عوامی شعور اپنے آخری پڑاؤ پر۔۔۔۔محمد انس انیس

ابھی تو صرف تسلسل کے ساتھ جمہوری عمل دوسرے مرحلے کو عبور کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ مجموعی قومی شعور اپنے افق کو چھو رہا ہے آپ اس دس سالہ دور میں مجموعی طور پر امن و استحکام کی پالیسیوں اور دونوں مرحلوں کا تجزیہ کرتے ہوئے عوامی شعور کے پیمانے کو جانچ سکتے ہیں. عوامی شعور جمہوری استحکام کے لیے شرط اول ہے اس سے متعفن جوہڑ کا گدلا پن مزید صاف ہو گا.

قومی شعور کا حال یہ ہے کہ اب کی بار عوام مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی اپنے اپنے حلقوں کی مجموعی کارکردگیوں کے حوالے سے بھی کڑا احتساب کر رہے ہیں. جس کی زد میں مختلف جماعتوں کے نمائندے آ چکے ہیں جنہوں نے تند و تلخ سوالات کی بوچھاڑ سے خوفزدہ ہو کر پتلی گلی سے   نکلنے میں ہی اپنی عافیت جانی . خصوصاً مختلف پارٹیوں کے کارکنان کارکردگی کے حوالے  سے جماعتی قائدین و نمائندگان پر سوال اٹھا رہے ہیں کرپٹ و من پسند عناصر کو ٹکٹ دینے پر دھرنے دیے جا رہے ہیں احتجاج ریکارڈ کروایا جا رہا ہے. اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں اور انفرادی طور پر اپنے اپنے حلقے کے مختلف نمائندوں کے مابین خوبیوں و خامیوں، خیر و شر کا تقابل کیا جا رہا ہے اب وہ دور لد گیا کہ جب خوشنما نعروں،کھوکھلے وعدوں کی بنیاد پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بیوقوف بنایا جاتا تھا یا لوگوں کو جاگیرداردانہ چکی میں پیس کر ووٹ حاصل کر کے سیاسی فتح کا جشن منایا جاتا ہے .

اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انتشار و عدم استحکام اور پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کی پالیسیوں کو بھی شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہے. عدلیہ و نیب کا جانبدارانہ کردار بھی نکھر کر سامنے آ چکا ہے جو کسی ذی شعور سے مخفی نہیں. یقیناً اس تبدیلی میں سوشل میڈیا نے حقیقی معنوں میں کردار ادا کیا ہے.عوامی شعور کا اندازہ یہاں سے لگا لیجیے کہ پچھلے کچھ دنوں سے راقم کی آوارہ گردیوں نے جنوبی و وسطی پنجاب کے سیاسی طور پر لاشعور و ناخواندگی کے شکار کسان طبقے   سے ملوایا جن کی باتوں نے واقعتاً راقم کو شدید خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا وہ جس طرز سے پنجاب کے جاگیردارانہ نظام   کے مخالف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں( بلکہ پورے پنجاب میں جاگیردارانہ سسٹم اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے) اور پھر سیاسی نمائندگان کی مجموعی کارکردگیوں کو جانچ کر مستقبل میں کسی نئے چہرے کو آزمانے نکلے ہیں اسی طرح وہ سیاسی عدم استحکام پر مبنی ریاستی پالیسیوں نواز شریف و مسلم لیگ اور پنجاب سے ن لیگی اراکین کی پکڑ دھکڑ؛ عدلیہ و نیب کے سیاسی جانبداری پر مبنی کردار، قومی افق کو دھندلا کرنے،پنجاب میں سیاسی انتشار پھیلانے اور ڈھیل کیساتھ آصف زرداری پیپلز پارٹی اور سندھ میں کرپشن کی اندھیر نگری مچانے کے باوجود عدلیہ و نیب کے خاموش تماشائی بننے پر جس طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں اس سے راقم کو اندازہ ہوا کہ یہ ٹوٹا پھوٹا سیاسی استحکام بھی عوامی شعور کی پختگی کے لیے کس قدر باعث غنیمت ہے جو مقتدر طبقے سے کسی صورت برداشت نہیں  اور مستقبل میں اس شعور میں مزید پختگی آئے گی. اس حوالے سے مذہبی مکتبہ فکر کی سیاسی معاملہ فہمی قومی و عالمی پالیسیوں کے حوالے سے تجزیاتی رائے ، آئین و قانونی جدوجہد پر اعتماد و اطمینان نے مسرت و حیرت کے جذبات پیدا کر دیے۔۔

اب حال یہ ہے کہ ریاستی پالیسیاں سیاسی حوالے سے  شدید کنفیوژن پر مبنی نظر آ رہے ہیں. جس شخص کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے اس حوالے سے بھی مکمل اطمینان و یکسوئی کی فضا نظر نہیں آ رہی قومی شعور اور مخالف عالمی مزاحمت کے باعث اس کنفیوژن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اس صورت حال میں  ملکی سلامتی کا حقیقی تقاضا یہی ہے کہ مزید جمہوری عمل میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں معاشی و خارجہ پالیسی کی کمان اب سویلین کے حوالے کر دینی چاہیے. عوام کے حق انتخاب کا احترام کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال اگر اسی طرح پرامن ڈگر پر بتدریج سیاسی سفر جاری رہا تو جلد ہی قومی افق نئی  صبح کا پیام لیکر طلوع ہو گا ۔

Facebook Comments

محمد انس
سچائی کی تلاش میں سرگرداں ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply