اے مٹن، پیارے مٹن، پاک مٹن۔۔۔منصور آفاق

برطانیہ میں گھر کے اندر بکراتوکجا مرغی بھی ذبح کرنا ممکن نہیں۔ناقابلِ ضمانت جرم ہے۔یعنی اس جرم میں وہاں کی عدالتیں پوری طرح نیب کے ساتھ ملی ہوتی ہیں ۔سوعیدِ قرباں کے روزایسا نہیں لگتا کہ وہاں مسلمان رہتے ہیں ۔نہ کسی گھر کے باہرزمین پرتہہ در تہہ خون جما ہوتا ہے نہ ہی گلیوں میں ’’اوجڑیوں ‘‘کے تجریدی آرٹ (ریلزم کے شاہکار)بکھرےہوتے ہیں ۔یہ جو ہر گلی میں دوچارکھالیں مانگنے والے جانبازدکھائی دیتے ہیں وہاں انہیں دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں ۔لوگ بیچارے مذبح خانوں میں اپنے نام پر بکرےذبح کراکے اُن کا گوشت گھروں میں منگوالیتے ہیں مگرزیادہ تر قربانی کی رقم مختلف رفاحی اداروں کی وساطت سےپاکستان بھیج دیتے ہیں۔یہاں ان کے نام کی قربانی کرکے گوشت غریبوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

علامہ سید ظفر اللہ شاہ بھی وہاں اسی طرح کے ایک ویلفیئر کے ادارے کے سربراہ ہیں ۔خیر اُن کے علم وفضل کا توپورا برطانیہ قائل ہے۔ برمنگھم میں شاید ہی کوئی اُن سے بڑا عالم ِ دین ہو ۔میں نے کوئی پانچ چھ سال اُن کے ساتھ مل کر سلطان باہو کے حوالے سے علمی و ادبی کام کیا ، سلطان باہو کی فارسی کتابوں کے اردو تراجم کئے ۔اُن کے فلسفہ ِ توحید کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔

علامہ صاحب کے پاس ہرسال قربانی کے لئے ایک خطیر رقم جمع ہوجاتی ہے ۔وہ یہ قربانیاں تھر کے علاقہ میں کرتے ہیں ۔انہوں نے تھر میں پانی ،بجلی اور خوراک کی فراہمی کےلئے بھی کروڑوں روپے خرچ کئے ۔ایک عید ِ قرباں کے موقع ہم دونوں تھر آئے ہوئےتھے ۔مٹھی میں قیام تھا ۔ ایک شخص اُن سےایک مسئلہ پوچھنےآیا ۔کہنے لگا۔ ’’ میں نے ایک بکرا چرایا تھا چونکہ چوری کے بکرے سے قربانی نہیں ہوتی اس لئے میں نے اسے بیچ دیا تھا۔ اس سے جو رقم حاصل ہوئی ، میں نےاس میں کچھ اور رقم ملا کر ایک بکرا خریدا ہے ۔اب اُس کی قربانی جائز ہے نا ‘‘شاہ صاحب بولے ۔’’ہرگز نہیں حرام کے مال سے خریدے ہوئے جانور کی قربانی نہیں ہوتی ۔‘‘وہ شخص اداس ہوگیا اور کہنے لگا۔ ’’حضورمیں ایک غریب آدمی ہوں اور بکرے اتنے مہنگے ہیں کہ اپنی قربانی ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پھرمیرا کاروبار تو ہے ہی چوری۔میں قربانی کےلئے حلال رقم کہاں سےلائوں ‘‘۔

شاہ صاحب نےپھر کہا۔ ’’نہیں بھائی چوری کے پیسوں سے قربانی نہیں ہوسکتی ۔قربانی کےلئے حلال کا مال ضروری ہے‘‘۔ اسے غصہ آ گیا، وہ اپنے علاقہ کے کئی امیرلوگوں کے نام لے لے کر کہنے لگا ۔ ’’اُن کی قربانی ہو جاتی ہے ،میری نہیں ہوگی۔اُن کی تورگ رگ میں حرام کا مال دوڑ رہا ہے ‘‘۔ شاہ صاحب بولے ۔’’یہ میری طرف سے لکھوالو کہ اگر ان کی دولت حرام کی ہے تو پھر ان کی قربانی بھی نہیں ہوگی ۔اللہ تعالیٰ کو گوشت اور ہڈیوں کی ضرورت نہیں ،وہ نیتوں کو دیکھتا ہے‘‘

یہ واقعہ یونہی نہیں یا د آیا۔گزشتہ رات ایک محفل میں مجھ سے ایک غریب آدمی نے ہنس کرکہا۔’’آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں ناآپ کے تو دوست ہیں کہ مرغے کی قربانی جائز قرار دے دیں ۔ہم غریبوں کی بھی قربانی ہوجایا کرے گی۔‘‘دورسے ایک دوست بولا۔’’انہوں نے توشتر مرغ کی قربانی جائز نہیں کی ، تم مرغ کی بات کرتےہو۔میں شتر مرغ پالتا ہوں۔ وہ قد میں بھی بکرے سے کم نہیں۔ حلال بھی ہے۔

میں نےاس غریب آدمی سے کہا۔ ’’تم فکر نہ کرو۔یہ جولوگ دکھاوے کےلئے لاکھوں روپے کےبڑے بڑے دنبے ،بکرے اور بیل خریدتے پھرتے ہیں ان کی قربانیاں نہیں ہونی ۔ ویسے بھی ان کا مال کونسا حلال کا ہوتاہے اورحرام مال سے قربانی ہوتی ہی نہیں ۔‘‘ وہ فوراً بولا ۔’’کیا آصف علی زرداری اور نواز شریف کی بھی قربانی نہیں ہوگی‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’نواز شریف کے معاملےپرتوعدالت فیصلہ دے چکی ہےمگر آصف علی زرداری کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔جب تک عدالت اسے چور قرار نہیں دیتی ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اُس کی قربانی نہیں ہونی۔‘‘

ویسے یہ عید جیلوں کے قیدیوں کےلئے تو سچ مچ کی عید بن چکی ہے۔ نوازشریف ،آصف علی زرداری، مریم نواز ،شاہد خاقان عباسی ، حمزہ شہبازاوررانا ثنااللہ جن جن جیلوں میں کریں گے۔وہاں تو قربانیاں ہی قربانیاں ہونگی ۔پھرآصف علی زرداری کے سوا باقی دوستوں کی جیل میں یہ پہلی عید ہے۔

یقیناً یہ اپنی قربانیاں وہیں ادا کریںگے ،وہیں نمازِ عید پڑھیں گے باقی چوروں لٹیروں ،ڈاکوئوں قاتلوں کے ساتھ ،وہیں بکرے ذبح ہونگے۔وہیں ان کی کھالیں اتاری جائیں گی ۔کھالیں لینے والے بھائی بھی جیل حکام سے رابطے میں ہیں ۔اب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںان کی قربانیاں قبول ہوتی ہیں یا نہیں یہ تو اللہ جانے ۔ مگراتناضرورہے کہ قیدیوں کو جیل کی مروجہ دال سےایک آدھ دن کےلئے تو نجات مل ہی جائے گی ۔ممکن ہے کسی کے منہ سے دعا نکل جائے ۔ویسے آج کل دال بھی سستی تھوڑی ہےمگرمٹن تو پھر مٹن ہےنا۔یقیناًکل قیدی گاتے پھرتے ہونگے ۔’’اے مٹن، پیارے مٹن، پاک مٹن، پاک مٹن۔۔ تُو مرے پیٹ کی جنت ،تُو ہی سرمایہِ تن ۔

یاد آیا کہ صبح ہمارے کشمیری بھائیوں کی بھی عید ہے۔پتہ نہیں عید کی نماز کےلئے کرفیو اٹھایا جاتا ہے یا نہیں ۔قربانی کا جانور خریدنے کی اجازت تو کسی کو نہیں ملی۔جمعہ کی نمازبھی کوئی کشمیری نہیں پڑھ سکا۔ چھ روز سے مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے۔غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے۔بیمار ادویات سے محروم ہیں ۔کوئی اخبار شائع نہیں ہو سکا ۔ ٹیلی وژن ، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ معطل ہیں۔ افسوس کہ عیدِ قرباں کے دن بھی لوگوں کو گوشت میسر نہیں۔ حیف صد حیف تجھ پر اے امتِ مسلمہ ۔تیری غیرت کو کیا ہوا ہے ۔پاکستان نے ابھی تک بھارتی جہازوں کےلئے ایئراسپیس بند نہیں کی۔ بھارت کی طرف سے آزاد جموں وکشمیر میں پھینکے گئے کلسٹر بموں کا ابھی جواب نہیں دیا۔مکمل طور پر سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔مسلم ممالک کو مجبور نہیں کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی مراسم ختم کریں ۔قوم عمران خان کے انتظار میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply