرتاہے‘ ایسی رسیدیں چھپوانا بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔میں آپ کوجانتا تک نہیں‘ نہ کبھی آپ کی تنظیم کا نام سنا ہے‘ پہلی بار آپ سے ملاقات ہورہی ہے ‘میں کیسے یقین کرلوں کہ جو کھال میں آپ کو دوں گا اس کے پیسے کسی معذور کے کام آئیں گے؟‘‘۔
انہوں نے ایک گہری سانس لی‘ پھرجیب سے ایک پاکٹ سائز مقدس کتاب نکالی اور اُس پر ہاتھ رکھ کر بولے’یہ دیکھئے میں اِس کتاب کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ آپ جو کھال مجھے عنایت کریں گے اس کے پیسے سو فیصد کسی معذور کو ہی ملیں گے‘‘۔ قسم بہت بڑی تھی ‘ بولنے کی گنجائش نہیں تھی لہذا میں یکدم چپ کر گیا‘ اتنی بڑی بات کے آگے میں مزید کیا کہتا۔ سو وعدہ کرلیا اور کہا کہ کل تقریباً دو بجے آکر کھال لے جائیے گا۔ انہوں نے رسید پر مجھ سے سائن لیے اور میں نے گیٹ بند کردیا۔
اگلے دن قربانی ہوگئی۔۔۔بوٹیاں بن گئیں۔

بہت سے لوگ کھال لینے کے لیے آئے لیکن مجھے اُنہی صاحب کا انتظار تھا جن سے میں وعدہ کرچکا تھا۔ٹھیک دو بجے بیل ہوئی۔دروازہ کھولا تو سامنے وہی صاحب کھڑے تھے۔ کل والی رسید اُن کے ہاتھ میں تھی اور دانت نکالتے ہوئے کھال مانگ رہے تھے۔ مجھے پھر شک سا ہوا‘ دیکھئے کل آپ نے قسم اٹھا کر وعدہ کیا تھا کہ ۔۔۔انہوں نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا ’’دوبارہ قسم اٹھا دوں؟‘‘۔ نہیں نہیں‘ رہنے دیجئے۔۔۔میں نے جلدی سے کہا اور کھال ان کے حوالے کرتے ہوئے یاد دلایا’مجھے امید ہے اس کھال کے پیسے کسی معذور کے پاس ہی جائیں گے‘‘۔
’’بے فکر رہیں ایسا ہی ہوگا‘‘ انہوں نے کہا اورسلام لے کر کھال کندھے پر ڈال لی۔ میں گیٹ بند کرکے اندر آنے ہی لگا تھا کہ اچانک کسی خیال کے تحت گلی میں جھانک کر دیکھا ۔۔۔قبلہ اطمینان سے ’لنگڑاتے‘ ہوئے جارہے تھے۔۔۔!!!

Advertisements
julia rana solicitors

ایک پرانا کالم

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply